کیا قائد اعظم جمہوریت پسند تھے؟


محقق، صحافی اور سماجی کارکن عارف میاں صاحب نے خاصے منفرد، جیسا کہ کیا پاکستان جمہوری عمل سے بنا؟ کیا پاکستانی نیشنلزم کی کمی نہیں؟ اور کیا سیاست عقیدہ اکٹھے رہ سکتے ہیں؟ جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ ان کتابوں میں عارف میاں صاحب نے روایتی بیانیے سے ذرا ہٹ کر بات کی ہے۔ ایسی ہی ان کی ایک کتاب ”برصغیر کیسے ٹوٹا؟“ ہے۔ یہ کتاب ملک کے معروف محققین، مورخین، دانشوروں اور صحافیوں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے سوال بھی مطالعہ پاکستان سے مطابقت نہیں رکھتے اور جوابات بھی ریاستی بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔ اس کتاب میں مجید نظامی صاحب کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ نظامی صاحب نے اس کتاب بارے لکھا کہ: ”یہ اینٹی پاکستان اور اینٹی قائد اعظم ریفرنس بک ہے۔ مصنف یہ کتاب نہ لکھتے تو قوم پر احسان ہوتا۔“

کتاب شائع ہونے کے تھوڑے عرصے بعد ہی ریاست کی جانب سے پابندی کا شکار ہو گئی۔ کتاب میں شامل اکثر شخصیات سے قائد اعظم کی ”جمہوریت پسندی“ بارے سوال کیے گئے ہیں۔ اپنی طرف سے کسی بھی اضافہ کے بغیر انہی شخصیات کی زبانی جانیے قائد اعظم کی جمہوریت پسندی کی کہانی:

تاریخ پر درجنوں کتابوں کے مصنف و معروف محقق ڈاکٹر مبارک علی سے قائد اعظم کی جمہوریت پسندی بارے سوال ہوا کہ: ”کہتے ہیں محمد علی جناح جمہوریت پسند نہ تھے؟“ ڈاکٹر صاحب نے اس سوال کاکچھ یوں جواب دیا: ”صحیح ہے۔ ایک تو وہ بالکل عوامی لیڈر نہیں تھے۔ اپنے آپ کو واحد ترجمان“ Sole Spokesman ”کہتے تھے۔ جو مسلم لیگ کے اجلاس ہوا کرتے تھے، ان میں لوگوں کو ان کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ جو اپنی بات کہتے تھے اسی کو مان لیا کرتے تھے۔

پاکستان بنا، گورنر جنرل کا عہدہ انہوں نے لیا اور کہا میں کوئی“ ربر سٹیمپ ”گورنرجنرل بننا نہیں چاہتا۔ اس لیے 1935 کے ایکٹ میں تبدیلیاں کی گئیں۔ کابینہ کے اجلاس کی صدارت وہی کرتے تھے، لیا قت علی خاں نہیں کرتے تھے، حالانکہ وزیراعظم وہ تھے۔ سرحد کی اسمبلی انہوں نے منسوخ کرائی۔ ایوب کھوڑو کو سندھ کی وزارت اعلی سے ہٹایا۔ گورنر جنرل بھی تھے۔ وہ مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔ آئین ساز اسمبلی کے صدر بھی وہی تھے۔ یہ تینوں عہدے ان کے پاس تھے۔ یہ صحیح ہے، ان کا مزاج جمہوری نہیں تھا۔ بہت حد تک آمرانہ جذبات ان کے ہاں تھے۔“

”Quaid۔ e۔ Azam Jinnah: Studies in Interpretation“ نامی کتاب لکھ کر 1983 میں صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والے مستند مورخ پروفیسر شریف المجاہد صاحب سے سوال ہوا کہ: ”کیا پاکستان میں غیر جمہوری رویے کے محمد علی جناح بھی ذمہ دار ہیں، گورنر جنرل کی حیثیت سے تمام اختیارات ان کے پاس تھے؟“ پروفیسر صاحب نے جواب دیا: ”ہاں، ہاں، لیکن جو بھی فیصلے انہوں نے کیے، کیبنٹ نے ان کو منظور کیا۔“

پاکستان کے معروف دانشور اور ”رنج خمار“ کتاب کے مصنف رضا کاظم صاحب نے بھی قائداعظم کی شخصیت کے اس پہلو بارے دو تین بار تبصرہ کیا ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رضا صاحب کہتے ہیں : ”جناح صاحب میں ذاتی کمزوریاں بہت سی تھیں۔ سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ اختلاف رائے، اور جو ان کو چیلنج کرے اس کے لیے تنگ دل تھے۔ سہر وردی کو برداشت کرنا مشکل تھا۔ خلیق لزمان کو، اور لوگوں کو برداشت کرنا مشکل تھا۔“

تقسیم ہند پر خاص نقطہ نظر رکھنے والے احسان وائیں صاحب سے جب یہ سوال ہوا کہ، ”کہا جاتا ہے محمد علی جناح کے دور میں کافی غیر جمہوری اقدامات ہوئے ہیں؟“ تو جواب میں وائیں صاحب کہتے ہیں : ”پہلا تو یہی ہوا کہ قائد اعظم محمد علی جناح پہلے مسلم لیگ کے صدر بن گئے اور پھر گورنر جنرل بھی بن گئے۔ دوسرا یہ کہ وفاقی پارلیمانی نظام میں جس کا یہ نقشہ دے رہے تھے، لیاقت علی خان کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا، حالانکہ وہ وزیراعظم تھا۔

اس کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناح نے سرحد کیبنٹ توڑی جو 1935 کے ایکٹ کے خلاف تھا۔ سندھ میں انہوں نے ایوب کھوڑو کی وزارت اعلی ختم کی اور پیر الہی بخش کو وزیر اعلی بنا دیا۔ ایوب کھوڑو کو اسمبلی کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ پنجاب میں قائد اعظم نے وزیر اعلی نواب افتخار حسین ممدوٹ کو ہٹایا۔ اس وقت گورنر سر فرانسس موڈی تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے نواب افتخار حسین ممدوٹ کو ہٹا کر گورنر راج قائم کیا۔ یہ پہلا گورنر راج تھا۔

فوج میں یہ ہوا کہ انگریز جنرل گریسی کمانڈرانچیف تھا، اس نے نہ صرف کشمیر میں فوج بھیجنے سے انکار کیا، بلکہ انڈیا میں جو کمانڈر انچیف تھا اس کو یہ بتا دیا کہ قائداعظم محمد علی جناح مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ تم کشمیر میں فوج بھیجو اور میں نے انکار کیا۔ جس سے انڈیا زیادہ محتاط ہو گیا اور اس کی فوج وہاں زیادہ قابض ہوئی، اس کو بجائے اس کے کہ محمد علی جناح ہٹا دیتے، انہوں نے ترقی دی اور وہ اس حکم عدولی کے بعد مکمل با اختیار ”full fledged“ کمانڈرانچیف بنے۔

یہ فوج کی پہلی حکم عدولی تھی جو بابائے قوم ”Founding Father“ کی کی گئی۔ فوج کا اس ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنا اور بعد میں جو کچھ ہوتا رہا، اس کی یہ بھی ایک وجہ تھی۔ بھئی اگر قائد اعظم محمد علی جناح جو کہ ملک کا سب سے بڑا لیڈر تھا، ملک بنانے والا تھا، انگریز کمانڈرانچیف ہو، وہ لیڈر کہے کہ فوج بھیجو، وہ کہے میں نہیں بھیجتا اور پھر اس کو ترقی دے دی جائے۔ میں سمجھتا ہوں جن کو کہتے ہیں آئینی لیڈر، ان کو یہ بات زیب نہیں دیتی تھی۔”

بیس سے زائد کتابوں کے مصنف ا ور درجن سے زائد کتابوں کے مترجم جناب قاضی جاوید قائد اعظم کی جمہوریت پسندی بارے سوال کا جواب یوں دیتے ہیں : ”میرا خیال ہے جمہوریت پسند نہیں کہنا تو کچھ شاید! ٹھیک کہتے ہوں گے لوگ، لیکن وہ اختیارات کو پسند کرتے تھے۔“ جب قاضی صاحب سے قائداعظم کے بطور گورنر جنرل کیے گئے کچھ غیر جمہوری فیصلوں پر سوال ہوا تو قاضی صاحب نے جواب دیا: بھئی مسلم لیگ کے پاس کوئی جمہوری کلچر تو تھا نہیں۔ کوئی اس کے جمہوری مقاصد بھی نہیں تھے۔ تو یہ کہنا کہ انہوں نے جمہوریت یا جمہوریت کے پھیلاؤ یا مستقبل کو پیش نظر رکھا تھا، میرا خیال ہے یہ ان سے زیادہ تو قع کرنے والی بات ہے۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہو ر کے شعبہ تاریخ کے سابق سربراہ اور ”The Idea of History Through Ages“ سمیت درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر طاہر کامران کے بھی قائد اعظم کی جمہوریت پسندی بارے یہی خیالات ہیں۔

”اقبالیات کے پوشیدہ گوشے“ اور ”دو قومی نظریہ اور اردو ادب“ سمیت درجن سے زائد کتابوں کے مصنف پروفیسر امجد علی شاکر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ”اگر پارلیمانی نظام چلانا تھا تو اتنی محترم شخصیت کو گورنر جنرل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ گورنر تو وہ ہوتا ہے جو وزیر اعظم کی ہدایات پر عمل کرتا ہے، کیوں کہ پارلیمانی نظام میں اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں۔ یہاں قائد اعظم تو پوری مسلم لیگ پر چھائے ہوئے تھے۔ لیاقت علی خان نے وہی کچھ کرنا تھا جو قائداعظم کہتے۔ چنانچہ لیاقت علی خان وہی کچھ کرتے تھے۔“

معروف مو رخ، صحافی، مترجم اور سو سے زائد کتابوں کے مصنف احمد سلیم قائداعظم کے ”غیر جمہوری“ اقدامات بارے تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ”محمد علی جناح صاحب نے کئی سال تک بحیثیت مشیر خان آف قلات کے ساتھ کام کیا تھا۔ خان آف قلات نے ایک ماہر قانون دان کی حیثیت سے ان کو رکھا کہ ہماری ریاست کی حیثیت نیپال کی طرح ہے۔ باقی ریاستوں کی طرح نہیں ہے۔ انگریزوں نے اسے فتح نہیں کیا۔ ہم ایک معاہدہ کے تحت ہندوستان میں شامل ہوئے ہیں۔

جس دن انگریز یہاں سے جائیں گے ہم خود بخود آزاد تصور کیے جائیں گے۔ قائد اعظم اس ایشو کو انگریزوں کے ساتھ پلیڈ کرتے رہے۔ جب پاکستان بن گیا تو قائداعظم نے خان آف قلات کو مشورہ دیا کہ آپ کا مفاد یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ خان آف قلات نے جو بلوچ اسمبلی تھی، دارالعوام اوردار الامراء، یعنی دونوں ایوانوں، نیشنل اسمبلی اور سینٹ میں معاملہ رکھا۔ دار العوام کے بزنجو لیڈر تھے اور دار الا مراء کے کوئی اور تھے، انہوں نے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ ہم پاکستان کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔

پاکستان کی طرف سے دلیل دی گئی کہ آپ چھوٹے ہیں، انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہم سے بھی چھوٹے ملک ہے۔ دلیل دی گئی کہ آپ کو اقتصادی مسائل درپیش ہوں گے، انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہم سے زیادہ غریب ملک بھی موجود ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی پاکستان کی بقا بھی ایک ایشو ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ مل کر ہم خوشحال ہوجائیں گے؟ آخر میں جنرل اکبر رنگروٹ تھے، انہوں نے مارچ میں کوئٹہ اور قلات پر فوجیں چڑھادیں، اور خان آف قلات کو مجبور ہو کر رضامندی کی دستاویز پر دستخط کرنا پڑے۔

اسی طرح اور جگہوں پر بھی جمہوریت کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ سندھی عوام چاہتے تھے کہ کراچی جوان کا صوبائی دارالحکومت ہے، وہ وفاقی دارالحکومت نہ بنے۔ ایک وفد بھی سندھ سے زیارت جاکر قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا کہ جناب کراچی کو سندھیوں کا دارالحکومت رہنے دیں، یا کراچی کو مرکزی کے ساتھ صوبائی دارالحکومت بھی رہنے دیں۔ وہ و فد وہاں سے ناکام لوٹا۔ جب کھوڑو نے سندھی عوام کے دباؤ کے تحت وفاقی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی تو اس کو چیف منسٹر سے برطرف کر دیا گیا اور کرپشن کا الزام لگا، بالکل ویسا ہی الزام جیسا پنجاب میں ممدوٹ پر لگا، کیونکہ وہ بھی مرکزی قیادت کے خلاف جا رہا تھا۔ یہ جو مرکز صوبہ جھگڑا ہے، یہ پاکستان میں جمہوریت کشی کی بنیاد تھی۔ ”

کتاب میں موجود متعدد دائیں بازو کے محقق، دانشور اور صحافی قائد اعظم کی شخصیت کے ساتھ کافی ”کھینچا تانی“ کر کے انہیں ”جمہوریت“ کے قریب لاتے بھی دکھائی دیتے ہیں، ان میں محترم مجید نظامی صا حب خاصے نمایاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).