کیا آپ کی ڈائری میں زندگی بدلنے کا منتر چھپا ہے؟


محترم قارئین آپ پچھلے کچھ ہفتوں سے میرے قلم سے ”ایک عام لڑکی کی ڈائری“ پڑھ رہے ہیں، دوسری جانب آپ میں سے کئی قارئین نے گرین زون سیمینار کے حوالے سے کچھ مضامین پڑھے ہوں گے اور اس کا بھی امکان ہے کہ کچھ نے اس کے پہلے سیشن میں شرکت کی ہو۔ اس سیمینار سے پہلے خالد صاحب بارہ ممبران پہ مشتمل ایک پائلٹ پراجیکٹ کامیابی سے مکمل کر چکے ہیں جس میں، میں بھی بطور طالب علم شریک تھی۔ عام لڑکی کی ڈائری لکھنے کا محرک بھی کسی حد تک اس پائلٹ پراجیکٹ میں شمولیت ہے۔ ڈائری آپ کو بیک وقت فکشن اور حقیقت دونوں کا مزا دیتی ہے۔

آج آپ کو ایک دلچسپ راز بتاؤں کہ لکھنے اور کاپی کمپلیٹ کرنے سے میری ہمیشہ جان جاتی تھی اور ہے۔ مجھے لکھنے سے بہتر بولنا لگتا ہے۔ لیکن یہ بھی میرا مشاہدہ ہے کہ میرے لکھے ہوئے الفاظ میرے کہے ہوئے الفاظ سے زیادہ مربوط ہوتے ہیں۔ لکھے ہوئے الفاظ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کئی بار انہیں پڑھ سکتے ہیں اور ان کی مختلف جہات پہ سوچ سکتے ہیں۔ اور اپنی ذات سے متعلق الفاظ آپ کے لیے مزید مددگار ہوتے ہیں۔

گرین زون ڈائری سے متعلق تعارف کسی حد تک پہلے سے تھا جس کا ذریعہ جناب خالد سہیل صاحب کے مضامین اور ان سے ہونے والی گفتگو رہی تھی۔ لیکن اس نظریہ کو ڈائری لکھنے کے سفر میں قدم بہ قدم سیکھنا اور سمجھنا ایک منفرد تجربہ ہے۔ جہاں ایک طرف میں نے ہر گزرتے ہفتے اپنی ذاتی زندگی کے گرین یلو اور ریڈ زونز کی نشاندہی سے لے کر ریڈ زون کو بتدریج یلو اور پھر گرین زون تک لانا سیکھا وہیں دوسرے شرکاء کے تجربات سے بھی سیکھنے کا موقع ملا۔

ایک طرف ہم میں سے کئی افراد کے ریڈ زون میں جانے کے محرکات ایک جیسے تھے، کہیں کہیں ہمیں گرین زون میں رکھنے والے عوامل بھی ایک جیسے تھے وہیں بہت سے محرکات اور عوامل بہت منفرد بھی تھے۔ ہر ایک کا خود کو گرین زون میں رکھنے کا طریقہ منفرد تھا۔ یقیناً آپ جاننا چاہیں گے کہ یہ گرین زون کیا ہے۔ محترم خالد سہیل نے بہت سہل انداز میں ہمارے بے شمار پیچیدہ احساسات کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر حصے کو ایک ٹریفک لائٹ سے تشبیہ دی ہے۔

جس طرح ٹریفک سگنل لال پیلی اور ہری لائٹس پہ مشتمل ہوتا ہے یہ تین رنگوں کی لائٹس ہمیں سفر روک دینے، جاری رکھنے یا خود کو تیار رکھنے میں رہنمائی کرتی ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے احساسات کو سمجھنے کے لیے انہیں مختلف رنگوں کے زونز سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ گرین زون پرسکون احساسات کی ترجمانی کرتا ہے، یلو زون بے چینی اور غیر یقینی کی کیفیت کا ترجمان ہے جب کہ ریڈ زون شدید ذہنی و جذباتی انتشار کو ظاہر کرتا ہے جب ہم یا تو شدید ردعمل دکھاتے ہیں یا دکھانا چاہتے ہیں اور اگر نہیں دکھا پاتے تو مزید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بقول خالد سہیل صاحب ہمیں یہ سیکھنا ہے کہ جس طرح ہم کبھی بھی اپنی گاڑی ریڈ سگنل پہ کھڑی نہیں چھوڑ سکتے اسی طرح زندگی میں بھی ریڈ زون سے نکلنے کے اسباب پہ توجہ دینی ضروری ہے۔ جذبات کی گاڑی ہمیشہ کے لیے ریڈ یا یلو زون میں کھڑی نہیں چھوڑنی۔

