دیوتا اور پجاری


ہمارے تعلیمی نظام میں اصول، انصاف، عدل قانون انتہائی شدت اور تسلسل کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں اور معاشرے اور ہیروز کو ان عوامل میں گوندھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسی آئیڈیل اپروچز پڑھائی جاتی ہیں کہ ہیروز بجائے انسان کے کسی دیوتا کا اوتار معلوم پڑتے ہیں۔ پیش کردہ مثالوں سے معاشرت کی ایک ایسی تصاویر بنتی ہے کہ رہتی دنیا تک جس کا حصول ممکن نہ دکھائی پڑے۔ شخصیات خواہ وہ قومی ہوں یا مذہبی، ان کی بھی عین فلمی اور بشری اوصاف سے بالا تصویر پیش کی جاتی ہے۔

 فوج کو آب زم زم سے غسل دے کر جہادی عطر لگا کر پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخی ہیروز کو مذہب کے ایسے شیرے میں ڈبو کر پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی تمام تر غیر مذہبی اور بسا اوقات غیر انسانی مہمات سے اسلام کے بول بالے کا شہد نچڑتا دکھائی دیتا ہے۔ الغرض ہر چیز پر اس قدر یوٹوپین رنگ کر کے پیش کیا جاتا ہے کہ بچہ جب تعلیم سے فارغ التحصیل ہو کر اس معاشرہ میں آتا ہے تو حقیقی دنیا کو تسلیم کر ہی نہیں پاتا۔ اسے ہر طرف گناہ آلود شخصیات، کرپشن، بددیانتی، نا انصافی، گستاخی حتیٰ کہ بغاوت اور وطن فروشی عام نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔

اس نارمل حقیقی پاکستانی معاشرت کے ساتھ یا تو ایسا ایڈجسٹ کرتا ہے کہ بہت جلد تمام حدود و قیود کے پار اتر کر اگلی صفحوں میں جا کھڑا ہوتا ہے۔ بصورت دیگر وہ جہادی طرز پر کسی ایسے قائد، کسی ایسے مسیحا کا منتظر ہوتا ہے جو اپنی جادوئی تلوار کے چند کاری واروں سے معاشرے کو کتابی اور یوٹوپین بنا دے اور یہ مسیحا ہی اس کو مسائل کا مکمل حل معلوم ہوتا ہے۔ اسے مایوس نہی ہونا پڑتا اور پھر کچھ عرصے بعد کوئی دیدہ و نادیدہ قوت وہ ہیرو/دیوتا تراش کر اس پر صادق و امین/نمازی/پرہیزگار/آقا کی بشارت/کعبے کا محافظ/امہ کا لیڈر/ وغیرہ کا انمٹ مذہبی پینٹ لگا کر عوام کی خدمت میں پیش کر دیتی ہے۔

اس دیوتا کا ایک اوتار اور اس کی کارکردگی اس وقت بھی پاکستان کو درپیش ہے اور اس پر ہمارے اس نظام کے پیدا کردہ طلباء اور شہریوں کا ردعمل بھی پیش ہے۔ کاٹ دو، مار دو، لٹکا دو، گستاخ، کافر، غدار کے نعرے لگاتا یہ نظام کا پیدہ کردہ ہجوم مقدس اور محب وطن دیوتا کو انہی حالات کی طرف دھکیل رہا ہے جو اس مملکت نے کئی بار دیکھ رکھے ہیں۔

جو کچھ لوگ اپنے عصری مطالعے، عمر، حالات اور تجربات سے سیکھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ عوام اور حکمران اور بادشاہ گر سبھی انسان ہیں، اپنی کمیوں کوتاہیوں کے ساتھ، اپنے مفاد اور اپنے تعصبات کے ساتھ، بے اعتدالیوں اور کمزوریوں کے ساتھ۔ ان کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے، ان کو چلانا پڑتا ہے، ان کو سٹک اینڈ کیرٹ چاہیے ہوتی ہے، ان کے لیے لو اور دو کا اصول اپنانا پڑتا ہے۔ نرمی اور سختی کی خو کو متوازی لے کر چلنا پڑتا ہے، حکمت اور تدبر سے آراستہ ہو کر، کم ترین کمپرومائزز کے ساتھ، فیس سیونگ دیتے ہوئے معاشرے کو منزل کی طرف لے جانا پڑتا ہے۔

یہی لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ اگر نوے ہزار فوجی کسی میدان میں ہتھیار ڈال بھی دیں تو بھی انہیں اپنانا پڑتا ہے گولی نہیں مار دی جاتی۔ اسی طرح اگر کوئی خطہ دیوتا کے تسلط سے آزادی چاہے اور چھین کر بھی لے لے، تو اسے بطور بنگلہ دیش تسلیم کرنا پڑتا ہے، اگر کوئی جرنیل دریاؤں کو بیچ کر ڈیم خرید لے، کوئی اپنے ملک کی عوام کو ڈالروں میں بیچ دے اور فخر سے اس کارنامے کو کتابوں میں شائع کر دے تو بھی حقائق ہی کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اس کو فیس سیونگ دی جا سکتی ہے۔ معاشرے کا تلخ چہرہ بھی معاشرے کا ہی چہرہ ہوتا ہے اور اس کو تسلیم کرنا اور بتدریج خوشنما بنانا بھی معاشرے کا ہی کام ہے۔

اس عشرے کے موجودہ دیوتا کے سامنے تو مسائل بھی کچھ نہیں چہ جائیکہ یہ خود نہ پیدا کر کے خود کو ہیرو ثابت کرنا چاہیں۔ حقیقی دنیا کا تقاضا ہے کہ دیوتا کی جگہ فہم و شعور والا عام عاصی مقرر کیا جائے یا پھر دیوتا کو ہی اپنے درجے سے اتر کر انسانوں کو انسانوں کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور معاملات کرنے چاہیں۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ دیوتا کی طاقت اس کے پجاریوں کا اعتقاد ہوتی ہے اور اگر یہ لڑکھڑا جائے تو دیوتا ایک مجسمے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

اور یہ بھی کہ حد سے زیادہ دباؤ پھر وہ بد تر حقائق سامنے لا کھڑا کرتا ہے جو قابل تسلیم نہیں ہوتے مگر ان کو بھی نگلنا پڑتا ہے، تسلیم کرنا پڑتاہے۔ لال مسجد اور ڈمہ ڈولہ ایسے آپریشن حالات کو 16 دسمبر کے سانحے تک لے آتے ہیں۔ ایک بگٹی کا قتل صوبے کو آگ میں جھونک دیتا ہے اور ہزاروں جوان اور ان کا مستقبل اس آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں۔ اور پھر پورا ایک صوبہ دھماکوں، احتجاجوں، اور ہارس ٹریڈنگ کی خبروں کے علاوہ دسیوں سالوں تک مین سڑیم میڈیا سے غائب ہو جاتا ہے۔

دیوتا اپنے عمل کو کنٹرول کر سکتے ہیں مگر ردعمل کو نہیں۔ اس وقت بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ دیوتاؤں کو انسانوں کے لئے اسپیس بنانا ہو گی۔ اعتدال کا رستہ نہ نکالنا اور اصول کے نام پر ملک گنوا لینا اگر مناسب ہے تو طالبان کو شاباش دیں جنہوں نے اسامہ کو کامیابی سے بچا کر اپنی عوام کی تین نسلیں قربان کر دیں اور بالآخر بچائے گئے اسامہ کو بھی قبر نصیب نہیں ہوئی۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ دیوتاؤں اور ان کے پجاریوں کو حقائق کون پڑھائے وہ تو یوٹوپین ہیں، فدائین ہیں، کفن پوش ہیں، جذباتی ہیں۔ حقائق کی سیاست اور طرز سیاست سے ان کا کیا کام؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).