نظام میں کرپشن یا کرپٹ نظام


پاکستان میں جب کبھی عوام مہنگائی اور بدانتظامی کے خلاف سراپا احتجاج ہوتے ہیں تو ہمارے حکمران فوراً یہ راگ آلاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ ماضی کے حکمرانوں نے کرپشن کی ہے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور کرپشن ہے اور اس کا سدباب یہ ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ دوسری جانب اپوزیشن یہ واویلا کر رہی ہوتی ہے کہ مہنگائی موجودہ حکومت کی نا اہلی اور بد انتظامی کی وجہ سے ہے اس لیے موجودہ حکومت کا خاتمہ ضروری ہے اور وہ اقتدار میں آ کر مہنگائی کو ختم کر دیں گے۔

جبکہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو ہر موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی اور بد انتظامی اپنے عروج پر ہی ہوتی ہے اور اس کے بعد آنے والی حکومت کے دور میں اس بھی زیادہ ہوتی ہی چلی آ رہی ہے اور اس میں مارشل لاء سے لے کر نام نہاد جمہوری حکومتیں سب شامل ہیں تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ صرف حکومتوں کی اور شخصیات کی تبدیلی سے کرپشن اور بدانتظامی میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ دراصل کرپشن کی صرف ایک بنیادی وجہ ہے اور وہ ہے معاشرے میں طبقات کا وجود میں آنا اور یہ طبقات مال و دولت کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں جو اپنے مال و زرکی ہی وجہ سے دیگر لوگوں کو اپنے کاروبار میں نوکریاں دے کر خود سیٹھ یا جاگیردار بن جاتے ہیں اور اپنی اس حیثیت کی بناء پر تمام سماجی مراعات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

طبقاتی معاشرہ تین طبقات میں تقسیم ہوتا ہے اور تینوں طبقات بھی اپنے اندر بہت سی پرتیں رکھتی ہیں ان تمام طبقات اور ان کی تمام پرتوں میں اپنے سے اگلی پرت اور اگلے طبقہ میں جانے کی ایک دوڑ لگی ہوتی ہے تاکہ وہ بھی سماج میں وہ مقام اور وہ مراعات حاصل کر سکیں جس سے وہ اور ان کی نسلیں محروم ہیں اس دوڑ کو مقابلہ یا انگریزی ہیں کمپٹیشن کہا جاتا ہے۔ پورا سرمایہ دارانہ نظام اس دوڑ کے سہارے کھڑا ہوتا ہے کیونکہ بقول اس نظام کے معیشت دانوں کے یہ مقابلہ ہی ہے جو معاشرے کو آگے کی طرف دھکیلتا ہے نہیں تو فرسودگی اور جمود اس کو ختم کردے گا یا یہ کہہ لیں کے یہ غربت اور محرومی ہی ہے جس کو ختم کرنے کی جستجو ہی ہے جو معاشرے کو آگے کی طرف بڑھاتی ہے اور اگر یہ بات تسلیم کر لیں تو پھر یہ دعوی غلط ہے کہ اس سرمایہ داری نظام میں غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔

اگر ہم مشاھدہ کریں تو وہ تمامتر علاقے جہاں کم از کم ایک طبقے کے لوگ رہتے ہیں وہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں جیسا کہ اگر آپ تھر کے علاقے میں جائیں تو اپکو ان کے کچے گھروں میں دروازے بھی نظر نہیں آئیں گے لیکن آپ کو چوریاں بھی شاید ہی نظر آئیں لیکن ان کے علاقے کے جو وڈیرہ ہوگا اس کے گھر کے باہر نہ صرف دروازہ ہوگا بلکہ اسلحہ بردار محافظ بھی نظر آئیں گے کیونکہ یہاں طبقاتی تبدیلی کی وجہ سے جرم کا خطرہ موجود رہے گا اور یہ خطرہ دونوں طبقات کے درمیان ہوگاوڈیرے کو خطرہ ان کی بھوک اور غربت سے ہوگا اور غریب ہاریوں کو وڈیرے اور اس کے گماشتوں کی طاقت کے زور پر من مانی سے ہوگا۔

