عرفانہ زرگر: انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خواتین میں ماہواری کے دوران مفت پیڈز تقسیم کرنے والی خاتون


عرفانہ
'جب تک میرے والد زندہ تھے وہ میرے لیے پیڈز لاتے تھے۔ لیکن سنہ 2013 میں ان کی وفات کے بعد میں اپنے بھائیوں کو پیڈز لانے کے بارے میں بولنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ میں ان سب چيزوں کے لیے بہت تڑپی ہوں۔ پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں کچھ ایسا کروں کہ کشمیر کی کوئی بھی لڑکی پیڈز کے لیے نہ تڑپے اور نہ ہی اس کے لیے شرمندہ ہو۔‘

یہ کہنا ہے 29 سالہ عرفانہ زرگر کا جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سرینگر کے علاقے نوشہرہ میں رہتی ہیں۔

عرفانہ سرینگر کی میونسپل کارپوریشن میں ملازمہ ہیں اور سنہ 2014 میں انھوں نے سب سے پہلے کشمیر کے لال چوک نامی علاقے کے ایک ٹوائلٹ میں اپنی بنائی ہوئی ’پیریڈ کِٹ‘ رکھی تھی۔ انھوں نے اس کٹ کا نام ’ایوا سیفٹی ڈور کِٹ‘ رکھا تھا۔ ’ایوا‘ کا مطلب خاتون، ’سیفٹی‘ کا مطلب تحفظ اور ’ڈور‘ کا مطلب دروازہ۔

اس کِٹ میں انھوں نے چند سینیٹری پیڈز، پینٹی (زیر جامہ)، ہینڈ واش اور سینیٹائزر رکھے تھے تاکہ جو خواتین اس ٹوائلٹ میں آئیں ان کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ ایک ٹائلٹ سے جو کام شروع ہوا تھا وہ اب گھر گھر تک پہنچ گیا ہے۔

عرفانہ اب ناصرف سرینگر کے بعض پبلک ٹوائلٹس میں خواتین کو یہ کٹ فراہم کرتی ہیں بلکہ گھر گھر جا کر ضرورت مند لڑکیوں کو پیڈز فراہم کرتی ہیں۔

انھیں ’دا پیڈ وومن آف کشمیر‘ کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’خوفزدہ ہوتی تھی کہ کپڑوں پر داغ لگ جائے گا‘

’پہلی بار پیریڈز ہوئے تو سمجھی بلڈ کینسر ہو گیا‘

گرل فرینڈلی ٹوائلٹ: ’ماہواری کے مسائل کے حل کی کوشش‘

عرفانہ نے یہ کام اپنی جمع پونجی سے شروع کیا تھا اور ان کا کہنا ہے کہ بعض لوگ ان کو ذاتی طور پر کبھی کبھی پیڈز وغیرہ عطیہ کرتے ہیں لیکن وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ اس کام پر خرچ کرتی ہیں۔

عرفانہ

عرفانہ کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ ان کے ہاں تیسرا بچہ ہو جو کہ ہوا اور وہ عرفانہ تھیں

عرفانہ زرگر کا پس منظر

عرفانہ کی پیدائش کے وقت اُن کا خاندان پرانے سرینگر کی مشہور مسجد ’خانقاہ مولا‘ کے قریب ایک چھوٹے سے گھر میں رہائش پذیر تھا۔ عرفانہ کے خاندان میں دادا، دادی اور ان کے والدین کے علاوہ دو بڑے بھائی تھے۔ عرفانہ کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ ان کے ہاں تیسرا بچہ ہو جو کہ ہوا اور وہ عرفانہ تھیں۔

عرفانہ بتاتی ہیں ’جب میری والدہ کو معلوم ہوا کہ وہ تیسری بار حاملہ ہیں تو وہ فوراً ڈاکٹر کے پاس گئیں کہ وہ کیا کریں۔ کیونکہ میرے دادا دادی کہتے تھے کہ ہمارے گھر میں پہلے ہی بہت فرد ہیں اور اب مزید بچے نہیں چاہییں۔ میرے والدین کی تمام کوششوں کے باوجود میں اس دنیا میں آ گئی۔‘

کشمیر کے گورنمنٹ کالج آف وومن سے گریجوئیشن کی تعلیم حاصل کرنے والی عرفانہ والی بال اور ٹینس کی کھلاڑی تھی اور ریاستی سطح پر منعقد ہونے والے ٹورنامنٹس میں حصہ لیتی تھیں۔

