عصر کا وقت اور رقص بسمل
عصر کی ایک اذان کربلا میں ہوئی، ایک اکہتر میں ہوئی ہو گی، ایک ابھی دو برس پہلے بھی ہوئی تھی جب مرنے والے ہر بچے کے ماں باپ بھائی بہن جان چکے تھے کہ سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا اور ایک اذان آج ہو رہی ہے۔ آج جمعہ ہے اور جمعہ مبارک کے پیغامات سے موبائل اٹا پڑا ہے۔ انسان خسارے میں ہے!
اکہتر کے وقت ہم میں سے بیشتر پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش بننے کا دکھ اس نسل کا دکھ نہیں ہے۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ جس طرح خاک اڑائی گئی وہ بھی دیکھ لیا۔ جو قصوروار تھے انہیں بھی جان لیا، جو محض لاچار تھے انہیں بھی دیکھ لیا۔ سوال آج کا ہے، ویگنوں کی چھتوں پر لدی لاشیں باقاعدہ بات کرتی ہیں جنہیں وہ کان نہیں سن سکتے جو اکہتر سے پہلے بھی ایسی آوازوں کو بے وقت کی راگنی کہا کرتے تھے۔ لاشوں کے پروٹوکول دیکھنے والے لاشوں کی بے حرمتی بھلا نہیں سکتے۔ یہ سچ ہر زمانے میں بولا جاتا ہے لیکن تربیت یافتہ نصابی دماغ اسے نفرت کی آواز جان کر ایک دم اگنور کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
”پشاور واقعہ۔ ہم نہیں بھولیں گے“ ہر طرف یہ پیغام بڑے جوش و خروش سے لکھا نظر آ رہا ہے لیکن اس کا مطلب بہرحال کوئی نہیں ہے۔ بھولے تو ہم کربلا بھی نہیں، بھلایا تو اکہتر بھی نہیں، بھلایا تو پہاڑوں میں مرنے والے سردار کو بھی نہیں، فراموش تو ہزارہ لاشیں بھی نہیں ہوئیں، کوئٹہ کے جواں مرگ وکیل ابھی کل کی بات ہے، وہ بھی یاد رہیں گے، سوال یہ ہے کہ اتنی یادوں سے حاصل کیا ہوا؟ وہ یاد جو سال کے سال دماغ میں کسی کونے سے نکل کر سامنے آئے، ایک دو کالم لکھوائے، دو تین قل خوانیاں ہوں، بہت سے سیمینار ہوں اور اگلے ہی دن سے باقی پورے سال کے لیے اسے لپیٹ کر رکھ دیا جائے اس کا فائدہ کیا؟ یاد نہ ہوئی چودہ اگست والی جھنڈیاں ہو گئیں جو اس ایک دن کے بعد دھوپ میں جل کر سفید ہوتی ہیں یا بارش پڑنے سے کہیں بہہ جاتی ہیں اور اگلے سال پھر نئی جھنڈیاں بیچنے والے موجود ہوتے ہیں۔
پشاور واقعہ، کیا نہیں بھولیں گے؟ یہی کہ ٹی وی پر خبر دیکھی اور اداس ہو گئے، یہی کہ اس سے اگلے دن ”بڑا دشمن بنا پھرتا ہے“ قسم کے گانے سنے اور پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے؟ یہی کہ ہر گلی کوچے میں موم بتیاں جلائیں، بینر اور پلے کارڈ لے کر کھڑے ہوئے اور پھر اپنے گھروں میں آ کر کمبل اوڑھ لیے؟ یہی کہ اگلے چھ مہینے بچوں کو سکول بھیجنے سے ڈرتے رہے؟ کیا نہیں بھولیں گے؟ یہ سب بھول جائیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یاد صرف ان کو رہے گا جن کے بچے مرے، صبح جن کے کندھوں پر بستے لٹکا کر بھیجا ہو شام میں انہیں کندھوں پر اٹھا کر دفنانا پڑے تو یاد باقی رہتی ہے۔ وہ جو چھوٹی چھوٹی قبریں ہوتی ہیں، جن پر مرنے والوں کے ماں باپ ہر دوسرے دن پہنچے ہوتے ہیں، جی ہاں، آج بھی پہنچتے ہیں، وہ قبریں نہیں بھولنے دیتیں، لیکن صرف ان کو جن کا اپنا بچہ مرا ہو۔
یاد رکھنا ہے تو اس نیشنل ایکشن پلان کو یاد رکھیے جو بدلے کے طور پر اس کے بعد بنایا گیا تھا۔ بیس نکاتی پلان تھا، یاد کیجیے کتنا عمل ہوا اس پر؟ یاد کیجیے اس پلان سے متعلق خبر جب بھی دیکھی ”ذرائع“ کے مطابق دیکھی، ”نامعلوم“ رکاوٹیں یاد کیجیے اور ان پر کیے گئے پرتشویش اظہار یاد کیجیے۔ کالعدم تنظیم، سہولت کار، ٹوٹی کمر، شدید مذمت، یہ سب لفظ یاد کیجیے، بلکہ کوئی دھن بنائیں اور پھر اس پر گانا کمپوز کریں جو ان سب لفظوں پر مشتمل ہو، اس پر اکٹھے ڈانس کریں کہ ہاں ہاں ہم نہیں بھولیں گے لیکن وہ ناچ رقص بسمل ہو گا۔
اگلے زمانوں میں جب دشمن کا کوئی بندہ مارتے تھے تو تلوار سے گردن اڑائی جاتی تھی۔ اگر مزید بدلہ لینے کا دل کرتا تو اس کٹی ہوئی گردن پر جلتا ہوا توا یا کوئی شدید گرم چیز باندھ دیتے تھے۔ خون نکلنے کے لیے زور مارتا لیکن نکل نہیں سکتا تھا، لاش ادھر سے ادھر تڑپتی پھڑکتی رہتی، ساتھ ساتھ ڈھول نقارے وغیرہ بھی بجائے جاتے اور حسب توفیق خوشی منائی جاتی۔ یہ رقص بسمل ہوتا تھا، یہی بدلہ ہوتا ہے!
- جون ایلیا، نوجوانوں کا نیا کیوپڈ - 09/01/2025
- عورت اور مرد بالکل الگ مخلوق ہیں - 20/10/2024
- مظہر علی سر سید کے پڑپوتے نہیں تھے - 09/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).