میں اگر پہلے اپنی بات کروں تو گرین زون ڈائری کی مدد سے میں نے اپنے بدلتے احساسات کی نشاندہی بہتر طور پہ کرنا سیکھی خاص طور سے ایک زون سے دوسرے زون میں دھکیل دینے والے محرکات کی نشاندہی اہم تھی۔ جس کی بناء پہ میں اس قابل ہو سکی کہ پہلے اس بات کا شعور پا سکوں کہ کون سے عوامل مجھے کس وقت گرین سے ریڈ زون میں لے جاتے ہیں اور کون سے مجھے گرین زون میں لاتے ہیں۔ میری اپنی شخصیت کے ان پہلوؤں پہ بھی توجہ گئی جن پہ پہلے نہیں تھی جس کے باعث میں اس قابل ہو گئی کہ پہلے کی نسبت بہتر طور پہ معاملات اور واقعات کو اپنے کنٹرول میں کرسکوں حالاں کہ پہلے بہت سے حالات میں میں خود کو ان حالات میں ماسٹر آف سچویشن سمجھنے سے قاصر تھی اور اپنے کچھ مسائل یا کچھ روابط میں آنے والی رکاوٹوں کو معاشرتی عوامل سمجھ کر ان پہ پریشان تھی۔

یہ تکنیک اس لیے بھی عمدہ ہے کہ یہ جہاں ایک طرف یہ انتہائی سادہ ہے وہیں انفرادی درجے سے معاشرتی درجے تک ہمیں اپنے مسائل حل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

تو چلیے پہلے میری ایک دن کی ڈائری پڑھیے پھر آگے سیمینار سے متعلق کچھ اور بات کرتے ہیں۔
******
آج صبح میں سوا آٹھ کے بعد جاگی۔ ناشتہ بنایا تیار ہوئی۔ آفس پہنچی

آج بھی آفس بوائے طبیعت خرابی کے باعث نہیں آیا تھا۔ کواورڈینیٹر صاحب بھی آفس کے کام سے میٹنگ میں تھے۔ گیٹ پہ کھڑے سامنے والوں کے ڈرائیور نے بتایا کہ سوئپر تھوڑی دیر میں آئے گا اس کی بھابھی کا انتقال ہو گیا ہے۔ لیکن وہ پانچ دس منٹ بعد ہی آ گیا۔ میں اس سے پہلے اپنے لیے ٹی بیگ والی چائے بنا چکی تھی۔ جو مجھے خاص پسند نہیں پتا ہوتا کہ وہ آئے گا تو دو کپ چائے کا دودھ منگوا لیتی۔

پھر میں نے پرانے ڈیٹا کی کلائنٹ سمری بنانی شروع کردی جس کے لیے ہیڈ آفس سے کہا گیا تھا۔ صرف 2016 کی سمری بنانے میں ہی کافی وقت لگ گیا۔ پرانے کلائنٹس کی کیس ہسٹری دیکھ کر طبیعت اداس ہو گئی۔ یہ یلو زون تھا میرے حساب سے۔ اعصاب پہ بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔ کام کرتے کرتے بھوک لگنے لگی تو فوڈ پانڈا پہ آرڈر کر دیا لیکن وہ بھی آنے میں بہت وقت لگ گیا۔ کھانا کھا کر دوبارہ اسی سمری بنانے میں لگ گئی۔ کام کرتے کرتے طبیعت اتنی بوجھل ہو گئی کہ دل چاہا اس کیفیت پہ افسانہ لکھوں۔

لیکن پھر کام رہ جاتا۔ میں نے افسانے کی چند سطریں لکھ لیں تاکہ بعد میں وقت ملنے پہ اس کونسیپٹ پہ تحریر مکمل کرسکوں۔ سارا ڈیٹا تقریباً چار ساڑھے چار بجے جاکر کمپائل ہوسکا۔ یہ گرین اور یلو کے درمیان کا حصہ رہا۔ اس دوران ایک کلائنٹ سے بھی موبائل پہ بات کی۔ باقی وقت ذہنی تھکن کم کرنے کے لیے ریلیکس کر کے گزارا۔ چھٹی کے بعد پوسٹ آفس سے اپنی کتاب ایک خریدار کو بھیجی۔ مارکیٹ سے کچھ سامان خریدا۔ گھر آ کر بھی ایک جاننے والی آ گئیں جن کو کچھ جذباتی مسائل میں مدد چاہیے تھی۔

ان سے بات کر کے رات کا کھانا کھایا مجلس میں سے حلیم آیا ہوا تھا جو مجھے بہت پسند ہے (حلیم عموماً مجھے گرین زون میں لے جاتا ہے ) پھر رات والی ٹریننگ دی۔ مناسب گئی نہ بری نہ بہت اچھی۔ یہ سب گرین زون رہا۔ رات ہوتے ہوتے گیسٹرک پین شروع ہو گیا ساتھ ہی نیند آنے میں بھی مسئلہ ہونے لگا۔ کچھ دیر ایک ویب سیریز دیکھی پھر سونے کی کوشش کرنے لگی۔

ریڈ زون 0 گھنٹے
یلو زون پانچ گھنٹے
گرین زون انیس گھنٹے
******

یہ تو تھا میرے ایک دن کا احوال آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ ہمارے عام سے روٹین میں ہی کس طرح زونز کو الگ کر سکتے ہیں۔ یہ تجربہ بہت غیر محسوس انداز میں ہمیں اپنی ذات کا ادراک دیتا چلا جاتا ہے۔ جب آپ ڈاکٹر خالد سہیل کی رہ نمائی میں قدم بہ قدم گرین زون فلسفے کے ہر قدم کو سیکھتے ہیں تو بہت منظم انداز میں اپنی زندگی اور اس پہ اثر انداز ہونے والے اندرونی و بیرونی عوامل کا مشاہدہ کرنا سیکھتے ہیں۔ گرین زون ڈائری آپ کو اپنی ذات پہ اختیار بڑھانے میں بہت سہل انداز میں مدد کرتی ہے۔

اس تکنیک کی مدد سے میں نے بہت جلد کلائنٹ کو آمادگی کے فیز میں آتے دیکھا۔ ہم خود بھی جب اس پراجیکٹ کا حصہ تھے تو ہر ہفتے کے ساتھ اجنبیت کی دیواریں گرتی گئیں وہ مسائل جن سے ہم خود بھی آنکھیں چرا رہے تھے وہ کئی افراد کے سامنے بیان کرنے کی ہمت ہوئی اور سب سے اہم بات، بتدریج یہ احساس پالینا کہ ہماری زندگی پہ ہمارا کنٹرول ہے یہ بہت عمدہ ہے اور یہ احساس پانا ہر کسی کا حق ہے۔

میرے لیے گرین زون تھیراپی بطور انسان اور بطور سائیکالوجسٹ بہت مددگار ثابت ہوئی ہے۔

محترم خالد سہیل نے اپنے اس فلسفے کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے فری آن لائن سیمینارز کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کا پہلا سیشن بارہ دسمبر بروز ہفتہ منعقد ہو چکا ہے جس میں تقریباً سو سے زائد افراد نے شرکت کی اور اس فلسفے کی بنیاد اور ابتداء کے بارے میں محترم خالد سہیل اور محترمہ ثمر اشتیاق صاحبہ کی پر مغز گفتگو سنی۔ اس سلسلے کے مزید سیشنز آئندہ آنے والے ماہ میں ہوں گے۔ جنہیں محترم خالد سہیل نے پہلے دوسرے تیسرے قدم کا نام دیا ہے۔ یہ مکمل سفر تقریباً سات قدم پہ مشتمل ہے۔ اتنے مختصر اور دلچسپ سفر کا موقع کم کم ہی ملتا ہے۔ جو ناصرف مختصر ہو بلکہ زندگی بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہم سب آپ کو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔

اگلا سیشن جو کہ گرین زون رشتوں کی تعمیر سے متعلق ہوگا وہ تیس جنوری بروز ہفتہ زوم وڈیو کے ذریعے منعقد ہوگا یہ پاکستانی تقریباً رات آٹھ سے دس کا وقت ہوگا۔ جس میں محترم خالد سہیل صاحب کے ساتھ ساتھ ثمر اشتیاق صاحبہ اور میں یعنی ابصار فاطمہ شرکاء سے گرین زون فلسفے کی مدد سے مثبت اور مضبوط رشتوں کے قیام کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔ اسی طرح ہر ماہ کے آخری ہفتے، گرین زون سے متعلق مختلف موضوعات پہ سیمینار جاری رہیں گے۔

آپ بھی اس میں رجسٹریشن کروا سکتے /سکتی ہیں۔ بس اپنے مختصر کوائف نیچے دیے ہوئے ای میل ایڈریس پہ بھیجیے اور مقررہ تاریخ سے پہلے آپ کو زوم وڈیو سیشن کا لنک موصول ہو جائے گا۔

welcome@drsohail.com
Registration form
Name:
Age:
Gender:
City:
Country:
Qualifications:
Profession:
whatsapp contact:
email address:

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima