راولپنڈی کا تاریخی کرائسٹ چرچ جس کی مرمت کا بیڑہ تین مسلمان بھائیوں نے اٹھایا


 

کرائسٹ چرچ

راولپنڈی کے تاریخی کرائسٹ چرچ میں کئی مہینوں تک دن کا آغاز اللہ و اکبر اور اختتام ہالے لویاہ کی صداؤں سے ہوتا رہا ہے۔ مسیحی برادری کی یہ 160 برس پرانی عبادت گاہ آٹھ مہینوں تک ایک مسلمان کیلئے کام کرنے کی جگہ اور عارضی قیام گاہ رہی۔

39 برس کے محمد سرور، جو اس میں قیام پذیر تھے، نے بی بی سی کو بتایا: ’میں فجر کی نماز اس چرچ میں ادا کرتا اور اس کے بعد عمارت کی مرمت کا شروع کر دیتا اور پھر رات کو یہیں سو جایا کرتا تھا کیونکہ میرا گھر یہاں سے دور ہے اور میرے لیے ہر روز اتنا لمبا سفر کرنا بہت مشکل تھا۔‘

محمد سرور ایک پیشہ ور آرکیٹیکٹ ہیں جو پرانی طرز کی تاریخی عمارتوں کی مرمت کا کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں چند ہی لوگ اس کام میں مہارت رکھتے ہیں، جن میں سرور علی اور ان کا خاندان نامور آرکیٹیکٹ ہیں۔

سرور کہتے ہیں کہ ’یہ بھی خدا کا گھر ہے جیسے مسجد یا مندر۔ اس لیے مجھے یہاں پر عبادت کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔‘

 

کرائسٹ چرچ

گوتھک طرز تعمیر کی ایک شاہکار عمارت کی مرمت

کرائسٹ چرچ دراصل چرچ آف انگلینڈ کی پاکستان میں شاخ ہے، جسے انگریزوں نے سنہ 1852 میں تعمیر کیا تھا لیکن کئی دہائیاں گزرنے کے بعد اس عمارت کے کئی حصے مخدوش ہو گئے تھے۔ لہذا چرچ کی انتظامیہ نے عمارت کی مرمت کروانے کا فیصلہ کیا لیکن تاریخی عمارت کو اس طرح سے مرمت کرنا کہ عمارت کی اصل شکل خراب نہ ہو ایک بڑا مسئلہ تھا جس کے لیے محمد سرور اور ان کے بھائیوں کی ٹیم کو یہ کام پچھلے برس اگست کے مہینے میں سونپا گیا۔

سرور نے تعمیر کردہ ستون پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بتایا ’ہر کوئی اس کام کو نہ سمجھتا ہے نہ ہی اس میں مہارت رکھتا ہے۔ صرف چند ہی لوگ ہیں جو تاریخی عمارتوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ یہ ایک آرٹ ہے اور آرٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہرآدمی نہ تو آرٹ کو سمجھتا ہے نہ ہی مذہب کو۔‘

دنیا بھر میں قائم قدیم گرجا گھروں کی طرح کرائسٹ چرچ کی یہ عمارت بھی مخصوص گوتھک طرز تعمیر کا ایک شاہکار تھی، جسے صلیبی شکل میں بنایا گیا۔

سامنے کی طرف ’آلٹر ٹیبل‘ یا عبادت کرنے کا چبوترہ ہے جہاں پادری حضرات عبادات کے دوران خطبہ دیتے ہیں۔ اس کے دائیں اور بائیں جانب دو چھوٹے ہال ہیں جبکہ سامنے ایک بڑا، لمبا سا ہال ہے جس میں لوگ بینچوں پر بیٹھتے ہیں۔

چھتیں بہت اونچی اور قیمتی لکڑی کے موٹے شہتیروں سے بنی ہوئی ہیں جن کے اوپر کھپریل کی ایک سطح ہے۔ جو موسم کی شدت اور برسات کے دنوں میں پانی کو اندر آنے سے روکتی ہے۔ بڑے بڑے روشن دان ہیں جن میں مختلف رنگوں کے شیشیوں سے بنی کھڑکیاں لگی ہیں۔ بڑی بڑی آرچز عمارت کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہیں۔

کرائسٹ چرچ

یہی وہ مشکل کام تھا جسے محمد سرور اور ان کے بھائیوں نے آٹھ ماہ کی محنت کے بعد مکمل کیا۔

