یہ حفاظتی باڑ کس کے لئے ؟


کہا جاتا ہے کہ اگر آپ اپنی سرحدوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے ملک کے باسیوں کو بنیادی حقوق دیں۔ ایسا کرنے سے سرحدوں کے تحفظ کے مسائل از خود کم ہوجائیں گے۔

شنید است کہ گوادر شہر میں باڑ لگانے کا کام جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ کام شہر میں حفاظتی اقدامات کے پیش نظر کیا جا رہا ہے۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ بلوچستان میں جو امن و امان کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہ مکمل حد تک درست نہیں۔ جس طرح ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے اسی طرح بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں پے در پے واقعات میں کمی رونما ہوئی ہے۔ سابقہ صوبائی حکومت بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنے دور حکومت میں اس بات کا برملا اظہار کیا کہ وہ بلوچستان میں ایمرجنسی بالخصوص مسنگ پرسنز کے مسائل پرنہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے انتخابات میں اکثریت بھی اسی وجہ سے حاصل کی۔ اقتدار ختم ہو جانے کے بعد ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے ایک انٹرویو میں خود اعتراف کیا کہ وہ بحیثیت وزیراعلیٰ مسنگ پرسن کے مسئلے کو چاہنے کے باوجود حل کرنے میں ناکام رہے۔

وزیراعظم پاکستان نے کچھ دنوں پہلے بلوچستان کا ایک مایوس کن دورہ کیا۔ ایک طرف جہاں بلوچستان کی عوام یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ یہ ایک کامیاب دورہ ہوگا اور بلوچستان کے عوام اور وہاں کی خوشحالی کے لئے بڑے اعلانات سامنے آئیں گے وہاں صوبائی حکومت کی صورتحال بھی کھسیانی بلی کی مانند تھی۔

ایسے وقت میں جب بلوچستان کی عوام سخت مایوس ہے جہاں صوبائی حکومت اپنی کارکردگی دکھانے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے جہاں یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کیا موجودہ صوبائی حکومت اور عسکری قوتوں کے مابین تعلقات میں کسی حد تک انڈر اسٹینڈنگ موجود ہے ( گو کہ ایک عام خیال ہے کہ جام حکومت اسٹیبلشمنٹ کے لئے تر نوالہ ثابت ہوں گے اس وقت گوادر شہر میں باڑ لگائے جانے جیسے اقدامات چی معنی دارد؟

سوال یہ ہے کہ یہ باڑ لگانے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی، بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی کئی ایسے شہر ہیں جہاں دہشت گردی کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں کیا ان تمام شہروں کو اسی طرح سے خاردار تاروں سے جکڑ دیا جائے گا؟

گوادر سے متصل ایرانی سرحد کو رملان کہا جاتا ہے اور ایرانی سیستان سے چاہ بہار پورٹ صرف 130 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ چاہ بہار پورٹ گوادر پورٹ کے لحاظ سے کافی چھوٹی پورٹ ہے مگر ہم وہاں کے شہر کی صورتحال کا گوادر سے موازنہ کریں تو گوادر کافی پسماندہ نظر آئے گا۔

یاد رہے یہ بھی ان سرحدوں میں شامل ہے جہاں اسمگلنگ کا سامان بڑی تعداد میں پاکستان آتا اور جاتا رہتا ہے جس میں ایرانی پیٹرول ہو یا پاکستانی مصالحہ جات بہت کچھ شامل ہے۔ گزشتہ ماہ ایران کے وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا اس دوران ایرانی اور پاکستانی حکام نے گوادر سے متصل سرحد کو کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

بہرحال پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے اس خوبصورت ساحلی شہر کو سی پیک کے ثمرات ابھی موصول ہونا شروع بھی نہیں ہوئے، شہر کے اطراف باڑ لگانے کے اس کام کے آغاز کے ساتھ نہ صرف قوم پرست سیاسی لیڈروں، مقامی سطح پر بھی چہ میگوئیاں اور بے اعتمادی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ گوادر کے مقامی رہائشیوں کے مطابق یہاں قائم پہلے سے چیک پوسٹوں سے وہ نالاں ہیں، جب بھی شہر میں کسی قسم کی وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے مقامی آبادی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔

اختر جان مینگل جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی ( بی این پی) نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنا ردعمل کچھ یوں ظاہر کیا کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے لفظ ”مقبوضہ پاکستان“ استعمال کرنے سے گریزاں تھے لیکن لگتا ہے کہ مگر اب استعمال کرنا ہوگا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت فیصلے کی سنجیدگی کا احساس کرتے ہوئے مقامی افراد، قوم پرست جماعتوں کو اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں اعتماد میں لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).