اغوا برائے تاوان کی صنعت کے فروغ میں کوشاں پنجاب پولیس


\"\"اہل بلوچستان غمزدہ ہیں کہ وہاں غیر قانونی حراست میں لئے جانے کے واقعات بہت پیش آتے ہیں۔ لاہور پر وہ رشک کرتے ہیں کہ یہاں صرف پنجاب پولیس ہی کا راج ہے اور اہل لاہور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں سے محفوظ ہیں۔ تاہم اہل بلوچستان کو خبر ہو کہ پنجاب پولیس کسی دوسرے سے ہرگز کم نہیں ہے۔ آئیے صرف لاہور کے ان مسنگ پرسنز کے اعداد و شمار جانتے ہیں جو کہ عدالت لاہور پولیس کے قبضے سے برآمد کرانے میں کامیاب ہوئی۔

بول ٹی وی کی عدالتی دستاویزات پر مبنی خبر کے مطابق یکم جنوری سے 13 دسمبر تک صرف لاہور پولیس کے قبضے سے 2499 افراد کو بازیاب کروانے کے لئے ان کے اہل خانہ نے سیشن عدالتوں سے رجوع کیا۔ ان افراد کو نجی ٹارچر سیلوں، تھانوں اور دیگر مقامات پر رکھا گیا تھا۔ عدالتی بیلف نے ان افراد کو برآمد کیا۔ پولیس کی جانب سے محبوسان پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ بول نیوز کو موصول ہونے والے عدالتی ریکارڈ کے مطابق جنوری میں 169، فروری میں 173، مارچ میں 214، اپریل میں 269 افراد، مئی میں 248، جون میں 244، جولائی میں 209، اگست میں 251، ستمبر میں 216، اکتوبر میں 269، نومبر میں 209، اور دسمبر کے پہلے 13 دنوں میں پچاس افراد کو پولیس کے نجی ٹارچر سیلوں اور دیگر غیر قانونی حراستی مراکز سے عدالتی بیلف کے ذریعے برآمد کیا گیا۔ ان افراد کو بغیر مقدمات کے حراست میں رکھا گیا تھا۔ یہ تو وہ ڈھائی ہزار افراد ہیں جن کا معاملہ پولیس کے ساتھ نہ بن پایا تھا۔ جو لین دین میں کامیاب رہے ہیں، وہ کتنے ہوں گے؟

ظاہر ہے کہ اس غیر قانونی حراست کا مقصد یا تو اس معصوم شہری سے پیسے بنانا ہوتا ہے یا پھر کسی بااثر شخص کو خوش کرنے کے لئے یہ کیا جاتا ہے۔ پیسے وصول کر کے، یا بندے کو ’سیدھا‘ کر کے، پولیس اسے چھوڑ سکتی ہے۔ اس میں کتنا وقت لگے گا، یہ صرف پولیس جانتی ہے یا خدا، ملکی قانون اس سے بے خبر ہے۔ مگر بہرحال یہ بات واضح ہے، کہ پولیس کا چائے پانی خوب بن رہا ہے۔

\"\"شہری کی آزادی کے حق کو آئین میں اس حد تک اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے آرٹیکل نو میں یہ کہا گیا ہے کہ ’کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے‘۔ آرٹیکل دس میں حکم دیا گیا ہے کہ ’ 1۔ کسی شخص کو جسے گرفتار کیا گیا ہو، مذکورہ گرفتاری کی وجوہ سے، جس قدر جلد ہو سکے، آگاہ کیے بغیر نہ تو نظربند رکھا جائے گا اور نہ اسے اپنی پسند کے کسی قانون پیشہ شخص سے مشورہ کرنے اور اس کے ذریعے صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم کیا جائے گا۔ 2۔ ہر اس شخص کو جسے گرفتار کیا گیا ہو اور نظربند رکھا گیا ہو، مذکورہ گرفتاری سے چوبیس گھنٹے کے اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہو گا لیکن مذکورہ مدت میں وہ وقت شامل نہ ہو گا جو مقام گرفتاری سے قریب ترین مجسٹریٹ کی عدالت تک لے جانے کے لئے درکار ہو اور ایسے کسی شخص کو مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر مذکورہ مدت سے زیادہ نظربند نہیں رکھا جائے گا‘۔

اسی چیز کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 61 میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ کسی ملزم کو بغیر وارنٹ کے گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ گرفتاری کے بعد 24 گھنٹے کے اندر ملزم کو علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جانا ضروری ہے۔

اگر پولیس کسی شخص کی گرفتاری کا اندراج کرتی ہے، تو اسے 24 گھنٹے کے اندر علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور گرفتار کرنے کی وجوہات بتانی ہوں گی۔ لیکن اگر وجوہات قانونی نہ ہوں تو؟ اگر مقصد صرف ڈرا دھمکا کر مال بنانا ہو تو مجسٹریٹ اس کی اجازت کیسے دے گا؟ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ تھانے کی بجائے نجی حراستی مراکز اور ٹارچر سیل قائم کر کے ان مغویان کو وہاں رکھا جاتا ہے اور قانون سے بالاتر ہو کر ہی سارا مالی لین دین ہو جاتا ہے۔

جب قانون کے محافظ کہلانے والے ہی قانون شکن ہوں تو پھر عام شہری کیا کریں؟

\"\"ایسا ہی ایک معاملہ گزشتہ دنوں ہمارے مشاہدے میں آیا۔ سات دسمبر کو لاہور ائیرپورٹ کے سامنے سے راولپنڈی پولیس نے ایک صاحب کو ان کے بھائی کی موجودگی میں حراست میں لیا اور پنڈی کے تھانہ روات میں لے گئے۔ عدالتی بیلف نے تھانے پر چھاپہ مارا تو وہاں محبوس موجود نہیں تھا۔ چودہ دسمبر کو متعلقہ پولیس افسر نے ملزم کے بھائی کی جانب سے دائر کی گئی حبس بیجا کی درخواست پر سیشن جج راولپنڈی کی عدالت میں بیان دیا کہ ملزم کے خلاف امانت میں خیانت کی ایک ایف آئی آر درج ہے، ہم تو وارنٹ لے کر چھاپہ مارنے گئے تھے، مگر ملزم ملا ہی نہیں، اس لئے درخواست گزار بھائی کو حکم دیا جائے کہ ملزم کو ہمارے حوالے کرے۔ سیشن جج نے پولیس کا بیان سچ جانا اور درخواست خارج کر دی۔

مذکورہ ایف آئی آر درج کرانے والا شخص ایک سویلین وفاقی ادارے کا اعلیٰ اہل کار ہے اور باوقار ہونے کی شہرت رکھتا ہے۔  اطلاعات کے مطابق مذکورہ افسر راولپنڈی کا مہاراجہ کہلانے والے وفاقی وزیر سے رسم و راہ رکھتا ہے۔ افسر مذکور محبوس کے ایک عزیز سےکسی کاروباری معاملے پر ناراض ہے۔ یہ ناراضی بذریعہ پنجاب پولیس ظاہر ہوئی ہے۔ اگر محبوس کی باقاعدہ گرفتاری ڈالی گئی تو قانون کے تحت اس کی ضمانت ہو جائے گی اور ایک دو عدالتی پیشیوں پر مقدمہ خارج ہو جائے گا۔ ایف آئی آر میں موجود مرکزی ملزمان پہلے ہی ضمانت پر ہیں۔ تھانے میں دو گواہوں کی موجودگی میں محبوس سے اس کے بھائی کی ملاقات بھی کروائی جا چکی ہے۔ مگر پولیس اس بات سے تحریری طور پر عدالت کے سامنے انکاری ہے کہ محبوس اس کی تحویل میں ہے۔

اب اعلی عدلیہ سے ہی امید ہے کہ وہی اتنی طاقت رکھتی ہے کہ پنڈی کے مہاراجہ اور قانون پر عمل درآمد کے صوبائی ذمہ داران کو قانون کی پاسداری پر مجبور کر سکے۔ پنجاب پولیس چوبیس گھنٹے کیا، دس دن بعد بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ایک عام شہری، جو کبھی کسی جرم میں ملوث نہیں رہا، اس کی غیر قانونی تحویل میں ہے۔ کیا اعلی عدلیہ کے توسط سے اب حکومت اور پولیس پر اغوا کا مقدمہ درج کروایا جائے؟

پاکستان میں طالبان نے اغوا برائے تاوان کو ایک انڈسٹری بنایا، اب مملکت خداداد کی حکومت بھی اس صنعت کی سرپرستی پر مائل دکھائی دیتی ہے۔ اللہ کے فضل سے پنجاب پولیس اس صنعت کے فروغ کے لئے بھرپور طور پر کوشاں ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments