زندگی کو عذاب بنانے کا طریقہ(مکمل کالم)


میرے پلنگ کے ساتھ ایک چٹائی بچھی ہے، اس پر میں نے بجلی کی ایکسٹینشن رکھی ہوئی ہے، توسیعی تار کا دوسرا سرا ایک ساکٹ میں ہے جہاں سے اسے بجلی کی رو ملتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک جب بھی مجھے اپنا فون چارج کرنے کی ضرورت پیش آتی، میں پلنگ پر لیٹے لیٹے ہی اسے ایکسٹینشن میں لگا دیتا تھا۔ بظاہر اس سارے نظام میں کوئی خرابی نہیں تھی مگر جب بھی میں پلنگ سے اترتا تو میرے پیروں سے چٹائی کھسک کر ٹیڑھی ہو جاتی جس کے ساتھ تار بھی الجھ جاتی تھی اور پھر ہر مرتبہ مجھے چٹائی اور تار کو سیدھا کرنا پڑتا تھا، جب تک میں ایسا نہ کرتا مجھے الجھن ہوتی رہتی اور ایسا دن میں کئی مرتبہ ہوتا تھا۔

مجھے الجھی ہوئی تاروں اور ٹیڑھی میڑھی چیزوں کو دیکھ کر بہت کوفت ہوتی تھی، گھر میں جہاں کہیں مجھے کوئی تار کا سرا لٹکا ہوا نظر آتا میں فوراً الیکٹریشن کو بلو کر کہتا کہ اسے ’ڈکٹ‘ میں چھپا دو۔ اس کام کی ضرورت اس کثرت سے پیش آتی تھی کہ الیکٹریشن میرے بلانے پر ’ڈکٹ‘ پہلے سے ہی بغل میں داب کر لے آتا۔ اسی طرح میرے پلنگ کے سامنے ایک چھوٹا سا طاقچہ ہے جس میں چند کتابیں سیدھی رکھی ہیں۔ کبھی کبھار صفائی کے دوران ان میں سے کوئی کتاب آگے کو باہر نکل آتی یا زیادہ پیچھے کو چلی جاتی تو مجھے یہ بے ترتیبی دیکھ کر بھی کوفت ہونے لگتی تھی، چاہے میں رضائی میں گھس کر چلغوزے ہی کیوں نہ کھا رہا ہوتا، جب تک اٹھ کر کتابوں کو سیدھا نہ کر دیتا مجھے چین نہیں آتا تھا۔

کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ میں کتابیں سیدھی کر کے بستر میں لیٹتا تو ساتھ ہی سامنے رکھے لیمپ پر نظر پڑ جاتی جو اپنی جگہ سے کھسکا ہوا نظر آتا۔ طوعاً و کر ہاً مجھے پھر اٹھنا پڑتا تاکہ میں لیمپ کو تین انچ پیچھے دھکیل کر واپس اس کی جگہ پر رکھ دوں، اگر میں ایسا نہ کرتا تو مجھے لیمپ کے پیچھے تاروں کا گچھا نظر آنا شروع ہو جاتا جو میں بالکل برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ دفتر میں بھی میری یہی کیفیت رہتی تھی۔ اگر کوئی کرسی ٹیڑھی دکھائی دیتی یا میز کے شیشے کے نیچے رکھے ہوئی کاغذ ایک سیدھ میں جڑے ہوئے نہ ملتے، کتابیں ترتیب سے نہ پڑی ہوتیں یا کہیں کوئی تار لٹکی ہوئی نظر آ جاتی تو مجھے بے چینی شروع ہو جاتی تھی اور جب تک میں تمام چیزوں کی ترتیب درست نہ کر لیتا، اطمینان نہیں ہوتا تھا۔

شروع شروع میں اپنی اس عادت کو میں نے ’کمال پسندی‘ (perfectionism) پر محمول کیا کہ چونکہ مجھے ہر چیز بے داغ اور بہترین حالت میں پسند ہے اس لیے میں بے ترتیب اور بے ڈھنگی چیزوں کو برداشت نہیں کر سکتا مگر پھر مجھے ایک سیانے دوست نے سمجھایا کہ اے مرد مجہول اسے کمال پسندی مت سمجھ، دراصل یہ ’اختلال جنونی و اضطراری‘ ہے جسے نفسیات کی زبان میں Obsessive Compulsive Disorder (OCD) کہتے ہیں۔ اس مرد دانا نے یہ بھی بتلایا کہ تم ابھی اس مسئلے کے ابتدائی مرحلے پر ہو جہاں تم کو صرف کوئی چٹائی ٹیڑھی دیکھ کر الجھن ہوتی ہے یا تاروں کا گچھا منہ چڑائے تو برا لگتا ہے ورنہ یہ مسئلہ اگر حد سے بڑھ جائے تو زندگی اجیرن بھی ہو سکتی ہے۔

ایسے لوگوں کو عجیب و غریب قسم کے وہم لاحق ہو سکتے ہیں، مثلاً غیر یقینی مستقبل سے خوفزدہ رہنا، چیزوں کو ترتیب میں نہ پا کر شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہو جانا، ہر جگہ کو جراثیم کا گھر سمجھ کر صفائی کے جنون میں مبتلا رہنا، کسی سخت روٹین پر کاربند رہنا، اس خوف میں مبتلا رہنا کہ کہیں میں خود کو یا کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچا دوں، وغیرہ۔ جب میرے دوست نے مجھے اس نفسیاتی الجھن کے بارے میں بتایا تو میری نظروں میں اس کی قدر او ر قابلیت دونوں بڑھی گئیں اور میں نے اس کا نام چودھری فرائیڈ وریام رکھ دیا۔

چودھری فرائیڈ نے مجھے تسلیٰ دی کہ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اگر میں چیزوں کو بے ترتیب پاؤں تو دیوانگی سے کام لینے کی بجائے ایک نارمل انسان کی طرح برتاؤ کروں اور اسی طرح مطمئن رہوں جیسے حکمران کروڑوں غریبوں کے خط غربت سے نیچے جانے پر سر ہلا کر اس بات کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ’محض 23.4 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے ہیں‘ ۔ گویا ان کے لیے یہ بات فقط ایک عدد ہے۔ میرے دوست نے مثال تو اچھی دی تھی مگر میری مکمل تشفی نہیں ہوئی۔ میں نے سوچا نارمل رہنے اور سنگ دل ہونے میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔

پھر مجھے لگا جیسے میری یہ ’بیماری‘ بڑھ گئی ہو کیونکہ چودھری فرائیڈ نے جو علامات بتائی تھیں ان میں سے ایک علامت کسی سخت روٹین پر کاربند رہنا بھی تھا۔ میں نے انٹر نیٹ پر اس بیماری کا علاج تلاش کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس کا کوئی لگا بندھا علاج یا دوا نہیں، بندے کو خود ہی اپنی عادات اور رویوں میں تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ میں نے اپنے معمولات پر نظر دوڑائی تو پتا چلا کہ کچھ عرصے سے میں نے خواہ مخواہ سخت روٹین اپنا کر زندگی اجیرن کی ہوئی تھی۔

مثلاً میں ٹھٹھرتی سردی میں صبح سات بجے اٹھتا، ناشتے میں صرف گاجریں، کھیرے اور چند کھجوریں کھاتا، دو پہر میں پھل اور شام میں ابلی ہوئی سبزیاں لیتا، اور اس دوران بہت عیاشی کو دل چاہتا تو چائے میں شکر یا شہد ملا کر پی لیتا تھا۔ بیکری کی چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا، اس کے علاوہ تمام تلی ہوئی چیزیں اور ایسی اشیا جن سے لذت ملنے کا ذرا سا بھی امکان ہو جیسے چاکلیٹ، برگر، جوس، کلچے، پائے، بونگ، پلاؤ، سب سے پرہیز کر رکھا تھا۔

شام کو چہل قدمی اس باقاعدگی کے ساتھ شروع کی ہوئی تھی کہ ہمسائے گھڑی ملانے لگے تھے۔ اس سخت روٹین کا اینٹی کلائمکس یہ ہوا کہ ایک دن شاہی مرغ چنے کا بورڈ دیکھ کر میرے آنسو نکل پڑے، میں نے اس پورے لائف سٹائل پر چار حرف بھیجے اور یہ سوچ کر ایک پلیٹ مرغ چنے کا آرڈر دیا کہ اگر زندگی میں ابلی ہوئی سبزیاں ہی کھانی ہیں تو پھر اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی۔ وہ دن اور آج کا دن، میں نے OCDسے چھٹکارا پا لیا ہے، اب تاروں کے گچھے دیکھ کر مجھ پر اضطراری کیفیت طاری نہیں ہوتی، بے ترتیب کتابیں دیکھ کر میں حواس باختہ نہیں ہوتا اور زندگی کی اذیت ناک روٹین بھی میں نے ٹھیک کر لی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے بد پرہیزیوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، فقط ابلی ہوئی سبزیوں اور ہر پانچ منٹ بعد گرم پانی کا گلاس پینے کا اضطراری عمل ترک کر دیا ہے۔ میں اپنے قارئین سے معذرت چاہتا ہوں کہ نئے سال کے موقع پر ایسا ”ڈی

موٹیویشنل ”کالم لکھا کیونکہ اصولی طور پر نئے سال کا کالم ایسا ہونا چاہیے تھا جس میں لکھاری خود چاہے کچھ کرے نہ کرے مگر قاری کو یہی سبق پڑھائے کہ کلید کامیابی صبح پانچ بجے کڑاکے کی سردی میں اٹھ کر ڈنڈ بیٹھکیں لگانے اور باقی سارا دن ابلی ہوئی سبزیوں اور گرم قہوے کے ساتھ گزارنے میں ہے۔ تفنن برطرف، میں شاکاہاری لوگوں کے ہر گز خلاف نہیں اور نہ ہی منظم زندگی گزارنے والوں کا مضحکہ اڑانا میرا مدعا ہے، میں بس ہر کام میں توازن کا قائل ہوں، زندگی ایسی بے ڈھنگی بھی نہ ہو کہ آپ چالیس برس کی عمر میں ساٹھ کے نظر آئیں اور ایسی بے کیف بھی نہ ہو کہ سو سال جینے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو۔ بقول غالب، ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا، نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada