نیا مندر بننے نہیں دیں گے، پرانے مندر کو آگ لگا دیں گے


کرک کا مندر جلا دیا گیا۔ ایک بار پھر مذہبی جذبات بھڑک اٹھے تھے۔ کچھ لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ان جیسے نیک لوگوں کی موجودگی میں مندر کی تعمیر نو ہو۔ آخر یہ ملک اس لئے تو نہیں بنایا گیا تھا کہ اس میں جس کا جی چاہے جس طرح چاہے عبادت کرے۔ 11 اگست کو قائد اعظم نے یہ کہا تھا کہ آپ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں خواہ وہ مسجدیں ہوں یا گرجے ہوں یا مندر ہوں جانے کے لئے آزاد ہیں۔

قائد اعظم نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ جب آپ مندر میں عبادت کرنے کے لئے جائیں گے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہو گی کہ آپ کو وہاں پر سالم مندر بھی مل جائے۔ آپ کو عبادت کی آزادی تو ہے لیکن ممکن ہے کہ جب آپ عبادت کے لئے اپنی عبادت گاہ پر پہنچیں تو اسے پہلے کوئی غیرت مند نذر آتش کر چکا ہو۔

یہ الزام لگانا بالکل بے بنیاد ہو گا کہ اچانک جوش میں آ کر کچھ لوگوں نے مندر کو نذر آتش کر دیا ہے۔ یہ لوگ اتنے کم عقل تو نہیں تھے۔ اس بارے میں مکرم وجاہت مسعود صاحب کے کالم سے علم ہوا کہ کرک کے کچھ غیور لوگ ایک طویل عرصہ سے مندر کی زمین پر قابض تھے۔ یہ معرکہ زمین ہتھیانے کے ڈرامے کی آخری قسط تھی۔ تاکہ کفر کے اس گڑھ کے چپے چپے پر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑے جا سکیں۔ جیسا کہ فارسی میں کہتے ہیں کہ ”ہم خرما و ہم ثواب“ یعنی کجھور بھی کھاؤ اور ثواب بھی سمیٹو۔

جب یہ غیرت مند اس زمین پر نا جائز قبضہ کر رہے تھے تو انہیں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد یاد نہیں آیا یا کسی عالم نے منبر پر چڑھ کر انہیں یہ حدیث نبوی ﷺ یاد کرانے کی کوشش نہیں کی :

”حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو کوئی کچھ زمین ظلم سے چھین لے تو سات زمینوں کا طوق (قیامت کے دن) اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔“

[صحیح بخاری کتاب المظالم ]

اور آنحضرت ﷺ کے صحابہ آپ کے بعد بھی جب کسی کا زمین پر جھگڑا ہوتا تو اسے یہ حدیث یاد دلایا کرتے تھے۔ جیسا کہ یہ روایت ہے :

”حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور چند لوگوں میں کچھ (زمین کا) جھگڑا تھا انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے ابو سلمہ! زمین ناحق لینے سے بچا رہ، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص بالشت برابر زمین ظلم سے لے لے گا اس کو سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔“

[صحیح بخاری کتاب المظالم ]
اور ایک اور حدیث اس طرح ہے :

”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص ذرا سی زمین بھی ناحق لے لے گا وہ قیامت کے دن سات زمینوں میں دھنستا چلا جائے گا۔“

[صحیح بخاری کتاب المظالم ]

جن لوگوں نے مندر کی زمین پر قبضہ کیا سو کیا لیکن پاکستان میں زمین پر ناجائز قبضہ کرنے کا کاروبار کافی مقبول ہے۔ لیکن میں نے کبھی سنا نہیں کہ کسی دینی جماعت نے یہ کہا ہو کہ کسی کی زمین پر قبضہ کرنا تو شرعی طور پر سراسر ناجائز اور بڑے گناہ کی بات ہے چنانچہ حکومت کو فوری طور پر سب قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر کے ان سے یہ زمینیں خالی کرانی چاہئیں۔ اگر صرف کراچی میں ہی یہ کارروائی شروع ہو جائے تو شور و غوغا بلند ہوگا کہ عظیم ظلم ہو گیا، لوگوں سے ان کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں۔ کیا مذہبی جذبات کو صرف دوسروں کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان جذبات کو دوسروں کے حقوق کی حفاظت کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