چرچ کے پادری ریورنڈ ندیم کامران نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس سے پہلے ہم نے چند مسیحی کاری گروں کو یہ کام کرنے کو دیا تھا لیکن انھوں نے اس عمارت کو مزید خراب کر دیا۔ ہر کوئی اس عمارت کی تاریخی اہمیت کو نہیں سمجھتا۔ پھر ہمیں کسی طرح محمد سرور اور ان کے بھائی علی اشرف اور علی اکبر ناطق کے بارے میں معلوم ہوا تو ہم نے ان سے اس کام کو کرنے کی درخواست کی۔’

مسلمانوں سے مرمت کا کام کہنے میں جھجھک تھی

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں تعصب قابل ذکر ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران مسیحی برادری کی عبادت گاہوں پر شدت پسند گروہوں کی جانب سے حملے بھی کیے گئے، جن میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔

مارچ 2011 میں اس وقت کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی، جو ایک کیتھولک مسیحی تھے، کو اقلیتیوں کے حقوق پر اپنے بے باک مؤقف کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تھا۔

اسی سال مشرقی صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے محافظ ممتاز قادری نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا کیونکہ انھوں نے بھی توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کی مخالفت کی تھی۔

کرائسٹ چرچ

مارچ 2015 میں ایسٹر کے موقع پر لاہور کے چرچ پر خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں 15 افراد ہلاک جبکہ 70 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔ اس سے قبل لاہور ہی کے علاقے بادامی باغ میں ایک مسیحی آبادی میں توہین مذہب کے الزام کی وجہ سے تقریبا 100 گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔

کرائسٹ چرچ کے پادری ندیم کامران کہتے ہیں کہ’اکثر اوقات مسلمان لوگ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں داخل نہیں ہوتے تو کام کرنا تو درکنار۔ لہٰذا چرچ کی تعمیر کی مرمت کے کام کے لیے ہم نے ہچکچاتے ہوئے علی برادران سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے فوراً حامی بھر لی۔‘

چرچ کی تاریخی عمارت کی مرمت کی خاص بات یہ ہے کہ علی برادران نے جو کام کیا وہ ایرانی طرز تعمیر دارہ شاہی کی جھلک دیتا ہے۔

محمد سرور کے بڑے بھائی، علی اکبر ناطق، جو ایک شاعر اور ادیب بھی ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ چرچ کی عمارت گوتھک سٹائل میں بنائی گئی ہے جبکہ ہم نے اس کی آرچز کو ایرانی سٹائل سے ایسا بنایا ہے کہ عمارت کا اصل طرز تعمیر خراب نہ ہو بلکہ نئی آرچز جن پر ہم نے سرخ رنگ کی اینٹیں لگائی ہیں جو عمارت کو مزید خوبصورت بناتی ہیں۔‘

کرائسٹ چرچ

آرمی چیف کی جانب سے مرمت کے لیے امداد

کرائسٹ چرچ کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ سنہ 2018 میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہاں کرسمس کی عباداتی رسومات میں اپنی اہلیہ کے ساتھ شرکت کی تھی۔

چرچ کے پادری ندیم کامران نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جنرل قمر جاوید باجوہ کا کرائسٹ چرچ کا یہ دوسرا دورہ تھا اس سے پہلے بھی وہ یہاں آ چکے ہیں جب وہ کور کمانڈر راولپنڈی کے عہدے پر فائز تھے۔‘

’دونوں مرتبہ انھوں نے چرچ کی مخدوش حالت پر تشویش کا اظہار کیا اور کرسمس کے موقع پر جب وہ آئے تو انھوں نے وعدہ کیا کہ عمارت کی مرمت کے کام کے لیے راولپنڈی کینٹونمنٹ کی طرف سے 10 لاکھ روپے چرچ انتظامیہ کو دیئے جائیں گے۔ انھوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور باقی آدھی رقم چرچ کی طرف سے خرچ کی گئی۔‘

کرائسٹ چرچ

پادری ندیم کامران کہتے ہیں ’چرچ کی عمارت اب پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتی ہے۔ عبادات کے دوران لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ اتنا خوبصورت کام کس نے کیا ہے تو میں ان کو علی برادران کے بارے میں بتاتا ہوں۔ کچھ لوگوں نے تو اپنے گھروں میں بھی ایسا کام کروانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔‘

دوسری جانب کرائسٹ چرچ کی عمارت میں مرمتی کام کرنے کی وجہ سے علی برادران، جو بچپن میں اپنے والد کے ساتھ مساجد تعمیر کرتے تھے، کو لاہور میں واقع بشپ ہاؤس کی تاریخی عمارت کی مرمت کا ٹھیکہ بھی مل گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp