سیاسی بحران سے نمٹنے میں حکومتی حکمت عملی


حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج اس وقت حکومت مخالف قوتیں ہیں جو پی ڈی ایم کی سطح پر اتحاد بنا کر حکومت کو گرانے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ ان حکومت مخالف جماعتوں کے بقول عمران خان کی حکومت کو گرانا اور ملک میں فوری طور پر نئے انتخابات کے ماحول کو پیدا کرنا ان کی بڑی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے بقول موجودہ سیاسی صورتحال میں حکومت سے کسی بھی سطح پر مذاکرات نہیں کریں گے۔ کیونکہ یہ مذاکرات حکومت کی مجبوری ہیں اور ہم حکومت کو مذاکرات کے نام پر کوئی این ار او دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ پی ڈی ایم کی سیاسی حکمت عملی میں اجتماعی طور پر استعفوں کی سیاست اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی موجود ہے جسے وہ حکومت گراو تحریک کے طور پر آخری حربہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

حکومت پی ڈی ایم یا اپنی سیاسی مخالف قوتوں کو ختم یا کمزو ر جبکہ پی ڈی ایم حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے۔ حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان یہ ٹکراو کی کیفیت کس کے حق میں فیصلہ دیتی ہے اس کا فیصلہ بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ حکومتی حکمت عملی کی طرف دیکھیں تو اس کی اس وقت پہلی کوشش سینٹ کے انتخابات میں سیاسی برتری کو حاصل کرنا ہے۔ کیونکہ سینٹ میں حکومت کو برتری حاصل نہیں جو اس کو قانون سازی کے محاذ پر مشکل پیدا کرتی ہے۔

اس لیے حکومت کو امید ہے کہ سینٹ کے انتخابات چاہے وہ خفیہ رائے شماری کے تحت ہوں یا اوپن بیلٹ وہ ہی سیاسی برتری حاصل کر لیں گے۔ اس برتری کے بعد حکومت کو قانون سازی کے محاذ پر کچھ ریلیف مل سکے گا۔ عام خیال یہ ہی ہے کہ حکومت سینٹ میں برتری کے بعد نیب کے قانون میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لا کر احتساب کے عمل میں تیزی پیدا کرنا چاہتی ہے۔ یہ ہی ڈر اور خوف حزب اختلاف میں بھی موجود ہے کہ نئی قانون سازی ہمیں کسی نئی مشکل میں ڈال سکتی ہے۔

استعفوں کی سیاست کا جو کارڈ پی ڈی ایم نے کھیلا ہے وہ کافی حد تک کمزور نظر آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ کسی بھی صورت میں موجودہ اسمبلیوں سے سینٹ کے انتخابات کو قبول نہیں کریں گے۔ پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کے بقول اگر پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں سینٹ کے انتخابات سے قبل اسمبلیوں سے اجتماعی طور پر استعفے دے دیں تو نہ صرف بڑا سیاسی بحران پیدا ہوگا بلکہ سینٹ کا انتخاب بھی پس پشت چلاجائے گا۔ لیکن حکومت نے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے پی ڈی ایم کے خلاف ایک ایسے بیانیہ کو زیادہ طاقت دی جا رہی ہے کہ وہ استعفوں کے معاملے میں داخلی اختلافات کا شکار ہیں۔ خاص طو رپر پیپلز پارٹی کو اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے کے معاملے پر حکومتی حکمت عملی کافی مضبوط نظر آتی ہے۔

آصف علی زرداری جو بلاول کے مقابلے میں اصل فیصلہ ساز ہیں انہوں نے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سینٹ کے انتخابی معرکہ سے قبل استعفوں کی بات مت کریں۔ ان کے بقول پیپلز پارٹی سینٹ کا انتخاب بھی لڑے گی اور جو ملک میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں اس میں بھی حصہ لے گی۔ آصف زرداری اچھی طرح جانتے ہیں کہ نواز شریف، مولانا فضل الرحمن کی اسٹیبلیشمنٹ کی لڑائی میں ہمیں بلاوجہ خود کو نہیں الجھانا اور نہ ہی دیوار سے ٹکر مارنے کی حکمت عملی اختیار کرنی ہے۔

کیونکہ وہ سندھ حکومت کا حصہ ہیں اور بلاوجہ اقتدار کو چھوڑ کر وہ نواز شریف یا مولانا فضل الرحمن کی سیاسی کشتی میں سوار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ جب اسمبلیوں سے پی ڈی ایم نے اگر استعفوں کی بات کی تو پیپلز پارٹی کا موقف ہوگا کہ ہم اسمبلی کے اندر اور باہر دونوں محا ذپر جدوجہد جاری رکھیں گے۔ آصف زرداری نے بہت زیادہ خوبصورتی سے اس پی ڈی ایم کو ہتھیار بنا کر اپنے کارڈ اسٹیبلیشمنٹ سے بہتر کھیلے ہیں۔

اس وقت حکومتی حکمت عملی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پی ڈی ایم میں پہلے سے موجود سیاسی تقسیم کو زیادہ سے زیادہ گہرا کیا جائے ا ور ان کے ہر سطح پر داخلی تضادات کو نمایاں کیا جائے۔ اس تناظر میں ان پانچ حکمت عملیاں ہیں۔ اول پیپلز پارٹی کو ہر صورت میں نواز شریف اور مریم نواز کے ایجنڈے سے دور رکھا جائے اور اپنی تنقید کا سارا زور نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن پر لگایا جائے۔ دوئم مسلم لیگ نون میں بھی موجود سیاسی تقسیم کو بیانیہ کی سیاست میں مزید تقسیم کیا جائے۔ اس تاثر کو مضبوط کرنا ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ نواز شریف

اور مریم نواز کے سیاسی بیانیہ پر پارٹی تقسیم ہے اور استعفوں کے دینے پر بھی تضاد ہے۔ اس کی ایک بڑی شکل مسلم لیگ نون میں یہ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ مختلف راہنما ایک دوسرے پر وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنے کے الزامات عائد کر رہے ہیں جو داخلی انتشار کو نمایاں بھی کرتا ہے۔

سوئم مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں موجود ایسے لوگوں کو سامنے لایا جائے جو فضل الرحمن کی سیاست سے خود کو علیحدہ رکھ کر تنقید کریں۔ اس لیے حافظ حسین احمد، مولانا نصیب گل اور مولانا شیرانی کی سیاسی بغاوت کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے، یہ کھیل مزید پیدا ہوگا اور کئی دیگر لوگ بھی سامنے آئیں گے۔ چہارم حزب اختلاف کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بشمول پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو نیب کے شکنجے میں لایا جائے اور ان جماعتوں میں ایسے لوگ جو کسی نہ کسی شکل میں نیب کے ریڈار میں آسکتے ہیں ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ پنجم اس تاثر کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بھی کیا جائے اور اجاگر بھی کہ اس وقت حکومت مخالف لوگوں کا نشانہ محض عمران خان نہیں بلکہ ریاستی سطح پر موجود ادارے، فوج یا اسٹیبلیشمنٹ، عدلیہ اور نیب ہیں اور اس کے پیچھے بیرونی ایجنڈ ا بھی ہے۔

بنیادی طور پر جو بیانیہ نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اختیار کیا ہوا ہے اس کا بھی براہ راست سیاسی فائدہ وزیر اعظم عمران خان کو ہی مل رہا ہے اور وہ اداروں کی سیاسی حمایت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ جبکہ پی ڈی ایم کی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ دوریاں اور تلخیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ حکومتی کوشش یہ ہے کہ کسی طریقے سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے حتمی اعلان سے قبل ہی پی ڈی ایم کو دفاعی حکمت عملی پر لایا جائے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب رانا ثنا اللہ کا بیان سامنے آیاہے اور ان کے بقول دھرنا 23 مارچ یا 23 اپریل کو بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی فوری طور پر اسمبلیوں سے استعفے یا لانگ مارچ کا امکان کمزو رنظر آتا ہے۔

دراصل پی ڈی ایم کو لاہو رکے جلسہ سے کوئی بڑا سیاسی فائدہ نہیں مل سکا۔ اب خود مسلم لیگ نون میں بھی لاہور جلسہ کی کمزوری پر کھل کر بات ہو رہی ہے۔ اب پی ڈی ایم کے اہل دانش کے بقول اصل میں لاہوری ووٹ تو نواز شریف کو دیتے ہیں لیکن نواز شریف یا مریم نواز کے لیے باہر نہیں نکلتے۔ سب سے بڑی غلطی مریم نواز کا مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کا فیصلہ تھا۔ اس لیے آنے والے دنوں میں ہمیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مزیدسیاسی مسائل دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ مسائل جہاں خود پی ڈی ایم کے داخلی تضادات سے نمایاں ہوں گے وہیں ان تضادات کی ایک بڑی وجہ حکومتی حکمت عملی بھی نظر آتی ہے جو پی ڈی ایم کو ہر سطح پر کمزو رکرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).