جب کچھ ماہ قبل اسلام آباد میں نئے مندر کی تعمیر پر بحث مباحثہ شروع ہوا تھا تو سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ صاحب نے فرمایا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود پر آیا تھا اس میں نیا مندر بنانا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ بلکہ ریاست مدینہ کی بھی توہین ہے۔ اور اس کے ساتھ کمال فراخدلی سے یہ تسلی دی تھی کہ ہم اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ ہیں۔ پہلے سے جو مندر موجود ہیں ان کی مرمت کی جانی چاہیے۔

اب صورت حال یہ بنی کہ ایک طبقہ کے نزدیک پاکستان میں نئے مندر بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کی جگہ پرانے مندروں کی مرمت ہونی چاہیے۔ اور ایک اور طبقہ پرانے مندر گرانے کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ نہ کوئی مندر بچے گا اور نہ اس کی مرمت کا سوال اٹھے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہمارا یہ کمال ملاحظہ ہو کہ ہمارا یہ دعویٰ بدستور قائم ہے کہ پاکستان میں ہندو برادری کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔

7دسمبر کو امریکہ کی حکومت نے ایک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں دس ممالک میں مذہبی آزادی کے حوالے سے صورت حال کو تشویشناک قرار دیا تھا۔ اور اس فہرست میں ایک نام پاکستان کا بھی تھا۔ اس پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس کی یہ دلیل پیش کی کہ پاکستان اور امریکہ تو اس بارے میں بہت مثبت انداز میں تبادلہ خیالات بھی کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کے وزیر خارجہ کے بیان کا ایک یہ فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس سے ہمارے علم میں یہ اضافہ ہوا کہ پاکستان میں تو مختلف مذاہب میں مکمل ہم آہنگی کی ایک روشن تاریخ موجود ہے۔ اور یہ کہ پاکستان میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی گارنٹی دی گئی ہے۔

پاکستان کے اس تبصرے میں اس بات پر کافی غم و غصہ کا اظہار کیا گیا تھا کہ اگر اس فہرست میں پاکستان کا نام ڈالنا تھا تو کچھ اور نہیں تو ہندوستان کا نام بھی ڈالنا چاہیے تھا۔ اور وزیر اعظم کے مشیر خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی طاہر اشرفی صاحب نے بھی پریس کانفرنس کر کے اس رپورٹ پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ علماء اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ اور کہا کہ اس قسم کے الزامات لگانے والے ہندوستان کی طرف کیوں نہیں دیکھتے؟

محض جذباتی ہو کر کسی رپورٹ کو مسترد کرنا کافی نہیں ہے۔ پشاور پر ایک چرچ پر حملہ پر از خود نوٹس لیتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ نے 19 جون 2014 کو ایک فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلہ کے آخر میں یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ ایک سپیشل پولیس فورس تشکیل دی جائے جو کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے۔ اور اگر کسی عبادت گاہ پر حملہ ہو تو اس پر حکومت فوری طور پر حرکت میں آئے گی اور مجرموں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔ اور حکومت سوشل میڈیا پر نفرت انگیزی کا نوٹس لے کر اس کو روکے گی۔

جب مندر پر حملہ ہو رہا تھا تو وہ سپیشل فورس کہاں پر اونگھ رہی تھی؟ اور اب تک کرک کے مندر کو جلانے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے؟ اگر پاکستان میں اس قسم کے واقعات کو روکا نہیں جا سکتا تو پھر مذہبی آہنگی اور آزادی کے بلند و بانگ دعوے بے سود ہیں۔ اس دور میں اس قسم کے واقعات کو ”مٹی پاؤ سکیم“ کے تحت چھپانا ممکن نہیں۔ یہ واقعات پاکستان کو بھی کمزور کر رہے ہیں اور اس کے موقف کو بھی۔ جو لوگ مندر کو آگ لگا رہے تھے انہوں نے تو پاکستان کے دشمنوں کے نمک کا حق ادا کر دیا۔ اب یہ پاکستان کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).