ایک یونانی کا غم: تم نے بھٹو کو کیوں مارا


میرا واپسی کا ہوائی ٹکٹ ہفتہ بھر مسلسل پسینے میں بھیگنے سے اتنا خراب ہو چکا تھا کہ اس پر تمام لکھائی مٹ چکی تھی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کمر والی بیلٹ میں پسینے کی نمی داخل ہو جائے گی۔ پاسپورٹ تو اپنے دبیز کور کی وجہ سے محفوظ رہا لیکن ٹکٹ کی خاطر میں بہت پریشان تھا۔ کمپیوٹرائزڈ ٹکٹ ہوتا تو کوئی مسئلہ نہ تھا مگر اس وقت یہ رائج نہ تھا لہذا ٹکٹ ہاتھ سے ہی لکھے جاتے تھے۔ آسانی رہی کہ ٹکٹ دوہرا کر کے رکھا تھا اور اندر کے دو کوپن قدرے پڑھے جا رہے تھے جو استعمال کر کے میں کراچی اور پھر راولپنڈی پہنچا۔

پی آئی اے آفس رجوع کیا تو انہوں نے نیا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا۔ نائجیریا سے آئے ہوئے ایک دوست عبدالقیوم صاحب سے بات کی انہوں نے کہا ٹکٹ اور ایک کاغذ پر باقی ماندہ سفر کی تفصیل لکھ کر لاہور بھجوا دو کچھ کرتا ہوں۔ عبدالقیوم صاحب نے لاہور میں مین پاور عراق بھجوانے کے لئے ایک ریکروٹمنٹ ایجنسی بنائی ہوئی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ نیا ٹکٹ بن گیا۔

چھٹی ختم ہونے کے قریب تھی مگر بیگم صاحبہ میکے والوں کا پیار مزید سمیٹنا چاہتی تھیں۔ مجھے تو ڈیوٹی پر پہنچنا تھا لہذا میں روانہ ہوا اور ان کا آنا بعد میں ٹھہرا۔ میں پی آئی اے کی کوپن ہیگن کی پرواز سے سفر کر رہا تھا۔ ایتھنز اس کا پہلا سٹاپ اوور میری پہلی منزل تھا۔ ان دنوں یہ فلائٹ دو سٹاپ اوورز کے بعد کوپن ہیگن پہنچتی تھی اور ایک منافع بخش روٹ تھا جسے پی آئی اے کی مہارت نے پہلے غیر منافع بخش بنایا اور بعد میں بند کر دیا گیا۔

ایتھنز ائرپورٹ بڑا سادہ اور پر سکون لگا۔ عمارت سے باہر نکلتے ہی سڑک پر ہوٹل کی گاڑی تیار کھڑی تھی اور دس بارہ منٹ بعد میں ہوٹل پہنچ گیا۔ ایتھنز یورپ کے پرانے شہروں میں سے ایک ہے جو 3400 سال پہلے آباد ہوا۔ ایتھنز کو سب سے پرانا دارالحکومت ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ یہ سقراط بقراط ارسطو اور افلاطون جیسے ذی علم اور فلسفی شخصیات کا مسکن رہا۔ فنون لطیفہ اس شہر کی پہچان ہیں۔ ایتھنز کو مغربی تہذیب اور جمہوریت کی جنم بھومی بھی کہا جاتا ہے۔ ارسطو کو سکندر اعظم کا استاد ہونے کا اعزاز بھی رہا۔ ایتھنز کو 1896 میں پہلی اولمپک کھیلوں کی میزبانی کا شرف بھی رہا۔ اس شہر کی دنیا میں سب سے زیادہ سٹیڈیم اور تھیٹرز ہونے کی شہرت بھی ہے مگر ایکرو پولس سب سے زیادہ ایتھنز کی شہرت کا باعث ہے۔

ایکروپولس ایک پہاڑی کے اوپر ہموار سطح پر بنا ہوا قدیم قلعہ ہے جو ساڑھے سات ایکڑ سے زیادہ رقبہ پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے گرد ایک پندرہ فٹ چوڑی اور بیس فٹ اونچی دیوار ہے۔ پہاڑی کے دامن سے اوپر تک بہت خوبصورت سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ سیڑھیوں کی سمت اور لمبائی چوڑائی قدرتی ڈھلوان کے مطابق ہے اور راستے میں کہیں کہیں درمیانے سائز کے پودے بھی اس راستے کو حسین تر بنا دیتے ہیں۔ یہ سیڑھیاں اوپر ایک ستونوں والی خوبصورت عمارت تک لے جاتی ہیں جسے پروپائلیا کا نام دیا گیا ہے۔

صدیوں کی شکست و ریخت کے باوجود اب بھی یہ عمارت اتنی دلکش ہے کہ اس کو مسکن بنا لینے کو جی چاہے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں پروپائلیا کو بادشاہ کی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ اس کے درمیان سے گزر کر ہم ایکروپولس میں داخل ہوتے ہیں یا یوں کہیں کہ یہ اس کمپلیکس کی پہلی عمارت ہے جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ دراصل پروپائلیا اس عظیم الشان عالمی ورثے کا استقبالیہ ہے۔ اس کے بعد کھلی جگہ میں اگر ہم چاروں اطراف نظر دوڑائیں تو ایکروپولس کی تمام عمارات دیکھ سکتے ہیں۔

