وزیر اعظم کا درست اعداد و شمار نہ ملنے کا شکوہ بلاجواز کیوں؟


فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری 1990 کے بعد پہلی مرتبہ فل کیپسٹی پر چل پڑی ( 92 نیوز، 12 نومبر)
فیصل آباد کے صنعت کاروں نے 10 سال کے ریکارڈ توڑ دیے (سما نیوز، 10 دسمبر)
ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 2156 ملین ڈالر کا اضافہ ہو گیا (جی این این، 28 دسمبر)

یہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مختلف نیوز چینلز پر چلنے والی خبروں میں سے چند ایک کی وہ ہیڈ لائنز ہیں جنہیں وزیراعظم عمران خان سے لے کر مختلف حکومتی وزراء، ترجمان اور اراکین اسمبلی اپنی اچھی کارکردگی کے ثبوت کے طور پر سوشل میڈیا پر دھڑا، دھڑ شیئر کر رہے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ درحقیقت یہ خبریں من گھڑت دعوؤں اور غلط اعداد و شمار پر مبنی ہیں اور حکومتی ذمہ داران حقائق سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر اس طرح کی ’فیک نیوز‘ کو اپنے حق میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ کسی نیوز چینل نے وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت وسرمایہ کاری رزاق داؤد کی طرف سے گزشتہ دس سالوں میں نومبر کے مہینوں میں ہونے والی مجموعی برآمدات کے موازنے کو پورے عشرے کی برآمدات کا موازنہ بنا کر پیش کر دیا اور کسی چینل نے نومبر 2020 ء میں ہونے والی مجموعی برآمدات کی مالیت کو ’ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 2156 ملین ڈالر کا اضافہ‘ قرار دے دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ رواں سال پاکستان کی برآمدات میں گزشتہ سال کی نسبت تقریباً 3.67 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں بھی گزشتہ سال کی نسبت 1.97 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی برآمدات اس وقت گزشتہ دس سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ حکومت کی طرف سے جولائی تا نومبر 2020 ء کے چار مہینوں کے حوالے سے برآمدات میں اضافے کا جو دعوی کیا جا رہا ہے وہ گزشتہ سال کے دوران اسی عرصے کے دوران ہونے والی برآمدات کی نسبت تقریباً تین کروڑ ڈالر زیادہ ہے جبکہ جنوری سے جون 2020 ء تک کے چھ مہینوں میں پاکستان کی مجموعی برآمدات میں تقریباً دو ارب ڈالر کی کمی ہوئی تھی۔

یہ صورتحال اس وجہ سے بھی زیادہ سنگین ہے کہ پاکستان کی کل برآمدات کا 50 سے 60 فیصد شیئر رکھنے والے ٹیکسٹائل کے شعبے کو کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ گیس کے ممکنہ بحران کی وجہ سے بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ’نیپرا‘ کی طرف سے جاری کی گئی حالیہ رپورٹ سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ انڈسٹری کو درکار بجلی کی مقدار میں اضافے کی بجائے کمی آ رہی ہے۔

محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ دس برس کے دوران پاکستان کی برآمدات نے 2014. 15 میں پہلی مرتبہ 25 ارب ڈالر کا ہندسہ عبور کیا تھا جبکہ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافے کا ریکارڈ 2010۔ 11 میں قائم ہوا تھا جب اس شعبے کی برآمدات پہلی مرتبہ تقریباً 14 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی تھیں۔ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں یہ ریکارڈ ابھی تک برقرار ہے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت ابھی تک 18۔ 2017 میں ہونے والی برآمدات کے حجم یا مالیت میں بھی کوئی اضافہ نہیں کر سکی ہے بلکہ گزشتہ اڑھائی برس سے پاکستان کی برآمدات میں کمی کا رجحان جاری ہے۔

یہ حقائق جہاں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حکومت خود ڈس انفارمیشن کو فروغ دے رہی ہے وہیں یہ خبریں صحافت کے معیار پر بھی سوالیہ نشان ہیں جہاں خواہش کو خبر بنانے اور حکومتی دعوؤں پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے یا پارٹی بننے کے رجحان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ان خبروں سے بڑے بڑے کارپوریٹ میڈیا ہاؤسز میں ایڈیٹوریل کنٹرول اور فیکٹ چیک نہ ہونے کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔

اس مضمون کے شروع میں جن خبروں کا حوالہ دیا گیا ہے ان خبروں کو رپورٹ کرنے والے رپورٹرز میں سے کوئی اب اپنی خبر میں کیے گئے دعوؤں کا بوجھ صنعت کاروں کے کندھوں پر ڈال رہا ہے اور کسی نے اپنی خبر میں دیے گئے اعداد و شمار کا دفاع کرنے کی بجائے جواب دینے سے ہی معذرت کر لی ہے۔ دوسری طرف ان خبروں کے لیے نیوز چینلز کو انٹرویو ریکارڈ کروانے والے صنعت کار بھی ’صنعتکاروں نے 10 سال کے ریکارڈ توڑ دیے‘ اور ’ٹیکسٹائل انڈسٹری کے 1990 کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ فل کیپسٹی پر چلنے‘ کے دعوؤں کو رپورٹرز کی ذاتی اختراع قرار دے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی اب تک کی سیاسی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کو اپنا بیانیہ پھیلانے کے لئے استعمال کرتی آئی ہے اور اب بھی اپنی حکومت کی ’امیج بلڈنگ‘ کے لئے اس کا تمام تر زور میڈیا پر ہے جس کے لیے درجنوں ترجمان اور سوشل میڈیا ونگ سرگرم ہیں۔ دوسری طرف میڈیا چینلز کا جھکاؤ بھی حکومت کے حق میں ہے جس کو دیکھتے ہوئے رپورٹرز بھی خبر کو ایسا زاویہ دیتے ہیں جو چینل کی پالیسی سے مطابقت رکھتا ہو۔

یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ ماضی میں اچھا صحافی اسے سمجھا جاتا تھا جس سے حاکم وقت زیادہ ناخوش ہوتا تھا کیونکہ صحافی کا کام ہی یہ ہے کہ وہ ان حقائق کو عوام کے سامنے لائے جو ان سے چھپائے جا رہے ہوں لیکن اب صحافی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ حکومت کی سپورٹ میں چلائی گئی ان کی من گھڑت خبروں کو وزیر اعظم اور ان کے وزیر، مشیر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے شیئر کرتے ہیں۔

ایسے میں وزیراعظم کا یہ شکوہ بلا جواز محسوس ہوتا ہے کہ انہیں سرکاری اداروں کی جانب سے درست اعداد و شمار فراہم نہیں کیے جاتے کیونکہ جو خبریں ان کے حق میں ہوتی ہیں اور ان میں دیے گئے اعداد و شمار اور دعوے حقیقت کے مطابق نہ بھی ہوں وہ اور ان کے ساتھی اسے سوشل میڈیا پر شیئر کر کے کریڈٹ لینے سے ذرا نہیں شرماتے ہیں۔

نعیم احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعیم احمد

نعیم احمد ماس کمیونکیشن میں ایم ایس سی کر چکے ہیں۔ سیاسی اور سماجی موضوعات پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

naeem-ahmad has 9 posts and counting.See all posts by naeem-ahmad