اپوزیشن مطالبات کی فہرست کیا ہونی چاہیے


اپوزیشن نے ملک کے مختلف حصوں میں پے در پے جلسے کر کے اتنی کام یابی تو حاصل کر لی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اب یہ کہنے لگے ہیں کہ وہ این آر او کے سوا اپوزیشن سے تمام نکات پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس موقع پر لانگ مارچ سے پہلے اتمام حجت کے لیے حکومت کو ان مطالبات کی فہرست پیش کی جا سکتی ہے جن میں سے ایک میں بھی این آر او یا نیب کو غیر موثر کرنے کا مطالبہ موجود نہ ہو مگر اس کے باوجود اپوزیشن کو وہ سب کچھ مل جائے جو اس ملک کے عوام کی حقیقی ضرورت ہے۔

یاد رکھیے۔ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے آخری دنوں میں ان سے صرف ایک اہم مطالبہ کیا تھا کہ وہ وردی اتار دیں۔ ایک بار پرویز مشرف نے وردی اتار دی تو جمہوریت کی بحالی کے لیے باقی کام خود بخود ہوتے چلے گئے۔

آج پھر ایسی ہی بصیرت کی ضرورت ہے۔ اسمبلیوں سے استعفوں اور لانگ مارچ سے حکومت گرے یا نہ گرے، مگر احتجاج سے حکومت گرانے کا کلچر عام ہو گیا تو کل اپوزیشن جب حکومت میں آئے گی تو وہ کسی اور کو ایسا ہی احتجاج کرنے سے اخلاقی طور پر نہیں روک پائے گی۔ تحریک انصاف نے جو غلطی کی اسے اپوزیشن نہ دہرائے۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ اب جب کہ وزیراعظم عمران خان نے یہ کہہ دیا ہے کہ ”مجھ سے ہر بات کر لیں، بس این آر او نہ مانگیں“ تو ان کے سامنے کچھ ایسے مطالبات رکھ دیے جائیں جن سے ”این آر او مانگنے“ کا الزام بھی نہ لگے اور پاکستان کی سیاسی ساخت میں حقیقی تبدیلی بھی آ سکے۔ کیوں کہ اگر یہ مطالبات پورے نہ ہوئے تو چاہے دس بار حکومت تبدیل ہو جائے ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

میرا خیال ہے کہ یہ دس نکاتی مطالبات حکومت کے سامنے رکھے جا سکتے ہیں :

ایک: ملک کے تمام سول اداروں سے فوج کے حاضر سروس ملازمین کو ہٹا کر ان کے محکمے میں واپس بھیجا جائے۔

دو: پشاور بی آر ٹی، پی آئی اے بحران، مالم جبہ کیس، آٹا، چینی، ایل این جی اسکینڈل کی بھی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ نیب کے تحت ان سب کی بھی تفتیش کی جائے اور پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو تحقیقات میں پیش رفت یقینی بنائے۔

تین: پارلیمنٹ کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے جو یہ بات یقینی بنائے کہ حکومت اور اپوزیشن ارکان سے احتساب میں یک ساں سلوک ہو رہا ہے۔ جو افراد نیب مقدمات میں بے گناہ قید کاٹ چکے ہوں ان کی تلافی کا کوئی طریقہ ء کار وضع کیا جائے۔

چار: جب سیاست دان اپنا احتساب کرانے پر راضی ہیں تو فوج کے سابق افسران کا بھی احتساب کیا جائے۔ مشرف دور کے ریلوے اسکینڈل، اسٹاک مارکیٹ اسکینڈل کا کیا ہوا؟ سقوط ڈھاکہ، اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موت، اے پی ایس اور احسان اللہ احسان کے فرار کی تحقیقات سول ایجنسی سے کرائی جائے۔ جب سول وزیراعظم کی جے آئی ٹی میں فوجی اہل کار بیٹھ سکتے ہیں تو سول ادارے بھی حساس معاملات کی تحقیقات کر سکتے ہیں۔

پانچ: عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ملک کے دو وزیراعظم گھر جا سکتے ہیں تو خادم رضوی دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ سندھ آئی جی کیس میں جو کارروائی کی جائے وہ بھی عوامی نمایندوں کے سامنے لائی جائے۔

چھ: لاپتا افراد کو کون لے جاتا ہے اور کیوں لے جاتا ہے؟ جاوید اقبال کا کمیشن اس سلسلے میں موثر کردار ادا نہیں کر سکا جب کہ اس دوران مزید افراد لاپتا ہوتے رہے۔ لاپتا افراد کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن بنایا جائے۔

سات: دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کیا شفاف تھے؟ آر ٹی ایس کیوں بیٹھ گیا؟ محکمہ زراعت کون تھا؟ ان معاملات کی شفاف تحقیقات کے لیے عدالتی یا پارلیمانی کمیشن بنایا جائے۔

آٹھ: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ دو ماہ کے اندر اندر کیا جائے۔

نو: مسلم لیگ نون کے دو سینیٹرز کو غیر ملکی شہریت پر ایسے موقع پر نا اہل کر دیا گیا جب نئی پنجاب اسمبلی آ گئی تھی اور جہاں ان دو سینیٹرز کے بدلے میں تحریک انصاف کے سینیٹر منتخب ہو سکتے تھے اور ہو بھی گئے۔ اس معاملے پر اتنی عجلت دکھائی گئی تو فیصل واوڈا سمیت پی ٹی آئی ارکان کے کیس میں تاخیر کیوں؟ ان کا بھی دو ماہ کے اندر فیصلہ کیا جائے۔

دس: ارکان پارلیمنٹ کی طرح تمام جج، تمام جرنیل اور تمام نمایاں جرنلسٹ بھی اپنے غیر ملکی اثاثے، شہریت اور ذرائع آمدنی ظاہر کریں۔ جن کے اثاثے ذرائع آمدنی سے زائد ہوں ان کی تحقیقات کی جائے۔
یہ سارے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں لانگ مارچ کی تاریخ دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).