صحت اہم ترین ہے


روس میں یہ فقرہ عام بولا جاتا ہے جس کا اردو متبادل غالباً ”جان ہے تو جہان ہے“ ہوگا۔ روس میں پیری ستروئیکا یعنی تعمیر نو کے عمل کے نتیجے میں جو ابتری پھیلی تھی اور بالآخر سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوئی تھی، اس سے لوگوں میں مایوسی اور بددلی پھیلی تھی، بیروزگاری کے شکار لوگ اور ساتھ ہی ان کے دوست عزیز بہتات سے شراب نوشی کی جانب راغب ہو گئے تھے۔ صحت مندی عام طور پر رو بہ انحطاط ہونے لگی تھی۔ پوتن نے اپنی صدارت کے دوسرے دور میں لوگوں اور خاص طور پرنوجوانوں کو صحت مند زندگی گزارنے کی ترغیب دی تھی۔ اس ضمن میں معاشی حالات میں بہتری لائی گئی تھی تاکہ لوگوں میں سے مایوسی اور اداسی کا عنصر کم کیا جا سکے۔ سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں کھیلوں اور ورزش کی سرگرمیوں کو فروغ دیا گیا تھا، یوں کلی طور پر لوگوں کی جسمانی اور ساتھ ہی ساتھ ذہنی صحت بہتر ہونے لگی تھی۔

دوسرے مرحلے میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پولی کلینکس، طبی مراکز اور ہسپتالوں کی حالت بہتر کی جانے لگی تھی، اس میں مرمت کے ساتھ ساتھ نظام میں سہولتیں پیدا کرنے کے اقدام بھی شامل تھے۔ یاد رہے پولی کلینک ہر ریجن یوں سمجھ لیں کہ تین چار محلوں میں موجود وہ آؤٹ ڈور سنٹر ہیں جن میں صحت کے تمام ماہر ڈاکٹروں کے علاوہ بنیادی تشخیصاتی سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں۔ صحت کے مراکز ان اداروں کو کہتے ہیں جہاں پولی کلینکس کے ماہر ڈاکٹروں کی رائے کی تصدیق مزید بہتر ماہر کرتے ہیں اور زیادہ پیش رفتہ آزمائشی سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں۔

اگر پانچ چھ سال پہلے آپ کو یہاں کے پولی کلینکس وغیرہ کو دیکھنے کا اتفاق ہوتا تو عمارتیں شکستہ، بیٹھبے کا نظام ناقص، عملے کا رویہ جھلاہٹ والا تھا مگر اب صورت حالات یکسر بدل چکی ہے۔ مجھے اس عہد کے ہسپتال میں بھی رہنے کا اتفاق ہوا تھا جہاں بیت الخلاء کے دروازے نہیں ہوتے تھے، اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ مریض اگر بیت الخلاء میں بیہوش ہو جائے تو؟

اب ہر پولی کلینک میں ریسیپشن کے سامنے چار چار اور ہر مزل کے دونوں سروں ہر ایک ایک الیکٹرانک پورٹل لگے ہوئے ہیں جن میں ڈاکٹر منتخب کرنے سے لے کر وقت لیے جانے تک کے علاوہ بہت سے معاملات سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اگرآپ مستعد یا جانکارنہیں ہیں تو وہاں بہت اچھی یونیفارم میں ملبوس مستعد اہلکارہ آپ کی مدد کے لیے موجود رہتی ہے۔ ویسے تو آپ ڈاکٹر کا انتخاب اور اس سے مشورے کا وقت گھر بیٹھے بیٹھے آن لائن لے سکتے ہیں، البتہ اگر گھر میں پرنٹر نہیں ہے تو آپ جا کے اس پورٹل سے وقت کی پرچی نکالتے ہیں اور وقت آنے پر ڈاکٹر آپ کا معائنہ کر لینے کے بعد مناسب عمل سرانجام دے دیں گے۔

چند روز پہلے میرا گلا خراب ہو گیا۔ گلے تو خراب ہوتے ہی رہتے ہیں۔ پہلے بارہ سالہ بیٹے کا گلہ خراب ہوا۔ دوسرے روز میرا۔ تیسرے روز معلوم ہوا کہ آٹھ سالہ بیٹی کی ایک ہم جماعت کا کورونا ٹیسٹ پازیٹیو آ گیا ہے اور کلاس کو 25 دسمبر تک سکول نہ آنے کا کہا گیا ہے۔

ویسے تو یہاں اگر آپ کو کوئی بھی متعلقہ علامت ہے تو ایمرجنسی کال کرنا ہوتی ہے مگر میں عام ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔ انہیں معلوم تھا میں ڈاکٹر ہوں۔ بتایا کہ عمارت سے نکل کر چکر کاٹ کے پولی کلینک کے عقبی حصے میں کمرہ نمبر 119 میں جا کر بتاو کہ ڈاکٹر ہو وہ سیمپل لے لیں گے۔

یہ عمارت کا وہ حصہ ہے جسے علیحدہ کر کے ”ریڈ زون“ کا نام دیا گیا ہے۔ دروازے کے باہر لکھا تھا، ”بخار میں مبتلا مریضوں کے لیے“ ۔

ایک جوان لڑکی پہلے موجود تھی جس کی جلد باری آ گئی۔ پندرہ منٹ بعد مجھے بلا لیا۔ تھی تو نقاب میں مگر قفقاز کی اس جوان ڈاکٹر کے ابرو اور آنکھیں ہی کورونا کا خوف بھلا دینے کو کافی تھے۔

موصوفہ نے پھر سے درجہ حرارت لیا۔ نارمل تھا۔ خون میں آکسیجن چیک کی 98 %۔ پوچھے گئے کئی سوالوں کے جواب کمپیوٹر میں لکھے۔

نرس نے ملحقہ کمرے میں لے جا کر ناک اور حلق سے سیمپل لیے۔

ڈاکٹر نے مجھے Arbidol کے بیس بیس کیپسولوں کے 2 پیکٹ دیے۔ اس کے استعمال اور دیگر ہدایات والا پرنٹڈ کاغذ دیا۔ پھر بڑے سے فارم پر دستخط کروانے کہ 48 گھنٹوں بعد نتیجہ ملنے تک گھر پہ رہیں گے وگرنہ۔ ( قوانین بہت باریک نچلے حصے میں درج تھے )

پھر اٹھی ایک فائل دی کہ کاغذ اور پیکٹ اس میں ڈال لوں۔ رہا نہ گیا، کہہ دیا ”آپ حسین بھی ہیں اور مہربان بھی“

گھر پہنچ کے بیوی سے کہا کہ بچوں کو بچوں کے پولی کلینک لے جاو۔ وہاں 31 تاریخ تک جگہ نہ تھی۔ مگر کسی طرح وہ سب کے سیمپل دے آئی۔

مجھے اگلے ہی روز ٹیسٹ منفی آنے کی نوید میرے موبائل فون پر ایس ایم ایس کے ذریعہ مل گئی اور اگلے روز بچوں کے ٹیسٹ منفی آنے کی۔

آج ہفتہ 19 دسمبر 2020 ہے۔ گھر والی بچوں کے لیے کیک بنا کے دیر سے سوئی۔ سب سوئے ہوئے ہیں۔ میں 8 : 14 پہ اٹھا۔ اندھیرا تھا۔ سورج کو 8 : 57 پہ طلوع ہونا ہے۔ ساڑھے آٹھ بجے فون کی گھنٹی بجی۔

کل والی سہانی آواز، ”جی میں شہر وقافی وزارت برائے صحت کے تحت ماسکو کے مرکز صحت سے ولیریا بول رہی ہوں۔ کیا میں آپ سے آپ کی طبیعت کے بارے میں چند سوال پوچھ سکتی ہوں؟“

” جی بالکل پوچھئے“ میں بولا۔
”آپ کے بدن کا درجہ حرارت کتنا ہے؟“
” دیکھیے میں نے ماپا تو نہیں مگر میرے خیال میں مجھے بخار نہیں ہے“ ۔
” یعنی 36.6 لکھ سکتی ہوں؟“
” بالکل“
” کمزوری، بدن میں درد؟“
” جی نہیں ہے“ ۔
” سینے میں گھٹن، دل دھڑکنے کی رفتار میں اضافہ، سانس میں رکاوٹ؟“
” جی شکر ہے، کچھ نہیں۔ بس ہلکی سی کھانسی ہے“
” کھانسی خشک ہے یا بلغم والی؟“
” کسی حد تک بلغم والی“ ۔
” بہت شکریہ، صحت مند رہیے“
” آپ کا بھی شکریہ“ ۔

دیکھیے ایسے رکھا جاتا ہے اپنے ملک کے لوگوں کی صحت کا خیال۔ میں نے گلے کی خرابی کے سبب جمعرات سہ پہر کورونا کا ٹیسٹ کروایا تھا۔ جمعہ سہ پہر مجھے فون پر نتیجہ منفی آنے کا ایس ایم ایس مل گیا تھا۔ مگر چونکہ ضروری نہیں منفی، منفی ہی ہو۔ اس لیے میری صحت کئی روز حکومت کے زیر نظر رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).