کورونا لاک ڈاؤن اور ائمہ مساجد کا دُکھ


نماز پڑھانا ویسے کوئی خاص ذمہ داری کا کام نہیں ہے، کیونکہ نماز تو اپنی بھی پڑھنی ہوتی ہے۔ اب اگرکوئی عالم دین مقتدی بن کر کھڑا ہونے کے بجائے خود امام بن کر کھڑا ہو جائے، تو اس صورت میں اس پر کون سی بھاری ذمہ داری آن پڑی بھلا۔ کچھ بھی تو نہیں۔ جتنا وقت، جتنا اہتمام اور جتنی محنت اس کو اپنی نماز پڑھنے میں صرف کرنی ہوتی تقریباً اتنی ہی محنت، اتنا ہی اہتمام اور اتنا ہی وقت اسے نماز پڑھانے کے بھی دینا ہو گا۔

اس اعتبار سے امامت کوئی بڑی ذمہ داری والا کام نہیں نظر آتا مگر وقت کی پابندی کے لحاظ اور ایک ہی مقام پر دن رات میں کم از کم پانچ دفعہ حاضر باش رہنے کے اعتبار سے اور پھر اس لحاظ سے کہ ایک شخص کو ہزاروں نمازیوں کے نخرے برداشت کرنے ہوتے ہیں اور بطور خاص ان کے جو اس کے محسنین کی فہرست میں آتے ہیں، جواس کے لیے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام کرتے ہیں اور کھانے میں نمک کے برابر تنخواہ دینے کے لیے تگ ودو کرتے ہیں،  اگر وہ تگ ودو نہ کریں تو امام کو نمک کے برابر تنخواہ تو کیا محض نمک بھی نہ مل سکے، اگر ان تمام حوالوں کے ساتھ امام کی ذمہ داری کو دیکھیں تو یہ اپنے آپ میں بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔

پنج وقتہ نمازوں کی امامت کے لیے مجموعی طور پر بہ مشکل تیس چالیس منٹ ہی درکار ہوتے ہیں، کیونکہ امامت صرف فرض نمازوں کی کرائی جاتی ہے اور پانچوں فرض نمازوں کی امامت چالیس منٹ سے زیادہ وقت نہیں لے سکتی، خواہ وہ کتنے بھی سکون واطمینان کے ساتھ ہی کیوں نہ ادا کی جائے۔ اس اعتبار سے چوبیس گھنٹے میں چالیس منٹ کے علاوہ باقی سارے وقتوں میں امام کو فرصت ہی فرصت ہے اور اس فارغ وقت میں جو ہر طرح سے اس کا اپنا ہے، چاہے تو وہ کوئی کام کرے، چاہے تو کچھ بھی نہ کرے، کھیلے کود یا بحث وتکرار میں مصروف رہے، تنخواہ دینے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہو سکتا ۔ تاہم اتنی ساری فرصت اور فراغت کے باوجود یہ کہنا درست ہے کہ امام کبھی فرصت میں نہیں رہتا۔

بعض چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اسے فرصت ضرور مل سکتی ہے مگر کسی بھی بڑے کام کے لیے فرصت نہیں مل سکتی، مدرسے میں پڑھانے اور ٹیوشن کرنے کا وقت مل سکتا ہے مگر کاروبار کرنے کا وقت نہیں مل سکتا، کاروبار کے نام پر بھی بیشک مسجد سے ملحق چھوٹی موٹی دکان ضرور چلائی جا سکتی ہے مگر کوئی بھی بڑا کاروبار کرنا امامت کے فرائض نبھانے کے ساتھ ساتھ ممکن نہیں۔ کیونکہ امام دو نمازوں کے درمیانی وقت میں اتنی دور بھی نہیں جاسکتا جہاں سے وہ دوسری نماز کے وقت تک نہ لوٹ سکے۔

اور ایسے کام میں ہاٹھ نہیں ڈال سکتا جسے ”جماعت“ کے وقت روکا نہ جاسکے یا ختم نہ کیا جا سکے۔ ہونے کو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے اور بعض علماء و ائمہ ایسا کرتے بھی ہیں مگر ہم عمومی صورت حال کی بات کر رہے ہیں، استثنائی مثالیں تو بہر حال ہر جگہ ہوتی ہیں۔ کوئی بھی کاروباری اپنے کام کے سلسلے میں ہر ماہ بلکہ ہر ہفتے کئی کئی دنوں کے لیے گھر سے دور رہ سکتا ہے، مگر ایک امام ایسا نہیں کر سکتا۔ جب آپ ان پہلؤوں پر غور کریں گے تو آپ کو امامت کے فرائض کی مشکلات کا صحیح علم ہو سکے گا۔

نماز کے اوقات میں خاصی توسیع ہوتی ہے جبکہ ’جماعت‘ کے وقت میں توسیع نہیں ہوتی، جماعت کے قیام کے لیے منٹ اور سیکنڈ کی پابندی ہوتی ہے۔ اسی لیے اگر آپ امام نہیں ہیں تو آپ کو یہ سہولت حاصل ہے کہ نماز کے طویل وقت میں آپ کبھی بھی اور کہیں بھی نماز ادا کر سکتے ہیں، گھر میں بھی اور آفس میں بھی، روڈ پر بھی اور کھیت پر بھی۔ مگر کیا ایک امام بھی ایسا کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بس اسی وجہ سے یہ بڑی ذمہ داری اورسخت پابندی والی جاب بن جاتی ہے۔ اور اس لیے امامت کی جاب کے بارے میں یہ کہنا درست ہے کہ ”کام بھی نہیں اور فرصت بھی نہیں“

دوسری بڑی بات جو امام اور امامت سے متعلق ہے وہ مختلف الخیال اور مختلف مسالک کے نمازیوں کی منفعل مزاجی اور زود رنج طبیعت سے ٹکراؤ ہے۔ امام خواہ کتنا بھی قابل اور سلیقہ شعار کیوں نہ ہو اور کتنی بھی رواداری برتنے والا ہی کیوں نہ ہو، اہل محلہ میں کوئی نہ کوئی اس کا مخالف ہوتا ہی ہے۔ اور کسی کو اس کی ذات اور کردار سے شکایت نہ بھی ہو تو اس کے مسلک اور عقائد سے پریشانی ضرور ہوتی ہے، کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ امام انتظامیہ کمیٹی اوربا اثرنمازیوں کی اپنی چپقلش اور تکرار کا شکار ہوجاتا ہے اور کھانے میں نمک کے برابر تنخواہ والی جاب بھی ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔

مذکورہ تمام باتوں کی بنیاد محض سنی سنائی باتوں اور اڑی اڑائی افواہوں پر استوار نہیں ہے بلکہ اماموں کی زبانی بیان کی گئی ان کی اپنی کار گزاری، آپ بیتی اورروداد ہے اور ان کی زندگی، ان کے مسائل اور ان کے معاشرتی اسٹیٹس کا بہت قریب سے کیا گیا راقم السطور کا اپنا ذاتی مشاہدہ اور تجربہ ہے۔

ایک بڑا سوال تو یہ بھی ہے کہ دنیا میں جتنی بھی جابز ہیں، ان میں سے بیشتر اتنی آمدنی والی ضرور ہیں کہ ایک نارمل اور سادہ سی زندگی کے واجبات کی ادائیگی کے لیے ایک ہی جاب کے وظائف کفایت کرجاتے ہیں، لوگوں کو ایک جاب کے ساتھ الگ سے کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر کوئی زیادہ کمانا چاہتا ہے تو یہ الگ بات ہے۔ تو جب عام پیشہ ورانہ کاموں کا یہ حال ہے کہ وہ زندگی کی ضروریات کو کفایت کرجاتے ہیں تو امامت کی جاب ایسی کیوں نہ ہو کہ اس کے وظائف بھی زندگی کی ضروریات کو کفایت کر جائیں اور ائمہ مساجد کو ادھر ادھر بھٹکتے پھرنے کی حاجت پیش نہ آئے۔

