تبدیلی کے بعد!


ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا 2018 کی انتخابی مہم اور اس سے قبل جب پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے لیے ذہن سازی اور ماحول سازی کا عمل جاری تھا تو سابقہ حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کا تذکرہ کرتے ہوئے بار بار قوم کو یہ بات باور کرائی گئی کہ اس وقت کرپٹ لوگوں اور چوروں کی حکمرانی ہے ملک میں کرپشن کا بازار گرم ہے جس کی وجہ سے ملک میں سالانہ تین سو ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے تحریک انصاف اقتدار میں آئے گی تو ملک کرپشن سے پاک ہو جائے گا اور تین سو ارب کی یہ کرپشن ختم ہو جائے گی عمران خان جیسے ہی اقتدار میں آئیں گے کرپشن سے بچ جانے والے تین سو ارب میں سے ایک سو ارب آئی ایم ایف کے منہ پر ماریں گے اور باقی دو سو ارب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے جس سے معیشت مضبوط ہو جائے گی عوام خوشحال اور ملک میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا یاد رہے کہ یہ خواب ان تمام خوابوں سے الگ تھا جو ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی صورت میں عوام کو دکھایا گیا تھا اور پھر خیر سے پاکستان تحریک انصاف حکومت اقتدار میں آ گئی عمران خان ملک کے وزیر اعظم بن گئے اور اب ان کی حکومت دو سال سے زیادہ عرصہ بھی گزار چکی ہے مگر نہیں معلوم کرپشن کے خاتمے کی مد میں سالانہ بچنے والے تین سو ارب بچے ہیں یا نہیں مگر یہ ملک اور قوم آئی ایم ایف کے شکنجے سے نہیں بچ سکی۔

حالانکہ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے اور ملک کو آئی ایم ایف سے چھٹکارا دلانے کی نوید سنائی تھی مگر وہ زیادہ عرصہ اپنی بات پر قائم نہ رہ سکے اور انہیں حسب روایت یوٹرن لینا پڑا پاکستان نہ صرف آئی ایم ایف کے پاس گیا بلکہ وزیر اعظم کو اس بات کا اعتراف کرنا پڑا کہ آئی ایم ایف کے پاس بروقت نہ جانا ہماری غلطی تھی جس کی وجہ سے ملک میں نہ صرف مہنگائی کا طوفان آیا ڈالر کنٹرول سے باہر ہوا اور عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست پر جولائی 2019 تین برس کے لیے 6 ارب ڈالر قرض دینے کی منظوری دی تاکہ اس کے ذریعے سابقہ ادائیگیوں کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی معیشت بہتر بنانے میں مدد مل سکے پاکستان اس پروگرام کے تحت ڈیڑھ ارب ڈالر کی دو قسطیں وصول کر چکا ہے یقیناً جب عالمی مالیاتی ادارے قرض دیتے ہیں تو اس کے ساتھ پروگرام کو کامیاب بنانے اور قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف شرائط بھی عائد کرتے ہیں جبکہ اس پروگرام میں پاور سیکٹر میں دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ اور قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی پہلی شرط تھی جسے حکومت نے جون 2020 تک مؤخر کیا تھا جس کی وجہ سے باقی اقساط جاری کرنے کا معاملہ التوا کا شکار ہو گیا اب خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ 9 ماہ کے تعطل کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پروگرام شروع کرنے کے حوالے سے دوبارہ مذاکر ات شروع ہونے جا رہے ہیں جلد ہی آئی ایم ایف کے وفد کی پاکستان آمد متوقع ہے مگر اس سے پہلے آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق حکومت کو بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کر کے قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوگا جبکہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا فیصلہ کر چکی ہے جس کے بعد مہنگائی کے اٹھنے والے متوقع طوفان سے عوام کس طرح بچ پائیں گے عوام کی تو اب بھی حالت خراب ہے سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو چکا ہے اشیا ضروریہ اور اشیا خوردنی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جبکہ پاور سیکٹر میں ہونے والا اضافہ تو ہر چیز کو متاثر کرے گا۔

یقیناً ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ آج ملک معاشی طور پر جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے اس کا تمام تر ملبہ ہم تحریک انصاف پر ڈال کر سابقہ حکمرانوں کو عوام دشمن پالیسیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ ماضی میں حکمرانوں نے ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے بجائے خود کو مضبوط کیا اپنے خاندانوں کو مضبوط کیا اور ملک کو قرضوں کی دلدل میں کچھ اس طرح پھنسایا کہ آج تک ملک اس سے نہیں نکل سکا یہاں تک کہ آج قرضے دینے کے لیے بھی قرضے لینے پڑتے ہیں مگر تبدیلی اور نئے پاکستان کی علمبردار پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو ہم اس لیے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے وہ ہر وقت اپنی 22 سالہ سیاسی جد و جہد کا راگ الاپتے نہیں تھکتے مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ 22 سالوں میں وہ 22 ایسے لوگ بھی تیار نہیں کر سکے جو آج کابینہ میں شامل ہو کر ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے پوری کابینہ میں منتخب اور غیر منتخب وزیروں اور مشیروں کی اکثریت ان جماعتوں سے مستعار لی گئی ہے جنہیں وہ کرپٹ کہتے ہیں مشرف سے لے کر پیپلز پارٹی اور نون لیگ تک سب جماعتوں کے ساتھ یہ لوگ شامل اقتدار رہے اور آج کل تحریک انصاف کے ساتھ مل کر تبدیلی کے نعرے لگا رہے ہیں جبکہ وزارت خزانہ میں آئی ایم ایف کے ملازموں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے یہی وجہ ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی طور عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتری اور حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں کابینہ کی تسلی بخش کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر چند ماہ بعد کابینہ میں شامل وزراء کو ادھر سے ادھر کر دیا جاتا ہے مگر کارکردگی کا پرنالہ وہیں کا وہیں ہے یہاں تک کہ ریلوے کی وزارت کا چارج سنبھالنے والے اعظم سواتی نے ریلوے میں بہتری کے بجائے پاکستان ریلوے کو بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہے اس سے قبل پاکستان اسٹیل ملز بند اور سینکڑوں ملازمین کو نکالا جا چکا ہے ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف کی نئی شرائط پر عمل درآمد کے بعد نا صرف مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگا عوام کی مشکلات میں کہیں زیادہ بڑھ جائیں گی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملک کو در پیش صورتحال سے نکالنے کے لیے مل بیٹھ کر کوئی مشترکہ حکمت عملی اپنانے کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں حکومت پر کہیں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سب کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھے مگر ایسی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی اور تبدیلی کے بعد بھی اس قوم کی قسمت تبدیل نہیں ہوئی نئے پاکستان میں بھی آئی ایم ایف، مہنگائی، لوٹ مار اور کرپشن جیسے مسائل اس ملک اور قوم کا مقدر دکھائی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).