خوش آمدید :2021 نیا برس ،نئی امیدیں اور نئے خواب


مسلمان ہونے کے ناتے ہم اسلامک کیلنڈر جسے ہجری یا عربی کیلنڈر بھی کہتے ہیں کی پیروی کرتے ہیں جس کے تحت محرم میں نیا سال شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن چونکہ ہم نے بہت ساری قدریں ، ’رسم و رواج‘ روایات اور ثقافت دوسرے معاشروں کی اپنائی ہوئی ہیں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان میں رچ بس بھی گئے ہیں۔

جب نئے انگریزی سال کی آمد ہوتی ہے تو ہم اپنے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم نئے اہداف بناتے ہیں اور پرانوں کو رستے میں ہی ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ دراصل ہم اپنے مقرر کیے گئے اہداف کا معائنہ کرتے ہیں، ان میں تبدیلی لے کر آتے ہیں کچھ اور خواب اور منزلیں اس کے ساتھ مل جاتی ہیں۔ جب ہم ایک منزل پا لیتے ہیں یا ناکام ہوتے ہیں دونوں صورتوں میں اپنا موازنہ کرتے ہیں اور تجربے کی روشنی میں ان غلطیوں سے سیکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

روبن شرما نے اپنی کتاب Who Will Cry When You Die میں لکھا کہ ناکامیاں نہیں ہوتی بلکہ نتائج ہوتے ہیں ، سانحات نہیں ہوتے بلکہ سبق ہوتے ہیں،  اسی طرح مسائل نہیں ہوتے بلکہ مواقع ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس فلاسفی کو اپنے دل و دماغ میں بسا لیں اور عمل کریں تو کبھی پریشان نہ ہوں گے اور مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا اللہ تعالی پر یقین اور بھروسا ایمان کا حصہ ہے جو ہمیں ٹوٹنے نہیں دیتا۔ اللہ کی رسی مضبوطی سے تھام رکھی ہو تو ہم آنکھیں بند کر کے ہم پل صراط پر چل سکتے ہیں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے 2020 کا برس ہر لحاظ سے مشکل اور آزمائش سے بھرپور تصور کیا جاتا ہے۔ خوف دلوں میں بیٹھ گیا ۔ کئی گھروں کی رونقیں اندھیرے کی نذر ہو گئیں۔ کئی امیدیں دم توڑ گئیں،  کئی خواب ٹوٹ کر بکھر گئے۔ زندگی کی خوشیاں اور مزے سب ماند پڑ گئے۔ دنیا جہاں کے لوگ  اور سیاح گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے۔ سال بھر بچے اور اساتذہ اسکول اور کالجوں میں جانے کو ترستے رہے۔

اب جب کہ سال اپنے اختتام کو ہے تو سب کی ایک ہی دعا ہے اور امید ہے کہ آنے والا برس 2020 جیسا نہ ہو۔ امید اس لیے بھی ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین تیار ہونے کی خبریں بھی گردش میں ہیں جس کی وجہ سے امید کی موہوم سی کرن جاگی ہے۔

نئے سال 2021 کو ہم امیدوں کا سال بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہمیں رونقیں بحال ہونے کی امید ، بند کاروبار کھلنے کی امید، بیماروں کی صحت یابی کی امید ، بحران سے نکلنے کی امید، پروازیں چلنے کی اور اپنے پیاروں سے ملنے کی امید ہے۔

پاکستانی قوم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک کن حالات سے گزر رہا ہے ، ملک اس وقت قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے پھر بھی قوم حکومت سے آس و امید لگائے بیٹھی ہے کہ وہ کورونا وائرس کی ویکسین باآسانی اور مناسب قیمت پر فراہمی یقینی بنائے گی۔

ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ، اللہ تعالی سے بہتری کی امید رکھنی چاہیے اور کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پریشانیاں یوں پے در پے آتی ہیں کہ قدم اکھڑ جاتے ہیں ، نا چاہتے ہوئے بھی مایوسی چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے اور اللہ تعالی سے شکوہ زبان پر آ جاتا ہے کہ آخر میں ہی کیوں؟ یا یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں؟ لیکن یہاں ہم غلطی کر جاتے ہیں کیوں کہ یہ وہ مقام ہے جہاں ہم اپنے رب کے قریب ہو سکتے ہیں۔ اپنا ہر معاملہ اس ذات پر چھوڑ کر مطمئن ہو سکتے ہیں۔ اللہ کبھی اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا ’کبھی تنہا نہیں چھوڑتا ، کبھی برا ہونے نہیں دیتا۔ بس وہ اپنے بندے کو آزماتا ہے ، دے کر بھی اور لے کر بھی۔

سارا کھیل ہماری سوچ کا ہوتا ہے اور اس سوچ پر ہمارا اختیار چلتا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ہماری سوچ ہمیں اس بھنور سے باہر لے آتی ہے۔ لہٰذا اس آنے والے برس میں خود پر کام کریں ، اپنے ساتھ وقت گزاریں۔ سب سے مشکل کام اپنی غلطی یا کمزور پہلو تلاش کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر اس کو تسلیم کرنا ہے۔ ہم خود میں اس وقت تک تبدیلی نہیں لا سکتے جب تک ہمیں معلوم نہ ہو کہ کس پہلو کو تبدیل کرنا ہے۔

اپنی سوچ پر کام کریں اس کو مثبت کریں۔ لوگوں کا اچھا سوچیں ، کسی کے بارے میں برا گمان نہ کریں ، اپنے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزاریں ، خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سیکھیں۔ اپنے وقت اور توانائی کا صحیح اور بروقت استعمال کریں۔ سادہ کھانا کھائیں، ورزش کریں ، خود کو کام میں مصروف رکھیں ، اس سے دماغ منفی سوچوں سے بچ جاتا ہے۔ اپنے اخلاق پر کام کریں ، دوسروں کی تعریف کرنا، ان کی کامیابیوں کو سراہنا اور دوسروں کو مواقع فراہم کرنا سیکھیں۔

جب ہم اچھا سوچتے ہیں ، اچھا کرتے ہیں اور شکر اپنی زندگی میں لاتے ہیں تو ہمارے اندر واضح تبدیلی آتی ہے ، دلی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے جو عموماً لاکھوں آسائشوں کے باوجود حاصل نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ اللہ بھی ہمیں اس کا اجر دیتے ہیں اور ہمارا کوئی نیک عمل رائیگاں نہیں جانے دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).