نیا سال، خوشی یا گمان


تقویم بھی کوئی عجیب سی شے ہے۔ ماہرین فلکیات نے طے کر لیا کہ زمین سورج کے گرد چکر مکمل کر لے تو ایک سال پورا ہو جاتا ہے۔ اس ایک سال کو ساڑھے تین سو پینسٹھ روز کا بتایا گیا۔ بارہ مفروضہ آسمانی برجوں کے مطابق سال کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا گیا۔ مہینوں کو تیس اکتیس دن اور حساب پورا رکھنے کے لیے ایک مہینے کو بالکل کم دن دے دیے گئے۔

چلو یہ تو ٹھیک مگر زمین کا سورج کے گرد چکر کہاں سے شروع کیا جائے؟ زمین کی تاریخ پیدائش اور گھومنا شروع کرنے کا وقت تو کسی کو معلوم نہیں چنانچہ کئی تقویمیں وجود میں آ گئیں۔ قدیم تر میں زرتشتی تقویم ہے جو 23 مارچ سے 28 مارچ تک کسی بھی وقت اپنے پہلے ماہ فروردین سے شرع ہو سکتی ہے۔ چینی تقویم ہے جس کے برج ہی مختلف ہیں اور جنوری یا فروری میں کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔ بکرمی تقویم ہے جس کا شمسی حساب سے پہلا ماہ بیساکھ ہے جو وسط اپریل سے وسط مئی میں شروع ہوتا ہے جبکہ قمری حساب سے پہلا مہینہ چیت ہے جو وسط مارچ سے وسط اپریل میں شروع ہوتا ہے۔ پھر عیسوی سال ہے جس کی جولین تقویم اور آج کل مستعمل گریگورین تقویم میں 12 روز کا فرق ہے۔ پھر ہجری تقویم ہے جو سب سے جوان تقویم ہے۔

نیا سال کب منایا جائے اس کے بارے میں بھی مختلف ادوار میں مختلف اوقات رہے۔ اس ضمن میں روس کا ذکر کرنا دلچسپ ہوگا۔ جہاں عیسائیت قبول کرنے کے بعد بھی لوگ آباء و اجداد کی روایت پر کاربند رہے۔ چونکہ بہار میں روئیدگی کا آغاز ہوتا ہے، زندگی سخت سردی سے انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی ہوتی ہے چنانچہ یہی خیال کیا گیا کہ سال مارچ سے شروع ہوتا ہے یوں پہلے نیا سال مارچ میں منایا جاتا تھا۔

1492 میں پادشاہ آیوآن سوم کے حکم سے نیا سال یکم ستمبر سے منایا جانے لگا۔اس تقریب میں بادشاہ ہر شخص کو ایک سیب دیتا تھا اور اسے ”بھائی“ کہہ کر پکارتا تھا۔ 1700 سے بادشاہ پیوتر اعظم یعنی پیٹر دی گریٹ نے یورپ کا چکر لگا کر آنے کے بعد نئے سال کو کرسمس سے منسوب کر دیا یوں نیا سال جولین کیلنڈر کے مطابق 7 جنوری یعنی قدامت پسند عیسائیوں کے مطابق یوم پیدائش حضرت عیسٰی کے موقع پر منایا جانے لگا۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد کرسمس کی تقریبات روک دی گئیں پھر کہیں 1949 میں جا کر یکم جنوری کی چھٹی کی جانے لگی۔

آج بھی لوگ 31 دسمبر اور یکم جنوری کے ملن پر نیا سال اور تیرہ جنوری اور 14 جنوری کے ملن پر پرانا نیا سال مناتے ہیں۔ نیا سال تو سب مناتے ہیں اور جوش و خروش زیادہ ہوتا ہے۔ پرانا نیا سال بس یونہی سا مناتے ہیں البتہ شہروں میں دسمبر سے ایستادہ کیے گئے بڑے بڑے مصنوعی اور اصلی کرسمس ٹری تیرہ جنوری کے بعد ہٹائے جاتے ہیں۔

مطلب یہ کہ کہنے کو ہر لمحہ نیا لمحہ ہے مگر درحقیقت وقت یکساں ہے، تحقیق کے مطابق وقت سپرنگ کی شکل میں ہے یعنی پیچواں نہ دائرہ نہ ہی خط مستقیم مگر ہم اسے سیدھا دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں جسے ماہرین فلکیات نے ہمیں مصروف رکھنے یا پریشان کرنے کی خاطر ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ 31، 536، 000 سیکنڈوں، 525600 منٹوں، 8760 گھنٹوں، 365 دنوں، 54 ہفتوں، بارہ مہینوں پر مشتمل سال کا ایک لمحہ یعنی 31 دسمبر سے یکم جنوری میں داخل ہونے والا لمحہ ہمارے لیے خوش ہونے کی خاطر وقف کر دیا ہے۔ پھر:

ارے تم ہر نئے دن کا سواگت کیوں نہیں کرتے؟
جو ہر بار سورج کے پھر سے طلوع ہونے
اور نیند سے جو موت کی سی ہوتی ہے
تمہارے جی اٹھنے پر نکلتا ہے
نام نہاد نئے سال میں تو گھڑیاں
تمہارے جاگتے جاگتے
بس ایک لمحہ آگے سرکتی ہیں
تو تم نہال ہوئے جاتے ہو کہ سال بدل گیا
آرے مورکھ سال تو تب بدلے گا
جب تیرا اور تیرے ملک کے لوگوں کا
حال بدلے گا، حال چال بدلے گا
مغربی تقویم نے تو سال اور اپنے منجی کا
فرضی یوم پیدائش ساتھ ساتھ رکھ کے
خوشی منانے کا اہتمام کیا ہے
تم چاہو تو بیگانی شادی میں ناچے جاو
میں تو اس جھوٹے تہوار میں
شامل ہونا ترک کر چکا ہوں

سال منانے کی خوشی اپنی جگہ کیونکہ پریشانیوں، بھاگ دوڑ، بے تحاشا مقابلے اور غیر انسانی مشینی زندگی سے اکتائے ہووں کو خوشی منانے کا حق ہے مگر کیا یہ خوشی ہوتی ہے یا خوش ہونے کا گمان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).