ُبنیادی مسئلہ مناسب تیاری نہیں، ترجیحات ہے


اپنے ایک مہربان دوست کی بدولت انگریزی کی ایک اصطلاح کا علم ہوا ہے۔ اسے KPI پکارا جاتا ہے۔ یہ Key Performance Indicatorsکا مخفف ہے۔ ’’کلیدی ترقیاتی اشارے‘‘ غالباََ اس کا اُردو متبادل ہوسکتا ہے۔

بہرحال میرے دوست نے جو ہمہ وقت خبر کے متلاشی رہتے ہیں بنیادی اطلاع یہ دی کہ عمران حکومت کے خیرخواہ بہت سنجیدگی سے اصرار کررہے ہیں کہ PDMکے جلسوں کو ’’ناکام‘‘ ثابت کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے گورننس کے اہم معاملات پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔وزیر اعظم ہر وزارت کے لئے چند اہداف کا تعین کریں۔تحریری صورت میں تیار ہوئے ان اہداف کے تناظر میں ہر تین یا چھ ماہ بعد ایک خصوصی اجلاس ہو۔ وزیر اعظم کے روبرو اس اجلاس میں کسی ایک وزارت کا انچارج اور اعلیٰ سطحی افسران موجود ہوں۔ٹھوس اعدادوشمار کی مدد سے وزیر اعظم کو وہاں طے شدہ اہداف کے حصول کی بابت آگاہ کیا جائے۔امید باندھی جارہی تھی کہ گزرے منگل کے دن وفاقی کابینہ کے ا جلاس میں KPI سے متعلق روڈ میپ تیار کرلیا جائے گا۔نظر بظاہر یہ ہو نہیں پایا۔ اپنے وزراء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بلکہ ایک نئی ’’تھیوری‘‘ پیش کردی۔

امریکی صدر کا انتخاب ہر چار سال بعد آئے نومبر میں مکمل ہوجاتا ہے۔نومنتخب صدر مگر اپنے عہدے کا حلف نئے سال کی 20 جنوری کے دن اٹھاتا ہے۔نومبر اور جنوری کے درمیانی مہینوں میں نئے صدر کے چنیدہ لوگوں کی ایک ٹیم مختلف وزارتوں میں جاکر سرکاری حقائق سے آگہی حاصل کرتی ہے۔ انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے نو منتخب صدر اپنے لئے چند اہداف کا تعین کرتا ہے اور ان کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے وزراء اور افسران بھی چن لیتا ہے۔اس عمل کو Transitionپکارا جاتا ہے۔

عمران خان صاحب نے منگل کے روز ہوئے خطاب میں پریشان دِکھتے ہوئے یاد دلایا کہ پاکستان میں کوئی نئی حکومت انتخاب ہوجانے کے فوری بعد اقتدار سنبھال لیتی ہے۔اسے گورننس کے حوالے سے ٹھوس حقائق دریافت کرنے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔’’مناسب تیاری‘‘ کے بغیر حکومت میں آئے لوگوں سے عوام لہٰذا ناراض اور مایوس ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ عمران حکومت کو اپنے ابتدائی ایام میں ایسے ہی کنفیوژن کو بھگتنا پڑا۔ حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے وہ ٹامک ٹوئیاں مارتی نظر آئی۔

وزیر اعظم کے مذکورہ خطاب کو منیر نیازی کے تصور کردہ شہر کے’’ظالم‘‘ لوگوں نے کشادہ دلی سے نہیں لیا۔ ’’مناسب تیاری‘‘کے بغیر سنبھالی حکومت کی کوتاہیوں کو درگزر کرنے پر رضا مند نہیں ہوئے۔ ہمارے ’’ذہن ساز‘‘ اینکر خواتین وحضرات نے بلکہ عمران خان صاحب کی ’’کلاس‘‘ لینا شروع کردی۔ٹی وی سکرینوں پر طنزومزاح کی پھلجڑیوں نے رونق لگادی۔کچھ ’’ظالم‘‘ لوگوں نے More Overکے لئے کئی وڈیو کلپس بھی ڈھونڈ لیں۔انہیں چلاتے ہوئے عمران خان صاحب کو یاد دلایا گیا کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے وہ تواتر سے اصرار کیا کرتے تھے کہ انہوں نے 200ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم تیار کررکھی ہے۔

کرکٹ کے کپتان ہوتے ہوئے وہ کامیابی کو یقینی بنانے والی ٹیم تیار کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ اس ٹیم کی بدولت وہ وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے 90دن بعد ہی پاکستان کو ’’نیا‘‘ ہوتا دکھائیں گے۔ ہمارے ’’ذہن ساز‘‘ مصر رہے کہ پاکستان کو ’’تبدیل‘‘ کرنے میں ’’ناکام‘‘ ہونے کا اعتراف کرنے کے بجائے وہ اب ’’مناسب تیاری‘‘ نہ ہونے والے بہانے تراش رہے ہیں۔عمران حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج کے پاس ’’ظالم‘‘ اینکروں کی جانب سے اٹھائے سوالات کے مناسب جواب موجود نہیں تھے۔ ’’مناسب تیاری‘‘ نہ ہونے والے اعتراف کو مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز صاحبہ نے بدھ کے روز مردان میں ہوئی ریلی میں بھی کمال مہارت سے عمران حکومت کا رگڑا لگانے کے لئے استعمال کیا۔

’’مناسب تیاری‘‘ نہ ہونے والی بات کو ذاتی طورپر میں نے چسکہ فروشی اور پھکڑپن سے اجتناب برتتے ہوئے زیر غور لانے کی کوشش کی ہے۔2019 کے مارچ-اپریل میں عمران خان صاحب کو اقتدار سنبھالے سات ماہ گزرچکے تھے۔ایک ٹی وی پروگرام کے لئے مجھے ان دو مہینوں میں ہر ہفتے تین دنوں کے لئے لاہور جانا ہوتا تھا۔اسلام آباد اور لاہور کے درمیان سفر کرتے ہوئے میرے اندر موجود رپورٹر نے دریافت کیا کہ پنجاب کی ’’اناج منڈی‘‘مشہور ہوئے کئی شہروں کے آڑھتی اپنے کارندوں کے ذریعے گندم کی تیار ہوئی فصل کو گائوں گائوں جاکر On Spotنقد رقم ادا کرتے ہوئے اٹھارہے ہیں۔

ان کی پیش قدمی منظم ذخیرہ اندوزنی کا عندیہ دے رہی تھی۔اس کالم میں تواتر سے میں نے گندم کے ممکنہ بحران کی دہائی مچانا شروع کردی۔حکومت مگر ٹس سے مس نہ ہوئی۔ بالآخر 2019کے نومبر-دسمبر میں گندم کا بحران بہت شدت سے رونما ہوگیا۔ اس بحران سے ہنگامی بنیادوں پرنبردآزما ہونے کے باوجود عمران حکومت 2020 میں نمودار ہوئے آٹے کے بحران کو بروقت روک نہیں پائی۔

رواں برس کے مارچ-اپریل میں کرونا کی وباء شدت اختیار کرنا شروع ہوئی تو پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں لاک ڈائون لاگو کرنا پڑا۔ لاک ڈائون کے دوران فقط انفرادی مشاہدے کی بنیاد پر میں اس کالم میں فریاد کرتا رہا کہ پولٹری کی صنعت سے وابستہ لوگ اپنے پاس موجود چوزوں کو دریابرد کررہے ہیں۔ یہ عمل جاری رہا تو 2020 کے موسم سرما میں انڈوں کی قیمت آسمان کو چھونا شروع ہوجائے گی۔حکومت نے اس ضمن میں بھی کوئی پیش قدمی نہیں دکھائی۔

آٹے کے بحران اور انڈوں کی ناقابلِ برداشت قیمتوں کو ذہن میں رکھوں تو یہ کہنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ اصل مسئلہ حقائق سے نآشائی یا ’’مناسب تیاری ‘‘ نہیں۔ بنیادی مسئلہ ترجیحات کا ہے۔اس تناظر میں عمران حکومت کے رویے پر غور کریں تو اصل ہدف محض 2008سے اقتدار میں ’’باریاں‘‘ لینے والے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کا ’’احتساب‘‘ ہی نظر آتا ہے۔عوام کے روزمرہّ زندگی سے جڑے بے تحاشہ مسائل سے بخوبی آگاہ ہوتے ہوئے بھی ان کا حل ڈھونڈنے کی سنجیدہ کاوشیں نہیں ہورہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا PDMنامی اتحاد تشکیل پاجانے کے بعد حکومت کی تمام تر توجہ اب نوازشریف کے ’’غدار بیانیے‘‘ کو جھٹلانے کی جانب منتقل ہوچکی ہے۔ اپنی ’’سٹریٹ پاور‘‘کے سبب مولانا فضل الرحمن بھی شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔امید اب یہ دلائی جارہی ہے کہ جیل سے ’’مفرور‘‘ ہوکر عدالت سے سزا یافتہ نواز شریف کو ہر صورت برطانیہ سے پاکستان لایا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت میں ہوئی ’’بغاوت‘‘سے پریشان ہوگئے تو نیب انہیں گرفتار کرلے گا۔

اپوزیشن جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوں گی۔سینٹ کی آئندہ برس مارچ میں خالی ہونے والی 52نشستوں میں اپنی عددی قوت سے زیادہ حصہ لینے کو مچل جائیں گی۔سپریم کورٹ یہ ’’ہدایت‘‘ دے گی کہ ان نشستوں پر انتخاب ’’خفیہ‘‘ نہ ہو۔ ’’کھلا انتخاب‘‘ ووٹ کی خرید وفروخت کو ناممکن بنادے گا۔ سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخاب مکمل ہوگیا تو تحریک انصاف ایوانِ بالا میں بھی اکثریتی جماعت بن جائے گی۔اس کے نتیجے میں عمران حکومت تیز رفتار قانون سازی کی بدولت 2023 تک اپنی آئینی مدت بآسانی مکمل کرلے گی۔ حکومتی استحکام تحریک انصاف کو آئندہ انتخاب کے بعد ایک اور ٹرم یا باری لینے کو بھی یقینی بنادے گا۔

اپنے استحکام اور 2023 کے بعد بھی اقتدار میں رہنے کو یقینی بنانے والی چالوں پر توجہ دیتے ہوئے عمران حکومت گورننس سے جڑے بے تحاشہ Microپہلوئوں کے بارے میں متفکر نظر نہیں آرہی۔ عوام میںبڑھتی ہوئی مایوسی کا حقیقی سبب اس ضمن میں اختیار ہوئی بے اعتنائی ہے۔’’مناسب تیاری‘‘ کا اس سے ہرگز کوئی واسطہ نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).