پروپائلیا کے بائیں جانب اریکنیان کے نام سے ایتھنا دیوی اور دیگر دیوتاؤں اور ہیروز کے اعزاز میں ایک شاندار ٹیمپل بنایا گیا ہے جس کے پورچ کی چھت کو ستونوں کے بجائے چھ نسوانی مجسموں نے اٹھایا ہوا ہے اور دائیں جانب ایتھنا نائیکی ( فتح کی دیوی) کا ٹیمپل بھی بنایا گیا ہے۔ نائیکی کا نام کھلاڑیوں کے لئے جاگر اور ٹریک سوٹ وغیرہ بنانے والی کمپنی نے خوب استعمال کیا ہے۔

یونانی مائتھالوجی میں عقل، ہینڈی کرافٹ اور جنگ کی دیوی کو ایتھنا دیوی کا نام دیا گیا ہے۔ پروپائلیا سے کچھ آگے جا کر دائیں طرف یہاں کی سب سے عالیشان اور سب سے بڑی عمارت ہے جو اسی دیوی کے اعزاز میں بنائی گئی تھی اور اسے پارتھینان کہتے ہیں۔ جب عیسائیت پھیلی تو پارتھینان کو حضرت مریم کے لئے مخصوص کر دیا اور اریکنیان کو گرجا بنا دیا گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں یہ بارود کے ذخیرے کے لئے استعمال ہوئی اور جب حملہ آوروں کی گولہ باری سے بارود کا ذخیرہ پھٹا تو بہت تباہی مچی۔ پارتھینان کے ساتھ ہی ایک اور ٹیمپل بنا جو کہ حاملہ خواتین کی دیوی ارتیمس برارونیہ کا مزار سمجھا جاتا ہے۔

پارتھینان سے کچھ آگے جا کر دائیں طرف ایک بڑے ہال میں داخل ہوئے جہاں بہت سے نوادرات اور مجسمے شو کیسز میں بند نمائش کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ یہ نوادرات ایکروپولس کے اندر سے ہی اکٹھے کیے ہوئے تھے۔ آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایکروپولس ایک بے بہا خزانہ ہے جہاں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ میرے پاس کیمرہ نہیں تھا اس لئے وہاں موجود ایک فوٹو گرافر سے میں نے تصویر بنوانے کا ارادہ کیا۔ پارتھینان اور پروپائلیا کے درمیان بکھرے ہوئے بے شمار ماربل کے ٹکڑوں اور پتھروں کے بیچ ایک پتھر پر بیٹھے فوٹوگرافر سے میں نے تصویر بنانے کا کہا۔

یہ یونانی شخص پچاس برس سے کچھ اوپر کا ہو گا اور اپنا مدعا بیان کرنے کی حد تک انگریزی زبان جانتا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور تصویر بنانے کی کارروائی کرتے ہوئے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میرا پاکستان کا نام لینا تھا کہ اس کے چہرے کے تاثرات یکسر بدل گئے۔ کہنے لگا کہ میں تصویر بعد میں بناؤں گا پہلے بتاؤ تم نے علی بھٹو کو کیوں مارا؟ اسے بھٹو صاحب کا پورا نام بھی نہیں آتا تھا۔ بار بار کہے جا رہا تھا کہ تم نے علی بھٹو کو کیوں مارا۔

وہ انتہائی جذباتی ہو رہا تھا اور اس کی خشمگیں نگاہوں سے یہی اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ جرم مجھ سے ہی سرزد ہوا تھا۔ وہ اپنے جذبات کے زبانی اظہار سے آگے اگر نہیں بڑھا تو اس کا واحد سبب میرا غیر ملکی ہونا تھا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ہم بھی ایسا نہیں چاہتے تھے اور یہ ایک عدالتی فیصلہ تھا اور ادھر ادھر کی باتیں کیں تو وہ نارمل ہوا اور میری تصویر بنائی جو میں شیئر کر رہا ہوں۔

میں سوچتا رہا کہ بھٹو صاحب کی شخصیت کا جادو تھا یا ان کی غیر طبعی موت کا شہرہ کہ سمندر پار ایک غیر قوم کا فرد جس کی ان کے ساتھ نہ تو فکری آگہی تھی نہ ہی کوئی رشتہ مگر وہ ان کی موت کا غم اتنی گہرائی تک محسوس کر رہا تھا جبکہ بھٹو صاحب کی سزا پر عملدرآمد ہوئے پونے دو سال بیت چکے تھے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ اسی سر زمین پر ڈھائی ہزار سال پہلے سقراط کو زہر کا پیالہ دیا گیا تھا۔

غروب آفتاب سے قبل میں ہوٹل پہنچ گیا تھا۔ رات کھانے کے بعد ہوٹل سے باہر چہل قدمی کے لئے نکلا۔ سڑک کے پار ساحل سمندر پر رنگا رنگ روشنیوں نے متوجہ کیا تو اس طرف چل دیا۔ یہ ایک امیوزمنٹ پارک تھا جہاں چھوٹے بچوں سمیت ہر عمر کے لوگ تفریح میں مشغول تھے۔ مختلف اقسام کے جھولے اور رولر کوسٹر وغیرہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے جبکہ کچھ جنک فوڈ کا مزہ لے رہے تھے۔ کچھ دیر وہاں ٹھہرنے کے بعد ہوٹل واپس آ کر جلدی سو گیا کیونکہ صبح صبح ائرپورٹ روانگی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).