ایسی صورت حال میں یہ سوال جائز ہوجاتا ہے کہ امامت کے وظائف بڑھانے کے بجائے امام کو امامت کے ساتھ دوسرے کام کرنے کی ترغیب کیوں دلائی جاتی ہے؟ امام کو کم وظیفہ دے کر اسے کیوں مجبورکیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جائز ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے دوسری جاب بھی کرے، ٹیوشن پڑھائے یا کوئی چھوٹی موٹی دکان کرلے۔ ہم نے دیکھا ہے اور آپ بھی سروے کر سکتے ہیں، کئی امام امامت کے ساتھ ساتھ دکان کرلیتے ہیں، ٹیوشن پڑھاتے ہیں، ٹائپنگ کر کے پیسہ کماتے ہیں، حتیٰ کہ ٹیلرنگ سیکھتے اور سکھاتے ہیں۔

توبجائے اس کے کہ امام فارغ اوقات کو اپنے علم اور صلاحیتوں کو بڑھانے میں صرف کرے، محض وظیفے کی تخفیف اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ دیگر چھوٹے موٹے کام کرے۔ پھر طرفہ یہ کہ مقتدی یہ شکایت بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ امام صاحب کا علم پختہ نہیں ہے۔ ایک طرف آپ اپنے امام کو علم میں رسوخ پیدا کرنے کے مواقع نہیں دیتے اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ اس کے بیان میں عالمانہ شان کی کمی ہے۔

جب کل زندگی کا دھارا اسی ایک چیز یعنی پیسے پر گھوم رہا ہے تو امامت کے پیشے کو بھی کم از کم ایک اضافی قدر کے طور پر اسی دھارے میں رکھنا چاہیے۔ اضافی قدر کا اضافہ اس لیے کیا کہ امامت جیسے مکمل دینی پیشے میں اخلاص، قربانی اور خدمت کا جذبہ ہی اصل قدر ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی قدر اضافی قدر ہی ہونی چاہیے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے : من صام رمضان ایمانا واحتسابا۔ الخ، جس طرح روزے میں جو ایک دینی عمل ہے ایمان واحتساب (احتساب :یعنی خدا کے یہاں روزے کا صلہ ملنے کا پختہ یقین ) اصل قدر ہے، اسی طرح ہر دینی کام میں ایمان واحتساب ہی اصل قدر ہونی چاہیے۔

البتہ روزے میں اور امامت میں فرق ہے، امامت میں اقتدا ہے کہ اس میں مقتدیٰ اور مقتدی ہے اور روزے میں کوئی اقتدا نہیں کہ اس میں نہ کوئی مقتدی ہے اور نہ کوئی مقتدیٰ، روزہ سراسر نفس ذات کے لیے ہے، جبکہ امامت اپنی ظاہری ہیئت کے لحاظ سے نمازیوں کے لیے یعنی نفس غیر کے لیے بھی ہے۔ اس لیے نماز میں اضافی اور ضمنی قدر کے طور پردیگر کسی قدر کے شامل ہونے کا امکان ہے۔ جبکہ روزے میں ایسا نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص روزے کا صلہ یا معاوضہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے نہیں مانگ سکتا جبکہ امامت کا صلہ یا معاوضہ اللہ کے بعد نمازیوں سے بھی مانگا جاسکتا ہے۔ کم از کم اسی بنیاد پر کہ امام نمازیوں کو نماز پڑھانے کے لیے اپنا وقت صرف کرتا ہے۔

وظیفہ اس مضمون میں اساسی حیثیت سے اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ یہی ایک عمل ٹھیک کردینے کی وجہ سے، یعنی امام کا وظیفۂ امامت اتنا بڑھا دینے سے کہ اس کی زندگی کی واجبی ضروریات کو کفایت کرجائے، اتنی بڑی تبدیلی رونما ہو جائے گی کہ فی الوقت جب وہ نہیں ہے تو اس بڑی تبدیلی کا تصور بھی محال ہے۔ ذرا غور کریں جب امامت کا وظیفہ بھی خاطرخواہ ہو جائے گا تو کون ایسا مسلمان ہوگا جو اپنے بچوں کو اس پیشے سے منسلک کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، یا تمنا نہیں کرے گا۔

جب لوگ بہت ہی معمولی سی جاب پانے کے لیے بھی تگ ودو کرتے نظر آتے ہیں، بچوں سے طرح طرح کے امتحانات دلواتے ہیں، ٹریننگ دلواتے ہیں، ان کے لیے پیسہ خرچ کرتے ہیں حتیٰ کہ بیس پچیس ہزار کی جاب پانے کے لیے بھی دوڑ دھوپ کرتے ہیں تو اگر کسی مسلمان کے بچے کو یہی پچیس تیس ہزار روپے دینی خدمت کے عوض مل جائیں تو بھلا کون سا مسلمان ہوگا جو یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے بچے دینی خدمات میں لگیں، کہ اس میں قلب ونظر کی پاکیزگی بھی ہے، پیسہ بھی ہے اور عزت بھی۔

اگر ایسا ہو جائے کہ امامت اپنے وظائف کے اعتبار سے انجینئرنگ اور بینکنگ کی جاب کے مماثل ہو جائے تو ہر مسلمان کی یہ خواہش ہو گی کہ وہ اپنے بچوں کی جاب کو امامت کی جاب سے رپلیس کر دے۔ ہر مسلمان یہی چاہے گا کہ اس کا بچہ بینک میں ملازم یا منیجر کی کرسی پر نہ بیٹھے بلکہ مسجد کے مصلے پر بیٹھے، کہ بینک کی ملازمت میں تو صرف دنیا کی مادی زندگی کو خوشگوار بنانے کی ضمانت ہو گی جبکہ امامت میں دنیا کی مادی زندگی کی خوشگواری کے ساتھ ساتھ اخروی حیات کی خوشنمائی کی بھی ضمانت ہوگی، تو کون ایسا شخص ہوگا جو دہرا منافع نہیں چاہے گا۔

پھر جب ایسا ہوگا تو اس پر ایک اور اچھی چیز متفرع ہو گی، وہ یہ کہ مسلم قوم کے زیادہ سے زیادہ بچے امامت کے لیے تیاریاں کریں گے، تب امامت کی جاب پانا ایک مشکل ٹاسک بن جائے گا اورپھر ان بچوں کو یہ ٹاسک مکمل کرنے کے لیے سخت محنت بھی کرنی ہوگی، اپنی اسکلز بھی بڑھانی ہوں گی اور علم میں رسوخ بھی پیدا کرنا ہوگا اور پھر مسجد کی انتظامیہ کے پاس یہ موقع بھی ہوگا کہ وہ اچھے سے چھے اور بہتر سے بہتر امام کا انتخاب کرسکے گی۔

پھر جب اچھے سے اچھا انتخاب ممکن ہو سکے گا تو لازما ایسا ہوگا کہ محلے والوں کو اچھا، باصلاحیت اور محنتی امام مل سکے گا۔ پھر یہ شکوہ بھی خود بخود رفع ہو جائے گا کہ امام کو علم دین میں رسوخ حاصل نہیں۔ مزید ایک چیز یہ متفرع ہوگی کہ قوم کے خوشحال گھرانوں کے بچے بھی امامت کے پیشے سے وابستہ ہونے کی کوشش کریں گے اور جب ایسے افراد امام کے پیشے سے منسلک ہوں گے جن کی پہلے ہی سے معاشرے میں اور محلے میں ایک حیثیت ہوگی، اس لحاظ سے کہ وہ امیر زادے اور شریف زادے ہیں تو ایسے امام کی حیثیت اور وقار کہیں زیادہ بلند ہوگا، وہ اپنے محلے میں کوئی بھی سماجی کام لے کر چلیں گے تو جو لوگ نماز میں ان کی اقتدا کرتے ہیں وہی سب لوگ سماجی اور فلاحی کاموں میں بھی ان کی اقتدا کرنا پسند کریں گے۔

اب اہل محلہ کے پاس یہ غرہ نہیں ہوگا کہ ہم تو ذی حیثیت ہیں، جدید تعلیم یافتہ ہیں اور محلے کے شرفاء میں شمار ہوتے ہیں تو غریب امام کے پیچھے کیوں چلیں، بے شک نماز میں امام کی اقتدار کرنا مجبوری ہے مگر سماجی اور رفاہی کاموں میں امام کی اقتداکرنا کچھ بھی مجبوری نہیں۔ تو جب امام بھی انہی کی طرح ذی حیثیت اور صاحب علم ہو گا تو ان کے اس غرہ کی تان خود بخود ٹوٹ جائے گی بلکہ اس صورت میں محلے کے ذی ثروت لوگ مسجد کے باہر والے کاموں میں بھی امام کی اقتدا کرنے کو اپنے لیے سعادت سمجھیں گے۔

اس طرح صرف ایک چیز یعنی تنخواہ کے اضافے سے کتنے سارے اضافے خود بخود پنپتے اور پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ جس طرح پودے پر محض پانی ڈالنے کے ایک عمل سے دیگر کئی سارے اعمال خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں، پودے کو پانی ملتا ہے تو پودا ہرا بھرا ہوتا ہے، برگ و بار لانا شروع کردیتا اور پھر گھنا سایہ اور پھل پھول دیتا ہے۔ اور اگر پانی ڈالنے کا صرف ایک ہی عمل نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں، نہ برگ وبار، نہ پھل پھول اور نہ سایہ۔

سال دو ہزار بیس میں پوری دنیا کورونا کی جا ن لیوا وباسے متاثر رہی، اس سال بے شمار اہل علم دنیا سے رحلت فرما گئے اور اقتصادی اعتبار سے بھی بے شمار لوگوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ اگر اپنے ملک بھارت کی بات کریں تو کچھ یہ عالم گیر جان لیوا بیماری اور کچھ حکومت کی غلط پالیسیاں، ان دونوں نے مل کر ملک کے عام لوگوں کو بے حال کر دیا، جبکہ بعض ارب پتی کاروباریوں کے کورونا اور لاک ڈاؤن سے متاثرہ دنوں میں بھی وارے نیارے رہے، ان کی آمدنیاں مسلسل بڑھتی رہیں اور چھوٹے کاروباریوں کے کاروبار ڈوبتے رہے۔

یہ سب حکومت کی بدنیتی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہوا۔ لاک ڈاؤن اور بیماری کا بہت برا اثر علمائے دین اور ائمہ مساجد پر بھی پڑا، کئی ائمہ مساجد کی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں رک گئیں اور کئی کو فارغ کر دیا گیا، حالانکہ ان کی تنخواہ ہی کتنی تھی۔ مگر محلے کے لوگ تین چار ہزار کی تنخواہ کا بھی انتظام نہیں کرسکے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض اماموں کے خود کشی کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ بعض لاک ڈاؤن میں بھوک سے مرگئے اور بعض سردی سے۔

یہ رپورٹ قوم کی بے حسی کو بتاتی ہیں۔ یہ سب سن کر اور دیکھ کر آنکھیں خون کے آنسوں روتی ہیں اور قوم کی بے حسی پر ترس آتا ہے۔ کیا یہ بات قوم کی بے حسی کی غماز نہیں کہ سن 2020 میں بھی کئی اماموں کی تنخواہ دو ہزار بیس سے بہت زیادہ نہیں ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو دیہات، قصبات اور بعض چھوٹے شہروں کی چھوٹی مساجد کا سروے کر کے دیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).