میرے آبائی گاؤں کی ویرانی اور کھویا ہوا مشرقی پاکستان


میری پیدائش جمعیت پور گاؤں میں ہوئی جس کی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے۔ وہاں کے رہنے والے یا تو زمینوں کے مالک ہیں یا پھر زمینوں پہ کام کرنے والے۔ میرا خاندان بھی وہاں مزارعے کے طور پہ کام کرتا رہا۔ جن کی اپنی زمین نہیں ہوتی تھی ان کے لیے مزارعے کے طور پہ کام کرنا بھی باعث امتیاز سمجھا جاتا تھا اور جس مزارعے کے پاس جتنی زیادہ قابل کاشت زمین ہوتی وہ اتنا ہی زیادہ آسودہ حال ہوتا۔ جب تک ٹریکٹر اور دوسری زرعی مشینری نہیں تھی تب تک مزارعوں کی بہت قدر تھی کیوں کہ ان کے بغیر بڑے پیمانے پر کاشت کاری کرنا ناممکن تھا۔ لیکن پھر جیسے جیسے جدید مشینری آتی گئی اور زمینداروں کے لیے اپنی زمینوں کو سنبھالنا اور کاشت کرناآسان ہوتا گیا ویسے ویسے مزارعوں کی ضرورت اور قدر کم ہوتی گئی۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات (اقبال)

نتیجتاً مزارعے اور دوسرے لوگ جن کے پاس کام کم یا ختم ہو گیا تھا انہوں نے نقل مکانی شروع کر دی۔ میرا خاندان بھی جمعیت پور گاؤں چھوڑ کر قریب ہی ایک گاؤں پمپانوالی پل میں آ بسا جو تاحال میرا مسکن ہے۔ پمپانوالی پل گاؤں نیا نیا آباد ہوا تھا اور اس میں زیادہ تر ادھر ادھر سے نقل مکانی کر کے آنے والے چھوٹے موٹے کسان اور نوکری یافتہ طبقہ رہائش پذیر ہے۔ پمپانوالی پل میں کوئی سرکاری سکول نہیں تھا (ابھی تک بھی نہیں ہے ) اس لیے مجھے پڑھنے کے لیے گورنمنٹ پرائمری سکول جمعیت پور جانا پڑا۔

جمعیت پور گاؤں پرانا بھی تھا اور وہاں کے لوگ بھی اچھے زمیندار تھے اس لیے وہاں لڑکوں کے لیے پرائمری اورلڑ کیوں کے لیے مڈل سکول قائم تھے۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد ہم مڈل سکول، ہائی سکول اور کالج و یونیورسٹی کی تعلیم میں مصروف رہے اور کبھی مڑ کر ان گلیوں کا چکر نہ لگایا جن میں ہمارا بچپن گزرا تھا۔ اگر کبھی جمعیت پور کی طرف کوئی کام جانا بھی پڑا تو گاؤں کی دیواروں کے پاس سے گزر گئے لیکن گاؤں کے اندر جانے کا اتفاق نہ ہوا۔

کچھ دن پہلے مجھے ایک کام کے سلسلے میں جمعیت پور جانا ہوا اور واپسی پہ میں نے موٹر سائیکل کا رخ ان گلیوں کی طرف موڑ دیا۔ جن میں ہماری ہنسی، ہماری خوشی، ہماری بے فکری اور ہمارے بچپن کی یادیں بسی ہوئی تھیں۔ لیکن اس چھوٹے سے گاؤں نے مجھے بڑ ا دکھ دیا۔ مجھے یہ دیکھ کے بہت دکھ ہوا کہ جن مکانوں کے نقشے ہماری آنکھوں میں تھے اب وہ مکان موجود نہیں تھے اور جن مکینوں کی شکلیں ہمارے حافظے میں میں محفوظ تھی وہ سب وہاں سے کوچ کر گئے تھے۔ جن گلیوں میں ہمارے قہقہے گونجتے تھے ان گلیوں میں آسیب زدہ مکانوں جیسی خاموشی تھی۔

یہ بے سبب تو نہیں خالی گھروں کے سناٹے
مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو

میری حالت اس بچے کے جیسی تھی جو کچھ دیر کے لیے کہیں جائے اور واپسی پہ اسے اپنے سب کھلونے ٹوٹے ہوئے ملیں۔ میں سکتے کے عالم میں وہاں کھڑا تھا اور میرے آس پاس کے منظر دھندلا رہے تھے کیوں کہ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ اور میں نے جمعیت پور کو مخاطب کر کے کہا

تو نے دیکھا ہے مجھے مسکراتے ہوئے
اب تو مجھے چشم نم دیکھ رہا ہے
اب ویران ہیں تیری راہیں کبھی آباد بھی تو ہوں گیں
کچھ پیار کی کہانیاں تجھے یاد بھی تو ہوں گیں

گھر آنے پر بھی میں اس کیفیت سے باہر نہ آ سکا بلکہ اپنے ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر میں اپنے جذبات کو الفاظ کی شکل دیتا رہا۔ اور آج بھی مجھے اس گاؤں کی ویرانی اور بے رونقی پہ دکھ ہوتا ہے۔

تیرے حسن کو یوں ڈھلتا دیکھ کر
تیری رونق کو یوں اجڑتا دیکھ کر
تیر درد کے دل پہ لگتے ہیں میرے
تیرے آباد منظر یاد کر کے
اشک آنکھوں سے بہتے ہیں میرے

اس کیفیت سے گزرنے پر مجھے احساس ہوا کہ مجھے ایک گاؤں کے بے آباد ہونے پہ اتنا دکھ ہوا تو ان لوگوں کے دل پہ کیا بیتی ہو گی جنہوں نے 1971 میں آدھا ملک کھو دیا تھا۔ ان کے کرب اور تکلیف کی کیا حالت ہو گی۔ اس بات کو ایک طرف رکھو کہ کون کتنا قصوروار تھا اور کس کی غلطی اور کس کے لالچ نے ملک کو دو ٹکڑ ے کر دیا۔ کیونکہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ آپ بس لوگوں کے دل و دماغ میں اٹھنے والی درد کی لہروں کو محسوس کریں۔ ان کی بے بسی اور غم کا اندازہ کریں۔ وہ جنہیں اپنا کہتے تھے وہ سب اجنبی ہو گئے۔ جن کے بارے میں ناصر کاظمی نے کہا تھا

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
لیکن ناصر تو دیوانہ ہے اس کی بات نہ سنیں تو بہتر ہے۔
ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے

چلو ناصر دیوانے کے منہ نہیں لگتے، مستنصر حسین تارڑ کی بات سن لیتے ہیں۔ تارڑ صاحب کہتے ہیں ”میں کبھی مشرقی پاکستان نہیں گیا لیکن میرے اندر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا گھاؤ تازہ ہے“ ۔ لیکن تارڑ صاحب بھی خود کو سر عام مخبوط الحواس کہتے پھرتے ہیں۔ میرے خیال میں تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا دکھ ہوا بھی تو ان دیوانوں کو ہوا کیوں کہ سیانوں نے تو ملک توڑا تھا۔ فیض صاحب نے اس سانحے کا نوحہ لکھتے ہوئے کہا

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مدارتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد (فیض احمد فیض)
اور نصیر ترابی نے قلم کو جگر کے لہو میں ڈبو کر لکھا
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی

1971 کو براہ راست جھیلنے والوں کی اکثریت اس درد و کرب کو سینوں میں دبائے اس جہان سے کوچ کر چکی ہے اور جو لوگ باقی ہیں ان کے جانے کے بعد ہم جان ہی نہیں پائیں گے کہ وہ کس عذاب سے گزرے تھے۔

ہم وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).