مشروبات اور کھانا فروخت کرنے والی دو ہزار سال قدیم دکانیں دریافت


ماہرین آثار قدیمہ کو لگ بھگ دو ہزار سال پرانے کھانوں کے آثار ایسے برتنوں میں دریافت ہوئے۔ جنہیں دکاندار گول سوراخ کر کے کاؤنٹرز کے نچلے حصوں میں محفوظ کرتے تھے۔

اٹلی کے شمالی خطے میں واقع قدیم شہر پومپئی میں آثار قدیمہ کے یورپی ماہرین نے ایسی ہوٹل نما دکانیں دریافت کی ہیں جو کہ رومن راہ گیروں کو گرم کھانا اور مشروبات پیش کیا کرتی تھیں۔

پومپئی رومن بادشاہت کے دور میں ایک مصروف شہر تھا۔ تاہم 79 قبل از مسیح میں شہر کے قریب واقع آتش فشاں اچانک لاوا اگلنا شروع ہوگیا جس سے یہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے جلتے ہوئے لاوے میں دب گیا۔

برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق ماہرینِ آثار قدیمہ نے یہ دکانیں ہفتے کو پومپئی شہر کے ریجیو حصے میں دریافت کیں۔ جسے سیاحوں کے لیے ابھی نہیں کھولا گیا۔

ماہرینِ آثار قدیمہ کو لگ بھگ 2000 سال پرانے کھانوں کے آثار ایسے برتنوں میں دریافت ہوئے۔ جنہیں دکان دار گول سوراخ کر کے کاؤنٹرز کے نچلے حصوں میں محفوظ کرتے تھے۔

ان کاؤنٹرز کے فرنٹ کو رنگ دار فریسکو ڈیزائن سے سجایا جاتا تھا۔ جن میں سے چند کاؤنٹرز پر ان جانوروں کی تصاویر بنائی گئی تھیں۔ جو کہ کھانے کا حصہ ہوتے تھے۔جیسے چکن اور بطخیں جنہیں الٹا کرکے لٹکایا جاتا تھا۔

پومپئی آرکیالوجیکل پارک کے ڈائریکٹر مسیمو اوسانا کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی دریافت ہے۔

ان کے بقول یہ پہلا موقع ہے کہ پارک میں موجود کسی مقام کو مکمل طور پر کھودا گیا ہے۔

کھدائی کے دوران پیتل سے بنا مشروب پینے والا برتن جسے ‘پیٹرا’ کہا جاتا تھا، دریافت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سوپ اور اسٹو پکانے کے لیے استعمال ہونے والا جار اور شراب کی بوتل بھی دریافت ہوئی ہے۔

کئی صدیوں بعد اس شہر کی کھدائی کے دوران ملبے تلے دبے کئی ایسے عالیشان مکان، عوامی غسل خانے اور دستکاریوں کے مراکز بھی برآمد ہو چکے ہیں جو مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچ گئے تھے۔

اٹلی کے شہر نیپلس کے شمال مشرق میں 23 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع پومپئی میں لگ بھگ 13 ہزار لوگ رہتے تھے۔

یہ شہر ایک ایسی تباہی سے ہم کنار ہوا جو کئی ایٹم بم پھٹنے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے بھی زیادہ تھی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa