برطانیہ میں خواتین کارکنوں کی تنخواہیں مردوں کے مقابلے میں اوسطاً 23 فی صد کم ہیں


برطانیہ میں 50 سال سے زیادہ عمر کی کارکن خواتین کو اپنے ہم عمر مردوں کے مقابلے میں ایک سال کے دوران لگ بھگ 8000 پاؤنڈ کم تنخواہ ملتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران کام کرنے والی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں سرکاری اعداد و شمار کے تجزیے سے بتایا گیا ہے کہ 50 سال سے زیادہ عمر کی کل وقتی ملازمت کرنے والی خواتین کی اوسط تنخواہیں اپنی عمر کے گروپ کے مردوں کے مقابلے میں 23 فی صد کم تھیں۔

یہ تجزیہ 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد کو مدد اور مشاورت فراہم کرنے والی ایک کمپنی ‘ریسٹ لیس’ نے مرتب کیا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ 60 سال کی عمروں کی کارکن خواتین کو اپنے ایج گروپ کے مردوں کے مقابلے میں 25 فی صد کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔

ایک مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں کل وقتی ملازمت کرنے والی ایک خاتون اوسطاً سال بھر میں 28000 پاؤنڈ سے کم تنخواہ لیتی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مردوں کو اسی کام کا سالانہ تقربیاً 34 ہزار پاؤنڈ معاوضہ دیا جاتا ہے۔

لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، عورت اور مرد کی تنخواہوں کے فرق میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ 50 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو سالانہ اوسطاً 26000 پاؤنڈ کے قریب تنخواہ ملتی ہے جب کہ اس ایج گروپ کے مرد 34 ہزار پاؤنڈ سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمر بڑھنے سے کارکنوں کی اجرت میں مزید کمی ہو جاتی ہے۔ 60 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو اوسطاً 23900 پاؤنڈ اور مردوں کو 31667 پاؤنڈ ملتے ہیں۔

ریسٹ لیس کمپنی کے بانی اسٹورٹ لیوئس کا کہنا ہے کہ 50 اور 60 سال سے زیادہ عمروں کی خواتین کو دوہرے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس میں ایک طرف تو ملازمت دینے میں ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ انہیں کم عمر کارکنوں کے مقابلے میں تھوڑی تنخواہ دی جاتی ہے۔یہ فرق عموماً 8000 پاؤنڈ سالانہ کے لگ بھگ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنس کی بنیاد پر تنخواہوں میں فرق دور کرنے کا عمل تکلیف دہ حد تک سست ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ تفاوت دور کرنے میں کتنا عرصہ لگے گا۔

برطانیہ میں کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے جہاں زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے وہاں سب سے زیادہ نقصان مصنوعات فروخت کرنے والے بڑے بڑے اسٹوروں کو اٹھانا پڑا ہے۔ ان اسٹوروں میں زیادہ تر خواتین ملازمت کرتی ہیں اور یہ اسٹور جزو وقتی ملازمت کی خواہش مند ماؤں کو روزگار فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سٹوروں کی جزوی بندش اور ان کے اوقات کار میں کمی کی وجہ سے بہت سی خواتین بے روزگار ہو گئی ہیں۔ اوقات کار میں کمی کے پیش نظر زیادہ تر اسٹوروں نے اپنے کارکنوں کی چھانٹی میں خواتین کو ترجیح دی اور عموماً مرد کارکنوں کو کام پر واپس بلا لیا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa