نئے برس میں خواب کیا دیکھیں


2020 ء ختم ہونے والا ہے، نئے سال کی آمد آمد ہے، ہر شخص آنکھوں میں اپنی مرضی اور خواہشات کے خواب سجائے ایک سہانے اور شاندار مستقبل کا خواہاں ہے۔ جہاں ایک درد مند پاکستانی اپنے معاشی اور معاشرتی حالات کی بہتری کے لئے دعا گو ہے، وہاں اپنے ملک کی سلامتی اور بقا کے لئے بھی اللہ تعالی کے حضورہاتھ پھیلائے ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کی تمنا میں سر بسجود ہے۔ دیکھا جائے تو دنیائے عالم کی تاریخ میں 2020 ء سے سخت ترین سال نہیں گزرا۔

ایک طرف تو کئی بڑی بڑی تجارتی کمپنیاں کوویڈ۔ 19 کی تباہ کاریوں کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں دوسری طرف ایسے افراد بھی قریب المرگ ہیں جو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ گزشتہ سال پاکستانی عوام کوویڈ۔ 19 کی بنا پر ہونے والے لاک ڈاؤن نے تو ادھ موا کر ہی دیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ حکومت کو خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایسے مشکل حالات سے کیسے نمٹا جائے اور اس بات کا بر ملا اظہار ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان ایک انٹرویو میں بھی کر چکے ہیں۔

اس بیماری نے اندرون ملک کاروبار کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری برآمدات میں بھی خلل ڈالا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی عالمی منڈیاں بند ہونے کی وجہ سے نہ صرف ادائیگی متاثر ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ذرائع نقل و حمل کی عدم دستیابی کی وجہ سے آرڈرز کی بر وقت فراہمی ممکن نہ ہو سکی۔ مارچ 2019 ء سے ہنگامی طور پر شروع ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک عزیز پاکستان میں افراط ذرا ور مہنگائی کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ایک بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی اور افراط زر کی شرح 6.74 سے بڑھ کر 10.74 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ ادارہ شماریات کے اندازے کے مطابق موجودہ حکومت کے دور مالی سال 20۔ 2019 میں مہنگائی کی اوسط شرح 10.74 فیصد رہی جو مالی سال 18۔ 2017 میں 4.68 فیصد تھی۔

محکمہ شماریات کی سابقہ ماہ کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اگست 2018 تا نومبر 2020 کے دوران دال کی قیمتوں میں 50 تا 109 روپے جبکہ بکرے کا گوشت 203 روپے اور گائے کا گوشت 98 روپے فی کلو مہنگاہوا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے 800 روز میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا بھی مہنگا ہوا، اگست 2018 میں آٹے کے 20 کلو تھیلے کی اوسط قیمت 771 روپے تھی جو بڑھ کر اب 989 روپے ہو گئی۔ ادارہ شماریات کی دستاویز کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں تازہ دودھ 20 روپے فی لیٹر، دہی 19 روپے، آلو 40 روپے، پیاز 37 روپے، چاول 15 روپے، لہسن 114 روپے اور مرغی زندہ برائلر 89 روپے فی کلو جبکہ ڈھائی کلو گھی کا ٹن 160 روپے مہنگا ہوا، اسی عرصے کے دوران انڈوں کی قیمتوں میں 72 روپے فی درجن اضافہ ہوا۔

یاد رہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے دور میں سب سے زیادہ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کیا ہے ایک اندازے کے مطابق موجودہ دور حکومت میں بجلی 3 روپے 85 پیسے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں 334 فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ قیمتوں میں اضافے کا بجلی اور گیس صارفین پر مجموعی طور پر 550 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ اگست 2018 سے نومبر 2020 کے دوران ایک ڈالر 36 روپے مہنگا ہو کر 123 سے بڑھ کر 159 روپے کا ہو گیا جبکہ ڈالر کی بلند ترین سطح ایک موقع پر 167 روپے پر بھی پہنچ گئی تھی۔

ملک عزیز پاکستان کی عوام کے انداز رہن سہن کا مطالعہ کیا جائے تو 40 فیصدپاکستانی خاندان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بقیہ 55 فیصد وہ سفید پوش طبقہ ہے جن کے پاس ماہانہ بچت کی مد میں کچھ بھی نہیں بچتا اور ان کی گزر بسر کا انحصار صرف ماہانہ آمدنی پر ہے اگر خدانخواستہ کسی مہینے میں ان کی آمدن میں کسی قسم کا ردو بدل ہوتا ہے تو وہ قرضہ لینے پر مجبورہو جاتے ہیں۔ مجھے خود سابقہ سات ماہ میں اپنے بجٹ کو متوازن رکھنے میں جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا وہ بیان سے باہر ہیں لیکن اگر کرونا کی وجہ سے کاروباری بدحال کا یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہر دوسرا خاندان فاقہ کشی کا شکار ہو کر موجودہ حکومت اور اہل اقتدار کو کوستا ہوا نظر آئے گا۔

گزشتہ سال فکر معاش نے عوام کو اس دوراہے پر لا کھڑا کیا کہ وہ ملٹی لیول مارکیٹنگ اور آن لائن کمائی کے ذرائع ڈھونڈنے کی بھی کوشش کرتے رہے جس کی فائدہ نوسر باز اور ٹھگ لوگوں نے اٹھایا اور سفید پوش طبقے نے جو اچھے دنوں میں پس انداز کیا ہوا تھا، وہ لے کر چلتے بنے۔ افراط زر اور مہنگائی میں اضافے کا براہ راست اثر عوام اور غریب طبقے پر پڑنے کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی پڑا ہے۔ جب والدین نے دیکھا کہ تعلیمی ادارے مستقل بنیادوں پر بند ہیں تو انہوں نے اپنے وہ بچے سکول اور کالج سے نکال کربہتر روزگار کے حصول کے لئے بٹھا دیے۔

جس کی وجہ سے آؤٹ آف سکول طلباء کی تعدا د میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ میرے ایک اندازے اور مشاہدے کے مطابق ہر نجی اور حکومتی سکول میں 15 سے 20 فیصد تک طلباء و طالبات کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی جس کا بنیادی سبب بے روزگاری کی شرح میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی ہے۔ کوویڈ۔ 19 نے جہاں ہر طبقہ زندگی کے لوگوں کو متاثر کیا ہے وہاں اس کا سب سے زیادہ نقصان نجی تعلیمی اداروں، پبلشنگ ہاؤسزکے ساتھ ساتھ تعلیمی سے تعلق رکھنے والے تمام کاروبار ی حضرات خاص طور یونیفارم، ٹائی، بیج، جوتے اور سٹیشنری کا سامان بیچنے والے تمام کارخانہ جات ابھی تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے۔

دیکھا جائے تو نقصان صرف تعلیمی اداروں کا نہیں ہوا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان تمام کارخانہ جات اوراس میں کام کرنے والے غریب مزدوروں کا بھی ہوا ہے جن کی بحالی کے لئے موجودہ حکومت نے احساس پروگرام کی مد میں 12000 فی خاندان کی ایک قلیل رقم رکھی جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہی تھی، میرے خیال میں اگر حکومت کسی بھی کاروبار کے سلسلے میں یہی رقم خرچ کر دیتی تو اس بھیک سے وہ بہتر تھا کیونکہ ایک چینی کہاوت ہے کہ غریب کو مچھلی دینے کی بجائے اس کو مچھلی پکڑنے والا کانٹا دیا جائے تا کہ وہ مزید مچھلیاں پکڑکر اس سے کچھ زیادہ کما سکے۔

موجودہ سال تو جیسے تیسے گزر گیا لیکن ہم ایک ایسی قوم کے افراد ہیں جو ہمیشہ اچھے دور کی خواہاں رہے ہیں اور ہر حال میں صبر شکر کرتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو جس حساب سے پوری قوم کو کرونا مریضوں کی تعداد اور اموات کے گورکھ دھندے میں الجھا کر رکھا گیا ہے تو مجھے دور دور تک تعلیمی اور کاروباری اداروں کی بحال کا نام و نشان بھی نظر نہیں آ رہا۔ بچے تو گھر بیٹھے بیٹھے بوریت کا شکار ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ گھر کے بڑے بھی پریشان ہیں کہ خدانخواستہ سابقہ سال کی طرح مارچ میں کرونا کی دوسری لہر شدت اختیار کرتی ہے تو سال 2021 ء بھی ہمیں معاشی تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کرے گا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ابھی ہمیں تیسری لہر کی خطر ناکی سے بھی ڈرایا جا رہا ہے۔

میرے مشاہدے کی مطابق سال گزشتہ میں ہمیں خیر کی خبروں کی تو جو کمی رہی ہی رہی لیکن افسر شاہی کی من مانیاں اور وزراء کے محکمہ جات کی تبدیل خوب دیکھنے کو ملی۔ بجائے اس کے نئے پاکستان میں اسلامی روایات کو پنپنے کا موقع دیا جاتا، عوام کو ٹک ٹاک اور لائیکی جیسی ایپس کے ذریعے سستی تفریح مہیا کرنے کا خوب بندوبست کیا گیا اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی بجائے ہم نے اشنان ہی کیا اور نوجوان نسل کو بھی اپنے فارغ وقت میں ایک بہترین تفریح کا موقع فراہم کیا گیا تاکہ وہ حکومتی پالیسیوں پر ایک تنقیدی نظر بھی نہ دوڑا سکیں۔ موقع کی مناسبت سے مجھے ارشد ملک کی یہ نظم یاد آ رہی ہے کہ

آنکھوں کی دہلیز پہ ارشدؔ
نئے برس کے خواب
ابھی تک یونہی پڑے ہیں
نئے برس میں خواب کیا دیکھیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).