شہید بچے کے نام اس کی ماں کا خط


میرے پیارے بیٹے

دو سال بیت گئے۔ ایک منہ زور ریلا ہے جو ہر صبح آتا ہے اور پچھلی رات باندھے گئے سارے بند بہا کر لے جاتا ہے۔ حوصلہ ہار جاتا ہے۔ ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ آنکھیں پہلے آنسوؤں سے بوجھل ہوتی ہیں پھر سیلاب کی طرح یہ آنسو بہتے چلے جاتے ہیں۔ اس روزانہ کے سیلاب نے مرے چہرے پر راستے بنا لیے ہیں۔ اب آئینہ دیکھتی ہوں تو اپنے آپ کو پہچان نہیں پاتی۔ ایک تباہی اور بربادی کی داستان ہے بس جو آئینے سے دیکھتی ہے مجھے۔

دو سال کا عرصہ کس طرح بیتا ہے۔ اس کا اندازہ کوئی کیسے لگا سکتا ہے۔ چار سفاک دہشت گردوں کی پھانسی میرے زخموں کا مداوا نہیں کر سکتی۔ میں نے ایک ایک لمحہ کس درد سے تکلیف سے اور کس کرب سے گذرا ہے، اس کو لفظوں میں بیاں کرنا ممکن نہیں۔ کس کس بات پر کلیجہ منہ کو آیا ہے یہ بتانا ممکن نہیں، آج بھی صبح سے جو تمہاری یادوں کا تانتا بندھتا ہے وھ کتنی اور رات کے خوابوں میں بھی رہ رہ کر مجھے ستائے گا، اس کا حساب بھی ممکن نہیں۔

دو سال پہلے جن آوازوں سے میرا گھر صبح صبح گونج جایا کرتا تھا اب وہاں ویرانی نے ڈیرے ڈال ہیں۔ میں روز مرتی ہوں۔ اپنے ہاتھوں سے تمہاری چیزوں کو چھوتی ہوں اور تمہارے لمس کو محسوس کرنے کی آرزو میں اس عمل کو بار بار دہراتی ہوں۔ تمہاری جس بے ترتیبی پرمیں اکثر نالاں رہتی تھی اور جس کو سنوارتے سنوارتے تھک جاتی تھی آج اس ہی کمرے میں ترتیب سے رکھی کتابوں کو دیکھ کر میری سسکیوں کی گونج کمرے میں سنائی دیتی ہے۔ میز پر رکھے اس روزنامچے کے اوراق کو بار بار پلٹ کر دیکھتی ہوں جس میں پندرہ دسمبر کے بعد کورے صفحات کا راج ہے
بستر پر بغیر سلوٹ کی چادر میری زندگی کی سلوٹوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ الماری میں قطار سے لگے کپڑوں میں تمہاری خوشبو کو محسوس کرتی ہوں۔ کمرے کے ایک کونے میں رکھے ہوئے گیند بلے کو دیکھتے ہی مجھے وہ اپیلیں سنائی دیتی ہیں جو زندگی کے آخری لمحے ظالموں سے تم نے کی ہوں گی۔ گھنٹوں تمہاری تصویر سے باتیں کرنے کے باوجود بھی جواب خاموشی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

مری جان، میرے لاڈلے۔ میں اپنے آنچل سے تمہاری تصویر پر پڑی گرد کو کئی بار صاف کرتی ہوں تم خود تو منوں مٹی تلے سو گئے ہو پر تمہاری تصویر پر مٹی کی گرد بھی مجھے برداشت نہیں ہوتی۔ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے زور زور سے تمہارے نام کو پکارتی ہوں پر مجھے اپنی ہی آواز کی بازگشت کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ ایک بار صرف ایک بار لوٹ آؤ کہ میں تمہیں اپنے سینے سے لگا کر دل بھر کے پیار کرنے کے لیے مری جا رہی ہوں۔

ماں مجھے بھوک نہیں ہے، میرا یونیفارم کہاں ہے، میں نے کل میز کے پاس جوتے رکھے تھے کس نے اٹھائے ہیں، میری کاپی کہاں ہے، میں آج لنچ نہیں لے کر جاؤں گا۔ ماں آج میرا فیورٹ کھانا پکانا۔ ماں مجھے نیند آ رہی ہے مجھے آج اسکول نہیں جانا۔ اب کوئی یہ جملے نہیں بولتا۔

میں کاش کی دنیا میں جا کر زاروقطار روتی ہوں اور کہتی ہوں کہ کاش تمہاری زندگی میں وہ دن نہ آتا۔ کاش تمہاری جگہ میں اس دنیا سے چلی جاتی، کاش تم دروازہ کھولو اور میرے سینے سے لگ کر میرے چہرے پر بوسہ دو، کاش تم کہو مجھے بھوک لگ رہی ہے میرا فیورٹ کھانا پکا دو۔ میری یہ آرزو ہے کہ کاش تمہاری اسکول نہ جانے کی چھوٹی سی خواہش میں پوری کر دیتی۔ تمہیں گور کے حوالے کرنے کے بعد میرا وجود بھی زندہ درگور ہو گیا ہے۔ میں تمہارے دوستوں میں تمہیں تلاش کرتی ہوں، ان کو پیار کرتی ہوں، جھولی پھیلا پھیلا کر ان کی لمبی زندگی کی دعائیں دے کر اپنی بھٹکتی ہوئی ممتا کو تسلی دیتی ہوں۔

اس سانحے کے بعد میں زندگی سے روٹھی روٹھی رہتی ہوں میں نے ہنسنا بولنا سب چھوڑ دیا ہے۔ کھانے کے نام پر دکھوں اور سسکیوں سے اپنا پیٹ بھر لینے کے بعد آہوں سے بھرے گلاس کو پی لیتی ہوں، آنسوؤں سے غسل کرتی ہوں اور رات کو دکھوں کی چادر اوڑھتے ہوے اور یہ کہتے ہوئے سو جاتی ہوں گی۔ ہائے نی میں پتر کنوں اکھاں۔
تمہاری تڑپتی ہوئی ماں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments