اردو کے ممتاز ادیب، ناول نگار اور نقاد شمس الرحمن فاروقی انتقال کر گئے


اردو کے ممتاز ادیب، ناول نگار اور نقاد شمس الرحمن فاروقی کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان کی عمر 85 برس تھی۔ وہ 15 جنوری 1935 کو الہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ انہیں عہد حاضر میں اردو کے اہم ترین ادیبوں میں شمار کیا جاتا تھا۔

شمس الرحمن فاروقی نے تنقید نگاری سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ انہوں نے الہ آباد سے ’شب خون‘ کا اجرا کیا جسے جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا۔ اس رسالے نے اردو مصنفین کی دو نسلوں کی رہنمائی کی۔ فاروقی صاحب نے شاعری کی، پھر لغت نگاری اور تحقیق کی طرف مائل ہو گئے۔ اس کے بعد افسانے لکھنے کا شوق چرایا تو “شب خون“ میں فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے کئی افسانے لکھے جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ “سوار اور دوسری کہانیاں” اپنے لحن اور بنت میں عہد ساز  اہمیت رکھتا ہے۔ ان کا ناول ‘کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ اردو کے بہترین ناولوں مین گنا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں عام طور پر اردو دنیا کے اہم ترین عروض دانوں میں گردانا جاتا تھا۔ اردو ادب کی تاریخ میں شمس الرحمٰن فاروقی جیسی کثیر پہلو شخصیت کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

انہوں نے کوئی چالیس سال تک اردو کے مشہور و معروف ادبی ماہنامہ “شب خون“ کی ادارت کی اور اس کے ذریعہ اردو میں ادب کے متعلق نئے خیالات اور برصغیر اور دوسرے ممالک کے اعلیٰ ادب کی ترویج کی۔ شمس الرحمن فاروقی نے اردو اور انگریزی میں کئی اہم کتابیں لکھی ہیں۔ خدائے سخن میر تقی میر کے بارے میں ان کی کتاب ‘شعر شور انگیز’ جو چار جلدوں میں ہے، کئی بار چھپ چکی ہے اوراس کو 1996ء میں سرسوتی سمّان ملا جو برصغیر کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے تنقید، شاعری، فکشن، لغت نگاری، داستان، عروض، ترجمہ، یعنی ادب کے ہر میدان میں تاریخی اہمیت کے کارنامے انجام دیے ہیں۔ انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری ڈی لٹ سمیت متعدد اعزاز و اکرام ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).