جمعہ خان کی واپسی، لاہور کی گلیاں، کوئٹہ کے گٹر


\"\"گذشتہ کئی دنوں سے ہمارے دیرینہ دوست جمعہ خان انقلابی (المعروف جے کے) غائب تھے۔ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، کسی کو کچھ بھی خبر نہیں تھی۔ موبائل رکھنے کے وہ حق میں نہیں، ان کے ہمسائیوں سے پوچھنا نہ پوچھنا ایک برابر۔ لے دے کر اس کے نظریاتی حلیف بچ گئے تھے جن سے پوچھنے کی کوشش کی گئی۔ ان کی کم ظرفی ہی کہئے کہ جمعہ خان جیسے کڑیل نظریاتی دشمن کے اچانک منظر عام سے غائب ہونے کو انہوں نے نہ صرف سیلیبریٹ کیا اور اسے نظریاتی پسپائی کا نام بھی دیا۔ ان چغل خور نظریاتی حریفوں نے مشہور کر دیا تھا کہ وہ اپنے بائیں بازو کی تمام تر نظریاتی آلائشوں سمیت عمران خان کی تحریک سے جا ملے ہیں۔ ایک ستم ظریف نے تو یہ پھبتی بھی کسی کہ وہ دراصل عمران خان کو نظریاتی سیاست کی پٹی پڑھانے گئے ہیں۔ دیکھ لینا کہ بہت جلد عمران خان مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کی بولی بولنا شروع کر دیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ آخری دفعہ انہیں کوئٹہ سے نکلنے والی وین کے چھت پر بیٹھے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ جب دھرنے کا پول کھل گیا اور باقی سارے کوئٹے وال پہنچ گئے، جمعہ خان موصول نہ ہوئے تو ان سازش نگاروں نے مشہور کردیا تھا کہ جمعہ خان یوم تشکر کے بعد رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع میں حاضر ہوئے ہیں اور آخری دفعہ وہیں دیکھے گئے ہیں۔ دھرنا بھی گزر گیا اور اجتماع بھی اختتام کو پہنچا، لیکن جمعہ خان کی کوئی خیر خبر نہیں پہنچی۔

جمعہ خان جتنے اچانک غائب ہوئے، آج صبح اتنے ہی اچانک وارد ہوئے۔ داڑھی کافی بڑھ چکی تھی، تپاک سے تیس نیکیوں والا سلام (اسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ) کیا۔ چادر میں لپیٹی ہوئی درجن بھر کتابوں کے درمیان میں سے سوہن حلوے کی ڈبیہ نکالی اور پھر انتہائی شرافت سے ہمارے روبرو بیٹھ گئے۔ جمعہ خان نے ہی بتایا اور سمجھایا تھا کہ ملتان کا سوہن حلوہ کوئٹہ میں رائےونڈ کے چلے کاٹنے والے ہی لاتے ہیں اور یہ ایک ایسا اخلاقی پھندا ہے جو حلق میں اُترتے ہی شکار کو دبوچ لیتا ہے، اور پھر شکار کی روح عقیدے کے عقدے میں پھڑپھڑاتی رہ جاتی ہے۔ جمعہ خان کا اتنا سنجیدہ اور سکہ بند انداز مجھے کاٹنے کو دوڑ رہا تھا۔ آج وارد ہوتے ہوئے کوئی گالی بھی نہیں بکی تھی جس پر مجھے یقیناً ان کی ذہنی صحت پر شبہ ہونے لگا۔ کیونکہ ان کے ساتھ گذشتہ دو دہایئوں سے جب بھی ملاقات ہوتی گرما گرم بحث اور گرم قہوہ چائے کا دور ضرور چلتا۔ ان کی صحبت میں پڑھائی، بحث و مباحثہ اور اس کے نتیجے میں لڑنا جھگڑنا مشترک خصوصیات ہوتی تھیں۔ ویسے بھی جہاں لڑائی ڈاکٹر کی دوائی کی طرح صبح، دوپہر اور شام لازم ہوجائے وہاں لڑنا ایک فن بن جاتا ہے۔ گالی چڑیا کے گند کی مانند بے کراہت ہو جاتی ہے اور طعنہ طرحی مشاعرے میں ہجو گو شاعر کا حسن مطلع بن جاتا ہے۔ فریقین کے ذہن اسلحہ ساز کارخانوں کی طرح جوابی حملے کے لئے الفاظ کے پٹاخے بنا رہے ہوتے ہیں، جو جذبات کی حدت سے پھٹتے رہتے ہیں۔

ہم نے چائے وغیرہ کا کہا، پہلے منع کیا اور پھر کہا کونسی والی؟ میں نے بتایا، وہی والی، یعنی دودھ اور پتی۔ ہاں ہاں، نیکی اور پوچھ پوچھ۔ مجھے تھوڑی سی تسلی ہوگئی کہ کم ازکم چائے والی خراب عادت ابھی باقی ہے، امید ہے اور بھی بہتر ہو گی۔ انہوں نے کتابوں کی گھٹڑی تھمائی اور پھر دھڑلے سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی اور گویا ہوئے۔ تو گویا، ہمارے بارے میں آپ کی بھی وہی رائے ہے جو اغیار کی ہے؟ میں نے کہا مرزا نے بھی یہی کہا تھا کہ ! ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے۔۔۔ بات کچھ سر تو۔۔۔ میں نے ابھی شعر مکمل نہیں کیا تھا کہ انہوں نے ڈانٹتے ہوئے روک دیا اور پھر بولے۔ تم شاعروں اور شاعروں پرستوں کا بس یہی پرابلم ہے۔ شعر کہہ کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہو، موقع دیکھتے ہو نہ محل۔ میں نہ ہی ضعیف ہوں، اور نہ ہی سر کو زانو پر دھرنے کی حالت اور حق میں ہوں، میں نہ تھکنے والا مبارز ہوں۔

میں نے پوچھا! چلیں جناب آپ ہی بتائیں ایک پوری چہلم کہاں گذاری جناب نے؟ کہاں سے بتاؤں؟ انہوں نے فوراً جواب دیا!

چوٹ (جوتا) باندھنے اور کھولنے والی تفصیلات چھوڑ کر کے، کیوںکہ مجھے پتہ ہے کہ تفصیلات کی بھول بھلیوں میں گم ہو جانا تمہارا وہ مشغلہ جو مجھ جیسے سامعین پر بجلی بن کر گرتا ہے، میں نے ایک ہی سانس میں پورا جملہ ادا کیا!