پڑھائی کے ساتھ ساتھ عرفانہ ایک کال سینٹر میں بھی کام کرتی تھیں۔ اسی دوران سنہ 2014 میں کشمیر میں آنے والے بڑے سیلاب کے وقت انھیں سرینگر کے میونسپل کارپوریشن کے شکایات کے شعبے میں ملازمت مل گئی۔

عرفانہ بتاتی ہیں ’میں کال سینٹر میں بہت محنت کرتی تھی۔ میں پورا پورا دن اپنی کرسی سے ہلتی نہیں تھی۔ میں زیادہ سے زیادہ کام کر کے زیادہ سے زیادہ رقم کمانا چاہتی تھی تاکہ میں اپنی ماں کا بہتر خیال رکھ سکوں اور زیادہ سے زیادہ غریب لوگوں کی مدد کر سکوں۔‘

میں اپنے والد کی یاد میں کچھ کرنا چاہتی تھی

عرفانہ زرگر اپنی عمر رسیدہ والدہ کے ساتھ نوشہرہ میں رہتی ہیں۔ ان کے بھائی ملازمت کے سلسلے میں سرینگر سے باہر رہتے ہیں اس لیے والدہ کی پوری ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہے۔ ملازمت اور ماں کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ عرفانہ کچھ ایسا کرنا چاہتی تھیں جس سے ان کے مرحوم والد کی روح کو سکون پہنچے۔

عرفانہ بتاتی ہیں ’میں اپنے والد کی یاد میں صدقے کے طور پر لوگوں کو ہر مہینے قہوہ پلاتی تھی، کسی کو فرن خرید کر دیتی تو کبھی کسی کو سردی میں جوتے وغیرہ دلاتی تھی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف تھا کہ وہ ہر ماہ 500 روپے صدقہ جاریہ میں دیں۔ لیکن پھر ایک خیال نے ان کی ذمہ داری اور خرچ دونوں میں اضافہ کر دیا۔

عرفانہ بتاتی ہیں ’میرے والد کی وفات کے بعد میں بہت تنہا ہو گئی تھی۔ میں انھیں بہت یاد کرتی تھی۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کا قبرستان جانا ممنوع ہے تو میں اپنے والد کی ایک یادگار بنانا چاہتی تھی۔ میں نے لال چوک کے کمرشل ہب میں دیکھا کہ وہاں پینے کے پانی کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے تو میں نے اپنے والد کی یاد میں وہاں ایک واٹر ٹیپ لگوایا۔ لیکن وہاں کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ یہاں خواتین کے لیے ایک ٹوائلٹ بھی ہونا چاہیے۔ مجھے لگا یہ تو صحیح بات ہے۔ میں نے میونسپل کارپوریشن میں درخواست دی اور اجازت ملنے کے بعد اپنی رقم خرچ کر کے وہاں خواتین کے لیے ایک واش روم بنوا دیا۔‘

عرفانہ ہر اتوار کو وہاں جا کر اپنے والد کی یاد میں بنوائے ہوئے پانی کے نلکے کی صفائی کرتی تھیں جس سے ان کے بقول انھیں ’بہت سکون ملتا تھا۔‘

پھر ایک دن انھوں نے دیکھا کہ پانی کے نلکے کے قریب جو ٹوائلٹ ہے اس میں پانی نہیں اور واش روم گندا بھی کافی تھا۔ تب انھیں یہ خیال آیا کہ اگر خواتین یہاں آتی ہیں اور ان میں سے کسی کے اگر پیریڈ یا ماہواری کے دن ہیں تو وہ کیا کرتی ہوں گی؟

عرفانہ بتاتی ہیں ’میں نے سوچا کہ ہر ایک عورت کا اپنا وقار ہوتا ہے، عزت ہوتی ہے جس کی بات قرآن میں کہی گئی ہے۔ میں نے سوچا کہ میں پیریڈز کے سامان کی ایک کِٹ بناؤں۔ اگر خواتین کو اچانک پیریڈز ہو جائیں یا ان کے پاس پیڈز نہیں ہوں تو اس ٹوائلٹ میں ان کے لیے کچھ انتظام ہو۔ میں نے گھر پر ہی ایک کِٹ بنائی، جس میں میں نے سینیٹری پیڈز رکھے، پینٹی (زیر جامہ) رکھی اور ہینڈ واش رکھا۔ ساتھ ہی سینیٹائزر بھی رکھا کیونکہ اگر کبھی پانی ختم ہو جائے یا ہینڈ واش ختم ہو جائے تو خواتین سینٹائزر استعمال کر سکیں۔‘

عرفانہ نے لاک چوک کے اس ٹوائلٹ میں پیریڈ کٹ رکھی ضرور لیکن کیا اس سے خواتین کو فائدہ ہوا؟

عرفانہ کہتی ہیں ’میں یہ دیکھتی تھی کہ میں نے آج کٹ رکھی، کل واپس جاتی ہوں تو وہاں سے وہ کٹ غائب ہوتی۔ وہاں کا جو نگران تھا اس نے مجھے بتایا کہ وہاں جو خواتین آتی ہیں وہ ان پیڈز کو اپنے بیگز میں بھر کر لے جاتی ہیں۔ اس کے بعد میں نے اس نگران سے کہا کہ وہ خواتین کو ٹوائلٹ کے اندر جانے کی اجازت دینے سے پہلے ان کے بیگز باہر رکھوا لیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ پیڈز کی چوری کم ہو گئی۔‘

عرفانہ زرگر

عرفانہ کا کہنا ہے کہ وہ خود جب بڑی ہو رہی تھیں تو ان کے لیے پیڈز کا حصول ایک مشکل عمل تھا

رشتہ داروں کا ردعمل

عرفانہ کا کہنا ہے کہ کشمیر جیسے سماج میں خواتین کے لیے ماہواری سے متعلق بیداری پھیلانا یا کھل کر ماہواری کی پراڈکٹس تقسیم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

’میری ماں نے مجھے ہمیشہ سپورٹ کیا اور میرے بھائیوں نے شروع میں اس کام کو پسند نہیں کیا، ان کو میرا سوشل میڈیا پر پیریڈ سے متعلق بات کرنا پسند نہیں تھا۔ جہاں تک رشتہ داروں کی بات ہے، بعض نے کہا کہ یہ تو پیڈز بانٹنے لگی ہے اس نے تو خاندان کا نام ہی خراب کر دیا ہے۔ کسی نے کہا اس کا رشتہ اس لیے ہی نہیں مل رہا ہے کہ یہ لڑکیوں کو پیڈز دیتی ہے۔ لیکن بہت سے ایسے رشتہ دار بھی تھے جنہوں نے میرے کام کی ستائش کی۔‘

عرفانہ کو نہ صرف ان بعض خاندان والوں کی طرف سے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی سراہا گیا ہے۔ انڈیا کی مرکزی وزیر سمرتی ایرانی نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے ان کی تعریف کی۔

https://twitter.com/smritiirani/status/1330492707656052739

پیریڈ ابھی بھی ایک ٹیبو

عرفانہ کا کہنا ہے کہ پیڈز کے حصول میں معاشی رکاوٹ ایک حقیقت ہے لیکن ان کے سماج میں اس کے گرد شرم کا عنصر بھی اس کا ذمہ دار ہے۔

’آج بھی بعض گھروں میں ماہواری کے دوران خواتین کے برتن الگ کر دیے جاتے ہیں۔ سرینگر جیسے شہر میں بھی لڑکیوں کو دکان پر جا کر پیڈز خریدتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یا تو ان کی والدہ یا والد پیڈز لاتے ہیں یا وہ خاموشی سے کپڑا استعمال کرتی ہیں۔ اور اگر لڑکیاں پیڈز لینے جاتی بھی ہیں تو دکاندار کو بولتی ہیں ’بھیا وہ دے دو‘ پیڈ کا نام تک لینا ایک ٹیبو ہے۔‘

عرفانہ خواتین کو نہ صرف پیڈز فراہم کرتی ہیں بلکہ وہ ان کے ذہن میں ماہواری سے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں ان کو بھی دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

خواتین کی صحت سے متعلق پڑھیے

مینوپاز خواتین کی صحت پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟

’عورت کی داڑھی نکلنے پر سب مذاق اڑاتے ہیں‘

’عورت کی داڑھی نکلنے پر سب مذاق اڑاتے ہیں‘

سرینگر میں خواتین کے لیے پبلک ٹوائلٹس کا فقدان

سرینگر میں بہت کم پبلک ٹوائلٹس ایسے ہیں جو زیر استعمال تھے۔ عرفانہ کے مطابق زیادہ تر بند پڑے تھے۔ انھوں نے میونسپل کارپوریشن میں درخواست دے کر دھیرے دھیرے بعض ٹوائلٹس کو کھلوایا اور ان میں بھی اپنی کِٹس رکھنی شروع کیں۔

عرفانہ بتاتی ہیں ’کشمیر میں خواتین باہر جاتی ہیں اور جب یہاں حالات سازگار ہوتے ہیں تو سیاح بھی خوب آتے ہیں لیکن یہاں پبلک ٹوائلٹ برائے نام ہیں۔ گھنٹا گھر پر ایک ہے، راج باغ میں ہے، لال چوک پر ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن میں بھی ٹوائلٹ ہونے چاہییں کیونکہ وہاں پر بڑی بڑی مساجد ہیں اور عید، رمضان اور عرس وغیرہ کے دوران بڑی تعداد میں خواتین اور مرد گھروں سے نکلتے ہیں۔‘

عرفانہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی کوششوں سے 16 ایسے ٹوائلٹس ہیں جہاں پر اپنی ماہواری کی کِٹس رکھیں لیکن اب ان کا کام صرف ٹوائلٹس میں کٹ رکھنے تک محدود نہیں رہا اور یہ صورتحال لاک ڈاؤن کے دوران تبدیل ہوئی ہے۔

عرفانہ زرگر

عرفانہ زیادہ سے زيادہ خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہیں اس لیے اب انھوں نے گھر پر بھی پیڈز سینا شروع کیے ہیں

لاک ڈاؤن کے دوران ڈیمانڈ کا اصل اندازہ

عرفانہ بتاتی ہیں ’لاک ڈاؤن کے دوران تقریباً پورا شہر ہی بند تھا اور ٹوائلٹس تو بند تھے ہی۔ اس دوران میں نے اپنے فیس بک پر یہ پیغام لکھا کہ اس دوران اگر کسی خاتون کو پیڈز کی ضرورت ہے تو مجھ سے رابطہ کريں۔‘

اس کے بعد خواتین کی ایک بڑی تعداد نے عرفانہ سے رابطہ کیا۔

عرفانہ بتاتی ہیں ’میں خواتین کو اپنا نمبر دیتی تھی اور ان سے ان کا پتہ واٹس ایپ کرنے کو کہتی تھی۔ اس بات کی تصدیق کرنے کے بعد کہ یہ خاتون سرینگر کی ہے اور ضرورت مند ہے، میں ان کو پیڈز پہنچا دیتی تھی۔‘

لیکن بات اتنی بڑھ گئی کہ نہ صرف ضرورت مند خواتین بلکہ غیر سرکاری تنظیمیں بھی عرفانہ کو فون کر کے خواتین کو پیڈز فراہم کرنے کے لیے کہنے لگیں۔

عرفانہ بتاتی ہیں ’لاک ڈاؤن کے دوران متعدد لوگوں کے روزگار متاثر ہوئے ہیں جس کے بعد لڑکیوں کے لیے پیڈز کا حصول مزید مشکل ہو گیا ہے۔ میرے پاس ایک ایسے خاندان کا فون آیا جہاں ایک گھر میں نابینا ماں ہے اس کی سات جوان بیٹیاں اور صرف ایک بیٹا ہے جو بطور سیلز مین ملازمت کرتا ہے۔ اب سوچیے کہ وہ کیسے پیڈز خرید پائیں گی، انھیں تو کپڑا میسر ہو جائے یہ بہت بڑی بات ہے۔‘

سری نگر میں سینیٹری پیڈز کے ایک پیکٹ کی قیمت 40 روپے سے 80 روپے کے درمیان ہے جو ضرورت کے مطابق ہر کسی کی پہنچ میں نہیں ہے۔

عرفانہ زرگر

عرفانہ کا کہنا ہے شروع میں مرد حضرات ان کے کام کے بارے میں خاموش رہتے تھے لیکن اب ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں

‘کرفیو کے دوران میرے کام کی وجہ سے مجھے آنے جانے کی اجازت مل جاتی

گذشتہ برس اگست کے مہینے میں انڈین حکومت کی جانب سے ریاست کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد سے وہاں ایک لمبے عرصے تک کرفیو جیسی صورتحال تھی تو ایسے میں عرفانہ نے اپنا کام کیسے جاری رکھا؟

عرفانہ بتاتی ہیں ’آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد یہاں حالت کشیدہ تھے۔ سری نگر میں کرفیو جیسا ماحول تھا۔ لیکن اگر مجھے کسی گھر جاکر یا کسی واش روم میں اپنی کٹ رکھنی ہوتی تھی تو میں ڈسٹرکٹ کمشنر کے دفتر سے اجازت لیتی تھی۔ چونکہ لوگ جانتے ہیں کہ میں کیا کام کر رہی ہوں تو مجھے آنے جانے کی اجازت مل جاتی تھی‘۔

ان کا کہنا ہے کہ شروعات میں مرد حضرات اور مرد افسران ان کے کام کے بارے میں خاموش رہتے تھے لیکن اب ان کی مدد کرتے ہیں۔

کچھ بھی ہو میں پیچھے نہیں ہٹوں گی

عرفانہ کا کہنا ہے کہ جس کام پر وہ پہلے ماہانہ 500 روپے خرچ کرتی تھیں اب وہ بڑھ کر 5000 روپے ہو گئے ہیں۔

’میں اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ اس کام پر خرچ کرتی ہوں۔ اب مجھے جتنی خواتین کے فون آتے ہیں، کبھی کبھی میں جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتی ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے این جی او نے مدد کی پیش کش نہیں کی لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں ان کی ممبر بنوں۔ میں ثواب کے طور پر یہ کام کر رہی ہوں۔ اگر کسی کو میری مدد کرنی ہے تو وہ خود پیڈز خرید کر مجھے دے سکتا ہے یا براہ راست خواتین کی مدد کرسکتا ہے۔

’بعض اوقعات ایسا بھی ہوا کہ کسی نے پیڈز کے 5 یا 10 پیکٹس بھیجے لیکن وہ پیڈز تقسیم کرنے سے زیادہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ میں پیڈز کے ساتھ فوٹو کھچوا کر سوشل میڈیا پر اس تنظیم یا شخص کی پروموشن کروں۔ مجھ سے یا کام نہیں ہو گا۔ میں چاہتی ہوں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان خواتین کی مدد کریں لیکن اس کا اشتہار کیے بغیر‘۔

عرفانہ کہتی ہیں کہ ’میں چاہتی ہوں کہ سکول اور کالجوں کے واش رومز میں لڑکیوں کو یہ کٹ فراہم کی جائیں۔ ابھی کورونا وائرس کی وجہ سے سکول اور کالج برائے نام کھلے ہیں۔ ایک بار جب کھل جائیں گے تو بہت اچھا ہو اگر حکومت یا کوئی ایسی غیر سرکاری تنظیم ہو جو ان واش رومز میں پیڈز ڈسپنسر لگانے میں میری مدد کرے۔ اس سے ان نوجوان لڑکیوں کو بہت فائدہ ہو گا جن کو اچانک سکول میں پیریڈز ہو جاتے ہیں تو کم از کم اپنی ضرورت کے مطابق پیڈز لے سکیں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے ’گورنمنٹ آف انڈیا نے ایک سکیم کے تحت ضرورت مند خواتین کے لیے ایک روپے کا پیڈز کا پیکٹ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ سکیم کشمیر میں نہیں لاگو ہوئی لیکن اگر ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔ یا اگر مجھ جیسے لوگ اس سکیم کے تحت پیڈز خرید پاتے تو جو سامان میں پانچ ہزار میں خریدتی ہوں وہ ایک ہزار میں ہی خرید سکتی ہوں۔

جن خواتین کو پیڈز دیتی ہوں وہ دعائیں دیتی ہیں

عرفانہ نے بتایا کہ وہ کشمیر کے ایسے علاقوں میں جا کر پیڈز تقسیم کرنا چاہتی ہیں جہاں غربت زیادہ ہے اور خواتین دکان پر جا کر پیڈز خریدنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔

ان کی خواہش ہے کہ ان کے پاس اپنی ایک کار ہو جس میں وہ پیڈز رکھ کر ان علاقوں میں جاکر پیڈز تقسیم کریں۔

عرفانہ کا کہنا ہے کہ ’میں گاؤں دیہات اور لیبر کالونی میں جاکر کام کرنا چاہتی ہوں۔ میں ایسی جگہوں پر جانا چاہتی ہوں جہاں پیڈز ملتے بھی نہیں ہیں۔ وہاں لڑکیاں کیا استعمال کرتی ہوں گی؟

’خواتین اکثر پیڈز نہ ہونے کی وجہ سے کپڑا استعمال کرتی ہیں اور کبھی کبھی گندا کپڑا استعمال کرنے سے بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ کوئی لڑکی اندرونی بیماری کی وجہ سے حاملہ نہیں ہو پاتی ہے تو اس کو طلاق ہو جاتی ہے‘۔

عرفانہ کا کہنا ہے کہ چونکہ پیڈ مہنگا ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ اس کی قیمت ان کے کام میں روکاٹ کی وجہ نہ بنے اس لیے اب انھوں نے گھر پر بھی خود اپنے ہاتھ سے خواتین کے لیے کپڑے کے پیڈز بنانا شروع کیے ہیں جو سستے ہیں اور جن کو دھو کر دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

عرفانہ کہتی ہیں ’خواتین مجھے اتنی دعائیں دیتی ہیں، اتنا پیار کرتی ہیں کہ کبھی کبھی میں جوش میں دو کی جگہ چھ پیڈز دے دیتی ہوں۔ بس میری یہی کمائی ہے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp