وقت بہترین استاد ہے


تجربہ کاری یقیناً سیکھنے سے ہی آتی ہے اور سیکھنے میں کسی قسم کا حرج نہیں تاہم جب سیکھنا جب ناقابل تلافی نقصان دے جائے تو ایسے تجربے سے گھبرانا ضروری ہے۔ اب یہ تجربہ آخر کس کا تجربہ ہے جس نے مملکت خداداد کا چلتا پھرتا بھٹا ایسے بٹھایا کہ سیکھنے والے اور سننے والے حیران جب کہ سہنے والے پریشان رہ گئے۔ وقت نے ایسا پلٹا مارا کہ کل تک کے ارسطو آج مستری مجید کے شاگرد بن گئے۔ ایسا نہیں ہے کہ موجودہ حکومت سے پہلے کوئی دودھ کی نہریں بہ رہی تھیں یا یہاں کا ہر شخص خوشحال تھا۔

حالات پہلے بھی خراب تھے، راستے پہلے بھی دشوار تھے، منزل پہلے بھی دور تھی، قوم پہلے بھی ترقی کی پٹری سے اتری تھی تاہم پھر بھی پٹری کو پاس تھی چنانچہ یہ امید ضرور تھی شاید کوئی ڈرائیور آ کر اس ٹرین کو واپس پٹری پر ڈال دے گا۔ اس امید میں جان اس وقت آئی جب عمران خان کی صاف نیت عوام کی نظروں میں آئی۔ غربت اور مفلسی کی ماری، اپنے ضمیر کو قیمے والے نان کے عوض بیچنے والی عوام کو جب ایک روشن خواب نظر آیا تو اس نے اس خواب کو حقیقت بنانے کے لئے کپتان کو اپنا وزیراعظم بنایا یہ سوچ کر کہ نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔

وزیراعظم نے بھی خوب سیاسی کرتب دکھاتے ہوئے ایک کمزور ہی سہی لیکن حکومت بنا ہی دی لیکن اس دن کو بعد وزیراعظم کا دور اپوزیشن میں اس وقت کی حکومت کے خلاف دیا گیا بیان ان کو رلاؤں گا لگتا ہے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مظلوم عوام کے لئے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ میرے محترم کپتان کے وسیم اکرم پلس کے بقول وہ ایک ٹرینی ہیں اور وزارت اعلی کا کام سیکھ رہے ہیں جس پر ان پر بے جا تنقید برحق تھی لیکن اب ایسے وقت میں جب ملک کا دیوالیہ ہو چکا ہو، ملک قرضوں کے شکنجوں میں بری طرح جکڑا ہوا ہو، عوام مہنگائی سے تنگ ہو، پوری کی پوری اپوزیشن اپنے خلاف مبینہ طور پر کی جانے والی انتقامی کاروائی کے سبب سڑکوں پر آنے کے لیے کمر کس کر بیٹھی ہوئی ہے تو اس ملک کو وزیراعظم کی جانب سے بیان آتا ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے اس کے لیے تیار رہنا بے حد ضروری ہے۔

اس بیان کا مطلب تو کوئی ناسمجھ انسان بھی بآسانی سمجھ گیا ہوگا کہ پچھلے دو برس میں اس قوم کے ساتھ آخر ہوا کیا ہے۔ ڈالر نے تاریخ کی بلند ترین سطح دیکھی، مقبوضہ کشمیر میں ظالم بھارتی حکومت کا قبضہ ہوتے دیکھا، پی آئی اے کا بین الاقوامی سطح پر جنازہ اٹھتا دیکھا، پاکستان مخالف اور اداروں کو مخالف عناصر کو سر اٹھاتے دیکھا، بیروزگاری کا طوفان دیکھا گویا دو برس میں اس قوم نے اگر کچھ نہیں دیکھا تو وہ شاید سکون ہو گا۔

ہمارے ناتجربہ کار وزیراعظم نے ہر کسی کو آزمایا، اپنوں کو بھی پرکھا انجانوں پر بھی بھروسا کیا، وزارتیں بانٹیں تو سیاست یاد آ گئی، تجربہ کار لئے تو وہ یا تو ناپسندیدہ بنا دیے گیے یا وہ کھوٹے سکے نکلے۔ میرے وزیراعظم کی ٹرین کو واپس پٹری پر ڈالنے کے بجائے سڑک سے لے جانے کے فیصلے نے منزل ہی بدل ڈالی۔ کل تک جو عوام دو وقت کی روٹی کو ترستے تھے، آج پانی تک سے محروم ہے، وہ لوگ جو تنخواہوں میں اضافے چاہتے تھے آج چھوٹی ہی سہی لیکن نوکری کو ترستے ہیں، وہ لوگ جو کپتان کو چن کر تجربہ کرنا چاہتے تھے آج اپنی ہی آنکھوں میں شرمندہ ہیں۔ مایوسی کے اس دور میں کچھ اچھی خبریں بھی آئیں اور یقیناً تجربہ سکھاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).