اسی طرح بہت امیر گھرانوں کے لوگ اپنی رہائشی علاقوں کو چار دیواری میں رکھتے ہیں اور باہر سخت سیکیورٹی کے انتظامات کرتے ہیں اور ان علاقوں میں روزانہ کام کے غرض سے آنے والوں کی بھی سخت چیکنگ ہوتی ہے تاکہ کسی جرم کا اندیشہ نہیں رہے۔ یہ بتانے کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ جرم اور کرپشن کی بنیادی وجہ معاشرے میں طبقات کا وجود ہے۔ اس سرمایہ داری نظام میں لوگوں کو دولت کا چکاچوند سراب دکھا کر ان کا استحصال کر کے چند لوگ اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں۔

ویسے کوئی ان معیشت دانوں اور فلاسفروں سے پوچھے جو مقابلہ کومقدم ٹھیراتے ہیں کہ یہ پورے معاشرے کو آگے بڑھاتا ہے کہ کیا اس سرمایہ دارانہ معاشرے تک بغیر کسی مقابلہ کی دوڑ کے یہ سماج آگے بڑھ کر اس مقام تک کیسے پہنچا ہے تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا ہے۔ بہرحال یہ ایک اور بحث ہے جس پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے اب ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دولت، طاقت اور اختیار ان کی طلب اور خواہش کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ مزید سے مزید کے لیے بڑھتی چلی جاتی ہے اس لیے امیر طبقہ اپنی دولت کو بڑھاتا رہتا ہے تاکہ اس سے اس کی طاقت میں اضافہ ہو جس سے وہ اپنے اختیارات میں اضافہ کر سکے۔

کرپشن دو چیزوں سے خوب پنپتی ہے ایک شخصی حکومت جس کو آمریت کہا جاتا ہے اور دوسری ذاتی مفاد سے جس کو پرائیویٹ سیکٹر کہا جاتا ہے۔ شخصی حکومت یا آمریت میں آمر اور اس کے حواری ہر طرح سے بالاتر ہوتے ہیں اس لیے کرپشن کرنا ان کے لیے محفوظ ہوتا ہے اس کا مشاہدہ ہم باآسانی کہیں بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ذاتی مفاد بھی کرپشن میں اضافہ کا دوسرا اہم سبب ہے۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ سرکاری اداروں اور محکموں میں لوگوں کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا اس لیے لوگ سست روی کا شکار ہوتے ہیں اور نجی شعبہ میں چونکہ ذاتی مفاد ہوتا ہے اس لیے اس میں ترقی ہوتی ہے۔

یہ ذاتی مفاد دراصل ذاتی منافع اور زیادہ سے زیادہ لالچ کا نام ہے جس میں ٹھیکے حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کی رشوت دی جاتی ہے۔ تعلقات کے نام پر سرکاری افسران کو شریک کاروبار کر کے بڑے ٹھیکے حاصل کیے جاتے ہیں جس سے سرکاری ملازمین میں کرپشن کو فروغ حاصل ہوتا ہے اوراس سے معاشرے میں ایک تو طبقاتی تقسیم گہری ہوتی ہے جس سے بالخصوص تعلیم اور صحت کے ادارے امراء میں اور غرباء میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اپنی اسی دولت کی وجہ سے یہ طبقہ تمام پیداواری وسائل پر قابض ہوتا چلاجاتا اور ان کو چلانے کے لیے عوام کو یہ اپنے ہاں ملازمت دیتا ہے تاکہ اس کی صنعت چلے اور اپنے آپ کو اس طور پر پیش کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کو روزگار نصیب ہوا ہے حالانکہ ان لوگوں کی وجہ سے اس کی دولت میں بیش بہا اضافہ ہو رہا ہوتا ہے اور ان ملازمین کو ماسوائے بالکل ہی چند لوگوں کے معاوضہ بھی ان کی محنت کے بجائے ان کی مجبوری پر طے ہوتا ہے یعنی یہ معاوضہ محنت کے تناسب سے نہیں ملتا ہے بلکہ وہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اور ان کی نسلیں بس تمام عمر یہی کام کرتے رہیں۔

یہ اپر کلاس اپنے لیے ایک ایسا رہن سہن اور ماحول تخلیق کر لیتے ہیں جو مجموعی طور پر معاشرے میں نہیں پایا جاتا۔ ان کی نہ صرف رہائشی جگہیں عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہیں بلکہ تعلیمی ادارے، اسپتال، تفریحی مقامات اور کھانے پینے کی جگہیں بھی مختلف ہوتی ہیں بلکہ اب تو ان کے قبرستانوں میں بھی کسی دوسرے علاقے کا شخص دفن بھی نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے مجموعی طور پر معاشرے میں حسرت اور بے اطمنانی جنم لیتی ہے۔ بالائی طبقہ اور اس کی تمام پرتیں یہی کام کر رہی ہوتی ہیں جبکہ مڈل کلاس تمام عمر اسی حسرت میں گزار دیتے ہیں کہ وہ بھی کسی طرح سے اس بالائی طبقہ کی کسی پرت میں شامل ہوجائیں اور جیسا کہ مارکس نے مڈل کلاس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ وہ طبقہ ہوتا ہے جس کے پاؤں کیچڑ میں لیکن نظریں آسمان کی طرف ہوتی ہیں۔

1990 ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ دارانہ دنیا میں سوشل ڈیموکریسی اور لبرل ازم کا بھی خاتمہ ہوا اور نیو لبرل ازم کا ڈنکا بجا جس میں اب عوام کے لیے کچھ بھی مفت میں نہیں ہوگا کا نعرہ تھا۔ یورپ کے بہت سارے ممالک نے اپنے آپ کو اب ویلفیئر ریاست کے طور پر ختم کر دیا اور جنہوں نے اس کا اعلان نہیں کیا انہوں نے بھی عملاً اس کا خاتمہ کر دیاماسوائے سکینڈے نیویا کے ممالک کے لیکن انہوں نے بھی بہت سی مراعات میں کٹوتیاں کیں ہیں بلکہ اب وہاں بھی وہ پہلے جیسی بات بھی نہیں ہے۔

اس نیو لبرل پالیسی کے تحت اب ملکوں کی معاشی پالیسیاں مفاد عامہ میں نہیں بلکہ مفاد کاروبار میں تبدیل ہو گئیں ہیں جس کے تحت ملکوں کی مجموعی خوشحالی کا پیمانہ ان کے کاروبار کی ترقی سے ہے۔ اس لیے اب ملازمین کو مستقل نوکری کے بجائے کنٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے تاکہ منافع کی صحت دیکھتے ہوئے ان کو کسی بھی وقت نکالا جاسکتا ہے نجی شعبہ تو اب دور کی بات سرکاری شعبہ سے بھی پنشن اور صحت کی سہولیات ختم ہونے جا رہی ہیں ایسے میں جو لوگ کسی بھی روزگار سے وابستہ ہیں وہ اپنے کل کو محفوظ بنانے کے لیے آج ہی کسی بھی طریقہ سے پیسہ بنانے کی سعی کرتے ہیں تاکہ کل جب ان کو کسی بھی وجہ سے روزگار سے الگ کیا جائے تو ان کے پاس بچوں کا پالنے کے لیے کچھ تو ہو۔

ایک زمانہ تھا جب لوگ کہتے تھے کہ ریٹائرمنٹ پر جو پیسے ملیں گے اس سے گھر بنالیں گے یا بچوں کی شادیاں کر دیں گے لیکن اب یہ ممکن نہیں رہ گیا اس وجہ سے معاشرے میں مزید کرپشن کوبہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ باور رہے کہ اسی کو نجی شعبہ کا ذاتی مفاد کہا جاتا ہے جس پر تمام سرمایہ داری کھڑی ہے اور یہی وہ نجی شعبہ ہے جس کو ہم کئی بارآٹا، چینی، پٹرول اور تعلیمی اداروں کے مافیا کے طور پر بھی ذکر کرتے ہیں۔

آپ کو شاید یاد ہو چند سال پیشتر حمزہ شہباز کی ایک ویڈیو کلپ بہت وائرل ہوئی تھی جس میں وہ کسی اسکول کے بچوں کو کہہ رہا ہوتے ہیں کہ بچو اس نظام میں کرپشن تو ہوتی ہے۔ اپنے تمامتر اختلاف کے باوجود وہ بات تو بالکل صحیح کہہ رہے تھے اور اس بات کا ادراک ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم صاحب کو بھی ہے جو الیکشن سے پہلے ووٹ حاصل کرنے کے لئے 90 دن میں کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے تھے لیکن الیکشن جیتنے کے بعد اب کبھی غلطی سے بھی اس موضوع کی طرف نہیں آتے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس نظام میں یہ ناممکن ہے۔

آج اگر ہم دیکھیں تو ہمیں شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک نظر آئے گا جہاں کرپشن کا شورغوغا نہیں ہے کیونکہ ریاستوں کے اوپر براجمان اشرافیہ نے دنیا بھر میں لوگوں کا دیوالیہ نکال دیا ہے جبکہ اس اشرافیہ نے تو کرونا کے دنوں میں بھی اپنے بینک بیلنسوں میں اربوں ڈالر کے ذخائر جمع کیے ہیں جبکہ یہ سب کچھ عام آدمی کی قیمت پر ہو رہا ہے مثلاً پاکستان میں حفیظ پاشا کے مطابق اندازہً بیس ہزار ارب روپے بڑے کاروباری حضرات میں بانٹے گئے جبکہ کارباری حضرات نے چینی اور آٹا کی قیمت میں اضافہ کر کے ویسے ہی اربوں روپیہ کمایا ہے اور اب ایک عام روٹی کی قیمت ہی کم از کم دس روپے ہے جس سے نہ صرف عام آدمی بلکہ اچھا بھلا نوکری پیشہ بھی چکرا کر رہ گیا ہے۔

اس کے علاوہ طلباء کی بہت بڑی تعداد جو حکومتی اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہی تھی ان کے ا سکالرشپ یک دم ختم کر دیے گئے ہیں خصوصاً بلوچ اور سابقہ فاٹا کے طلباءکے لیکن اس کے علاوہ سندھی اور پنجابی طلبا بھی اس میں شامل ہیں گو کہ ان کے پرزور احتجاج پر بہت حد تک بحالی ہوئی ہے مگر مکمل طور پر نہیں ہوئی ہے۔ اور یہ سب کچھ ملکی معیشت کو ترقی دینے کے نام پر ہو رہا ہے گو کہ یہ سب بھی کرپشن ہے مگر یہ قانون کے دائرہ کار میں ہو رہا ہے اور اس کو قانون کی حکمرانی کے نام پر مسلط بھی کیا جا رہا ہے اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بھی قانون کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ ٖصرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ کسی نہ کسی شکل میں دنیا بھر میں جاری ہے جیسا کہ انڈونیشیا، بھارت، پیرو، لبنان، عراق اور لیبیا وغیرہ ہی نہیں بلکہ فرانس کی مشہور ییلو ویسٹ احتجاج بھی اسی نوعیت کا تھا۔

جہاں تک براہ راست مالی بدعنونی کا تعلق ہے ہو تو نیویارک ٹائمز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے دس برس سے ٹیکس کی ریٹرن جمع نہیں کروائی ہے۔ اسرائیل میں نتن یاہو، روس کے ویلادی میر پیوٹن پر کرپشن کے سخت الزامات ہیں۔ اٹلی میں پچھلے گیارہ سال میں آٹھ حکومتیں مالی کرپشن کے نتیجے میں تبدیل ہوئی ہیں اور اسی طرح کے ملتے جلتے حالات سپین اور دیگر ممالک کے بھی ہیں بلکہ پانامہ لیکس اور پھر پیراڈائز لیکس میں تو شاید ہی کوئی بخشا گیا ہو اور جنت نظیر فن لینڈ میں بھی کرپشن کی وجہ سے عوامی رد عمل کے نتیجے میں اپنے وزیر اعظم کی قربانی دینی پڑی۔ تھائی لینڈ کی آمریت ہو یا ملائیشیا اور انڈونیشیا کی جمہوریت سب اس حمام میں ننگے ہیں۔

اب تو سیاسی طور پر دنیا بھر میں ایک اور بڑا کام شروع ہو گیا ہے اور وہ ہے کرپشن کے نام پر اپنے سیاسی حلیفوں کو نا اہل قرار دیا جائے اور اپنے اقتدار کو مضبوط کیا جائے۔ بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء کی کرپشن کے نام پرچھٹی اور اس کے بعد عوامی لیگ کی تقریباً تمام نشستوں پر کامیابی، سعودی عرب کا حالیہ کریک ڈاؤن بھی کرپشن کے نام پر تھا جبکہ پاکستان میں بھی یہی کہانی چل رہی ہے اسی طرح کی ملتی جلتی کہانیاں تقریباً تمام ممالک میں چل رہی ہیں اور مزے کی بات ہے کہ الیکشن میں مبینہ دھاندلیوں اور ملک میں بالادست طبقات کی کرپشن کے خلاف عوام خود سراپہ احتجاج ہیں اور یہ مشرق وسطی سے لے کر دیگر ایشیاء کے ممالک سے لے کر لاطینی امریکہ سے افریقہ اور یورپ تک ہیں۔

یورپ میں وہاں تو وہاں عوام کی توجہ بالادست طبقے کی کرپشن سے ہٹانے کے لئے تباہ حال عرب ممالک اور افغانستان وغیرہ کے مہاجرین کی طرف مبذول کرائی جا رہی ہے جو خود انہی ممالک کے سامراجی عزائم کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں۔ لیکن اگر آپ غور کریں توآپ کو اس تمام واویلے کے باوجود کسی بھی ملک میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کی روک تھام مے سلسلے میں کوئی قانون سازی نظر نہیں آئے گی۔ ویسے تو یہ کہانی تمام ممالک میں ہی چل رہی ہے لیکن یہاں میں مثال کے طور پر لبنان کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔

لبنان وہ مسلمان ملک تھا جو ہمارے لبرل سوچ کے حامیوں کے لئے ایک روشن اور زندہ مثال تھی۔ یہاں کا مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پنپنے والا بہترین سیکولر معاشرہ، یہاں کے تعلیمی ادارے بلکہ بیروت یونیورسٹی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک تھی، بیروت کے شامیں تو ایک محاورے کے طور پر استعمال ہوتی تھیں اور وہاں کی مجموعی خوشحالی ہمارے لبرل ساتھیوں کے لئے ایک سحر تھی۔ لیکن آج اگر ہم دیکھیں تو ہمیں وہاں ہر طرح کی ابتری اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔

عوام نے ہر حکومت کو کرپشن اور عوام کو خوشحالی نہ دینے کی بنا پر بری طرح سے مسترد کر دیا ہے لیکن وہ کسی بھی طرح سے اپنے آپ کو منظم کرنے سے محروم ہیں اور نظریاتی طور پر کوئی بھی متبادل نظام نہیں دے سکے جس کے لیے کسی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہ اسی نظام میں کسی مسیحا کے منتظر ہیں جو کبھی نہیں آتا ہے اس لئے یہاں عوامی تحریک اپنی پوری شدت سے کھڑی ہوتی ہے لیکن جلد ہی اپنا زور کھو دیتی ہے اور ایسا تقریباً تمام دنیا میں کسی نہ کسی انداز میں ہو رہا ہے۔ اس کے مستقل حل کے لئے ایک مربوط اور قابل عمل متبادل نظام کے پروگرام کی ضرورت ہے اور اس پر ایک عوامی انقلابی پارٹی جو اپنے عوامی پروگرام کو اپنے تعمیر کیے گئے عوامی کیڈرز کے زور پر اس کرپٹ نظام کو اکھاڑ پھینکے تاکہ عوام کو خوشحالی کے لمحات میسر آ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).