چلیں یوں ہی سہی، انہوں نے بتانا شروع کیا! میں لمبے عرصے سے اپنی (قومی) کسمپرسی اور پسماندگی پر غور کر رہا تھا، پھر میں نے سوچا کہ ذرا میڈیا سے ہٹ کر حقیقت کا خود مشاہدہ کروں، کم ازکم لاہور جاکر مشاہدہ کروں۔ اس لئے میں نے زاد راہ باندھی۔ یکم نومبر کی صبح کو کوئٹہ سے بس لی، ذرا سی آنکھ لگی، پتہ چلا کہ لورالائی سے بھی آگے نکل آئے تھے، اور چند گھنٹوں میں بارکھان سے آگے پنجاب میں داخل ہوئے، گولی کی طرح چلنے والی بس نے شام سے بھی پہلے ملتان پہنچایا اور پھر صبح آنکھ کھلی تو لاہور میں خود کو پایا۔ شہر لاہور دُلھن کی طرح سجا ہوا تھا، ظالم لیڈی ڈیانا کی طرح جتنا پرانا ہوتا جارہا ہے اتنا ہی نکھرتا جاتا ہے۔ وہ تمھارے چچا غالب نے ہی کہا تھا کہ! ہو کہ عاشق وہ پری رُخ اور نازک بن گیا!۔ شاہی قلعہ، سوزو واٹر پارک، جلو پارک، لاہور میوزیم، واہگہ بارڈر۔۔ میں نے درمیان میں روکا۔ جناب یہ تو ہم سب کو علم ہے، کوئی نئی بات جو پلے پڑی ہو، تعلیم، علم اور شعوری بیداری وغیرہ۔ جمعہ خان شاید برا مان گئے، بولے! نئی بات، وہ بات تو تم جیسے محروم اور مجہول سننے کی تاب نہیں رکھ سکتے۔ میں کیا بتاؤں وہ آپ گوگل سے پوچھے یا ویکیپیڈیا میں تلاش کیجئے۔ آپ کو علم ہو جائے گا کہ لاہور میں پاکستان کے آدھی سے زیادہ پرائویٹ تعلیمی ادارے ہیں، میڈیکل کالجز، آئی ٹی، فارماسوٹیکل، اکاؤنٹننگ، ہیلتھ سائنسز، غرض یہ کہ تمام جدید علوم کی درس گاہیں موجود ہیں جہاں ہشاش بشاش نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آتی ہیں۔ نہ حملے کا خوف نہ تیزاب پھینکے جانے کا ڈر۔ ہر طرف زندگی ہی زندگی تھی۔ ہم نے کہا جناب یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ وہاں پہلے بھی زندگی تھی، آج بھی ہے اور کل بھی ہو گی، رہ گئی بات ہماری، تو وہ جو کہتے ہیں کہ ‘‘روتے رہیں گدھوں کے مالک (پشتو مقولہ)’’۔

اس پر وہ بپھر گئے، کہنے لگے، جس طرح تمہارا قول گدھوں والا ویسے تم گدھوں ہی کے زمانے میں رہنے میں عافیت جانتے ہو، لاہور کی بالادستی اور سامراجی وتیرے کو ذرا بالائے طاق رکھ دو، چلو حساب لگاتے ہیں۔۔ یہ جو کسی زمانے میں تمھارا چھوٹا پیرس (کوئٹہ) ہوا کرتا تھا آج گٹرستان کیوں بنا ہوا ہے، شکستہ سڑکوں سے اٹھتی ہوئی دھول اور اس پر ابلُتے تُنک ظرف گٹروں کی آپ پاشی، پانی لادنے والے ہزاروں ٹریکٹروں کی چاندنی، اور لینڈ مافیا کی سرکاری املاک کی الاٹمنٹ۔۔ انہوں نے ہاتھ اتنے تیزی سے ہوا میں لہرایا کہ بمشکل داہنی آنکھ بچا سکا۔ پھر پہلو بدل کر بولے۔ یہ جو شہر کو خوبصورت بنانے کے لئے چمک پٹیاں لگائی گئی ہیں، اسے تو آج کل سرکس والے اپنے میلے میں بھی نہیں لگاتے، مجھے بتاؤ کیا اُبلتے ہوئے گٹروں کو بھی تم پنجابی سامراج کے زمرے میں ڈالو گے؟ کیا سول ہسپتال میں دو نمبر کے انجکشن طالبان نے فراہم کئے ہیں، کیا امتحان میں نقل کرانے ڈونالڈ ٹرمپ کے آدمی آتے ہیں؟ کیا دو نمبر کا دودھ، بسکٹ اور گدھے کا گوشت۔۔۔ فرط جذبات سے اس کا چہرہ سرخ ہوا، ہم نے کہا کہ خدا ہی خیر کرے، کہ اس درمیان اُن پر کھانسی کا شدید حملہ ہوا، آنکھوں سے آنسو اور پھر یکایک چھینکیں شروع ہوئیں۔ چائے پڑی ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ ہم نے موقع غنیمت جانا، چائے اُنڈیلی اور باقی کا قصہ پھر سننے کا وعدہ کر لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments