2021: اُمید اور ویکسین کا سال


کوئی مجھ سے دسمبر 2019 میں سنہ 2020 کے بارے میں پوچھتا تو شاید میں امریکی صدارتی انتخابات کی اہمیت پر بات کرتا یا جاپان میں ہونے والے اولمپک کھیلوں کی نشاندہی کر دیتا، کیونکہ یہ دونوں موضوعات خبروں کا حصہ تھے۔ اگرچہ ماحولیاتی تبدیلیوں یا سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے کردار سے متعلق خبریں عام تھیں ورنہ امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق پر اپنی پریشانی کا اظہار کرتا۔ یہ تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ چین کے شہر ووہان ( جس کے نام سے بھی شاید چند لوگ واقف ہوں) میں چند لوگوں سے شروع ہونے والی بیماری ایک بگولے کی طرح یکے بعد دیگرے تقریباً تمام انسانی آبادیوں کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لے گی کہ انسانی زندگی بالکل بدل کر رہ جائے گی جس میں ہر شخص گھر میں مقید ہو کر رہ جائے گا۔

گھر دفتر بند ہو جائیں گے، مذہبی عبادت گاہیں ہوں یا سینما گھر، فٹبال کے میدان ہوں یہ بھرے بازار سب کچھ ویران ہو کر رہ جائے گا۔ تیز رفتار سفر جو ماڈرن زندگی کی ایک پہچان بن چکا ہے اور انسان نے وقت اور فاصلے کو جیسے اپنی مٹھی میں سمیٹ رکھا، ایک دم جیسے ٹھہر جائے گا۔ شہروں میں، جہاں ٹریفک کو شور اور دھواں قسمت کا لکھا سمجھا جانے لگا تھا، ایک دم خاموشی چھا جائے گی۔ صرف ہسپتال ہی رونق والی جگہ رہ جائیں گی جہاں ڈاکٹر اور نرسیں ایک ان دیکھے دشمن سے انسانی جانوں کو بچانے کی سعی میں اپنی جانیں تک لٹا رہے ہوں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور کے جدید ادارے اور سوچ کے مرکز ایسی آفات اور اچانک تبدیلیوں کے بارے میں مسلسل سوچ و بچار کرتے رہتے ہیں اور اس سلسلے میں اعلی سطح کے تجزیے اور مطالعے، آپ آج بھی لائبریری میں ڈھونڈ سکتے ہیں، اس کہ ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے کہ قدرتی آفات اور سیاسی نظاموں کی تبدیلیاں، جو پہلے نسلوں بعد یا صدیوں بعد آتی تھیں، اب تقریباً سالانہ کی بنیاد پر ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔

اس ساری بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر 2021 کے بارے سوچا جائے تو ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ 2021 ویکسن کا سال ہے۔

یہ امر کہ کتنی تیزی سی مختلف ویکسینز کی وسیع پیمانے پر تیاری ممکن بنائی جا سکتی ہیں اور انسانی بستیوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے، ہی سیاسی حکومتوں کی بقا، اقتصادی اشاریوں کی اونچ نیچ اور روزمرہ کی زندگی کا آہنگ اور تال میل کو متعین کرے گا۔

2020 تو کورونا کی وبائی آفت کا برس تھا لیکن ۔ 2021 کے آغاز پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب اس جرثومے کو کنٹرول کرنے اور اس کو واپس اس کی جگہ پر پہنچانے کا وقت آ گیا ہے۔

نئے سال کی پہلی ششماہی میں تو ترقی یافتہ اقوام میں مختلف ویکسینز کی تیاری اور لوگوں میں ٹیکوں کی مہم کے ساتھ ساتھ وبا سے متاثرہ افراد میں زندگی اور موت کی کشمکش ہی ایک غالب بیانیہ ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک میں اہم ترجیح بزرگوں اور پہلے سے موجود بیماریوں والے افراد میں اس ویکسین کا استعمال ہے تاکہ نظام صحت پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں یہ بات ذہن میں رہے کہ ابھی تک کی ریسرچ کے مطابق ان ویکسینز سے حاصل شدہ جسمانی مدافعت دائمی نہیں جس کا مطلب ہے کہ ویکسینز کا استعمال ایک مسلسل عمل ہو گا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق شروع میں تو کسی بھی ملک کے پاس بھی ویکسینز کی مقدار کافی نہیں ہوگی ، اس لیے میڈیا اور عوامی میدان میں انتہائی مشکل بات چیت، یعنی کس کو ویکسین پہلے ملے، کے لیے پالیسی سازوں کو تیار رہنا ہوگا جہاں لوگوں میں پائی جانے والی تشویش اور بے چینی کا اظہار مختلف انداز میں ہو سکتا ہے۔ ٹیکہ لگانے کی اتنی بڑی مہم کوئی آسان نہیں جس کا مشاہدہ برطانیہ میں پہلے ہی ہو چکا ہے۔ ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں میں بیک وقت مہم شروع کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ اس دوران غیر متوقع مشکلات سامنے آ سکتی ہیں، افواہوں اور اینٹی ویکسین کی مہم زور پکڑ سکتی ہے ، بالخصوص سوشل میڈیا پر جس کے شواہد سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جو لوگوں کو ویکسین کے خلاف آمادہ کر رہے ہیں بالخصوص اسلامی حلقوں میں جہاں ویکسینز کے حلال ہونے بارے سوالات کیے جا رہیں ہیں۔ وطن عزیز میں جہاں سائنس کا رواج ذرا کم ہی ہے اور ہم پہلے ہی پولیو کے بارے میں جدوجہد کر رہے ہیں، پالیسی سازوں کو ابھی سے اس طرف اپنی توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ویکسینز کے متعارف کرانے سے لوگوں میں ایک امید سی بندھ گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال کے آخر تک مختلف ویکسینز کی چار سے پانچ ارب خوراکیں استعمال کے لیے تیار ہو چکی ہوں گی جو کہ اس وبا کی دوسری اور تیسری لہر میں جکڑی انسانیت پر پابندیوں کو ختم یا کم کرنے میں ممد و معاون ہو گی۔ لیکن ہمیں ان آوازوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو امیر ممالک میں ویکسینز کے موجودہ پھیلاؤ کی مہم کے نتیجے میں پیدا ہو سکتے ہیں یعنی امیر ممالک میں زندگی کو واپس لانے کی جدوجہد  امارت اور غربت کے پہلے سے موجود فرق کو زیادہ واضح کر دے گی جس سے سوسائٹیز میں بے چینی پھیل سکتی ہے۔

آکسفام (Oxfam) نے امیر ملکوں کو ان ویکسینز کی ذخیرہ اندوزی کے بارے میں متنبہ کیا ہے کہ اس ذخیرہ اندوزی کے عمل سے غریب ممالک کو نقصان ہو گا۔ Oxfam کے مطابق ایک طرف امیر ممالک، جہاں دنیا کی صرف چودہ فیصد آبادی رہتی ہے، نے ابھی تک کی سب سے زیادہ امید افزاء ویکسینز کی 53 فیصد مقدار خرید رکھی ہے جس سے وہ اپنی آبادیوں کو کم از کم ان ویکسینز کی تین خوراک دے سکتے ہیں ۔ ویکسین جمع کرنے کی اس ریس میں کینیڈا کا اول نمبر ہے جس نے اتنی ویکسین کا انتظام کر لیا ہے کہ وہ اگلے سال اپنے ہر شہری کو ویکسینز کی پانچ خوراکیں دے سکتا ہے۔

اس کے مقابلے میں 70 غریب ممالک میں موجود وسائل کی بنا پر 2021 میں اپنے عوام میں دس میں سے صرف ایک فرد کو ویکسین فراہم کر سکیں گے۔ ان غریب مملک میں سے پانچ ممالک، جہاں پہلے ہی وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد 15 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، میں کینیا، مائینامار، نائجیریا، یوکرائن اور پاکستان جی ہاں وطن عزیز شامل ہیں۔

موجودہ اطلاعات کے مطابق فائزر/بؤنٹک کی 96 فی صد اور موڈرنہ (Moderna) کی 100 فی صد ویکسینز کا سودا امیر ملک پہلے ہی کر چکے ہیں، (AstraZence/Oxford) نے وعدہ کر رکھا ہے کہ اس کی 64 فی صد سپلائی ترقی پذیر اقوام کے لیے ہو گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سپلائی کو بہتر کر کے بھی اگلے سال کے آخر تک دنیا کی آبادی کے صرف 18 فی صد تک ہی اس ویکسین کی رسائی ہو سکے گی۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ Astrazenca/Oxford کی ویکسین کی ترقی پذیر ممالک میں سپلائی کے کے سودے زیادہ تر بھارت اور چین جیسے ملکوں کے لیے ہیں اور وطن عزیز سمیت غریب غربا نے تو اس بارے میں کوئی سودا ہی نہیں کیا اور ان کا انحصار عالمی ادارہ صحت کے Covax pool پر ہی ہے۔

حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں اور وہ ویکسین کی 20۔ 45 ملین خوراکیں اس پروگرام کے تحت حاصل کر سکتا ہے اور یہ کب ملیں گی اس وقت کا تعین ابھی نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ دسمبر کے شروع تک آنے والی اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان نے 150 ملین ڈالر اس سلسلے میں مختص کر دیے ہیں لیکن کون سی ویکسین لی جائے گی اس بارے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ پاکستان دو چینی اداروں کی تیار کردہ ویکسین کے فیز iii کے ٹرائل میں حصہ لے رہا ہے اور ان کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کو یہ ویکسینز ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائیں گی۔ حکومت پاکستان کے اعلان کے مطابق اپریل 2021 میں ویکسین ٹیکوں کی مہم شروع ہونے کا امکان ہے۔

بہرحال ویکسین کی جلد از جلد فراہمی اور امیر ملکوں کی صرف ”اپنے لیے کی سوچ“ سے پرہیز اور انسانیت کو درپیش امتحان سے نمٹنے کی اجتماعی کوشش ہی ہمارے دور کے غربت اور امارت کے درمیاں بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سے پیدا ہونے والے غصے کی آنچ کو کم کر سکتی ہے، ورنہ اس موقع پر قوموں کی خود غرضی پر مبنی پالیسیاں اس عالمی وبا میں سے باہر نکلنے اور اقتصادی سرگرمیاں شروع کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوں گی اور ممکن ہے کہ ان پالیسیوں کے نتیجے میں ایشیائی اور افریقی ممالک میں پیدا ہونے والی اقتصادی مندی سول بے چینی میں بدل جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).