پبلک سروس کمیشن سکینڈل: سٹنگ آپریشن کیسے کامیاب ہوا؟


پبلک سروس کمیشن؛ 4 کمپیوٹرز میں سے ایک کمپیوٹر میں یو ایس بی لگا کر ڈیٹا چوری کی سہولت موجود تھی۔

پبلک سروس کمیشن کے ڈائریکٹر ایگزمینیشن امجد، ڈیٹا بنک برانچ ہیڈ اسد اللہ، کمپیوٹر آپریٹر اظہر، سٹینو عمران کو شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔ سیکرٹری پبلک سروس کمیشن نے تحریری جواب اینٹی کرپشن کو جمع کروانے کے لئے ایک دن کی مہلت مانگ لی۔ پبلک سروس کمیشن کی حساس معاملات کی ساری ڈیٹا انٹری تین آپریٹرز کے ہاتھوں میں ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے حساس ڈیٹا سیکشن والے کمپیوٹر میں کون کون ”لوگن“ ہوتا رہا، اس کی کوئی ڈیٹا ہسٹری موجود نہیں ہے۔

پبلک سروس کمیشن کے کمپیوٹر میں کوئی ایسا سافٹ ویئر موجود نہیں جس سے انچارج برانچ کو کمپیوٹر سے مبینہ چوری یا ڈیٹا کاپی کی اطلاع مل سکے۔ ڈیٹا انٹری محض ایم ایس ورڈ کی فائلوں میں کیے جانے کا انکشاف، ڈیٹا انٹری کے لئے مخصوص فول پروف سافٹ ویئر موجود ہی نہیں۔ پبلک سروس کمیشن کے پاس ایسا نظام موجود نہیں جس سے یو ایس بی کمپیوٹر میں لگتے ہی سسٹم الارم برانچ کے سرور کو اطلاع کر سکے۔ چار کمپیوٹر میں سے ایک کمپیوٹر کے ساتھ حساس ڈیٹا کو چوری کرنے کی رسائی کیوں دی گئی تحقیقات کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا۔

سیکریٹری پبلک سروس کمیشن محمد نواز خالد نے گزشتہ دن 5 گھنٹے ہیڈ کوارٹر اینٹی کرپشن لاہور میں گزارے اور مجرم وقار نے اپنا اعترافی بیان اینٹی کرپشن کو سیکریٹری پبلک سروس کمیشن کے سامنے ریکارڈ کروایا۔ امیدواروں سے رابطے کرنے کے لئے وائی فائی نیٹ ورک کا سہارا لیا جاتا تاکہ ان کی لوکیشن اداروں کو معلوم نہ ہو سکے۔ امیدواروں کو ایک مکان میں اکٹھا کیا جاتا اور ان کو لیک شدہ پرچے کے جوابات زبانی یاد (پرچے کا ”paper key“ ) کروائے جاتے۔

وقار اور غضنفر ایک دوسرے کو نہیں جانتے کیونکہ وقار پبلک سروس کمیشن کے دفتر سے پرچہ یو ایس بی میں کاپی کرنے کے بعد اپنے کزن کے حوالے کرتا۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے پرچے لیک کرنے کا مرکزی کردار وقار ہے جو کہ گزشتہ چار برس سے پبلک سروس کمیشن میں بطور کمپیوٹر آپریٹر اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے جس آفس میں وقار بیٹھتا ہے وہاں چار کمپیوٹرز پڑے ہیں جن میں سے ایک کمپیوٹر میں یو ایس بی لگ سکتی ہے اور ڈیٹا چوری ہو سکتا ہے۔

اینٹی کرپشن کی ٹیم نے وقار کو گزشتہ صبح 10 بجے اپنی حراست میں لیا اور وقار کی گاڑی سے یو ایس بی برآمد ہوئی جس میں لیک شدہ پیپرز موجود تھے جن میں گزشتہ روز تحصیل دار کا ہونے والا پیپر بھی شامل تھا اور 3 جنوری یعنی آج تحصیلدار کا ہونے والا پرچہ بھی شامل تھا اس کے علاوہ لیکچرار کیمسٹری، لیکچرار ایجوکیشن، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ افسر ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن، انسپکٹر اینٹی کرپشن کے پرچے بھی شامل تھے جن کو مبینہ طور پر لیک کیا گیا تھا۔

سیکرٹری پبلک سروس کمیشن محمد نواز خالد نے گزشتہ دن 5 گھنٹے ہیڈ کوارٹر اینٹی کرپشن لاہور میں گزارے۔ وقار نے اپنا اعترافی بیان اینٹی کرپشن کو سیکرٹری پبلک سروس کمیشن کے سامنے ریکارڈ کروایا۔

سیکرٹریٹ کے ملازم غضنفر جو اس کیس کے مرکزی کردار بتائے جاتے ہیں اور ان کا کام پبلک سروس کمیشن کے پرچے ان امیدواروں تک پہنچانا ہے جو طالب علم غضنفر سے پرچہ خرید لیں۔ غضنفر کی وٹس ایپ چیٹ میں اہم ترین انکشافات سامنے آئے ہیں جس کے مطابق غضنفر پبلک سروس کمیشن کے پرچے 5 لاکھ سے لے کر 15 لاکھ بیچتے تھے اور امیدواروں سے رابطے کرنے کے لئے وائی فائی نیٹ ورک کا سہارا لیا جاتا تاکہ ان کی لوکیشن اداروں کو معلوم نہ ہو سکے اور ہر دفعہ نئے وٹس ایپ نمبر سے امیدواروں سے رابطہ کیا جاتا۔

اینٹی کرپشن کا پلانٹڈ انڈر کور طالب علم صبح 4 بجے اپنے فرضی انکل کے ساتھ (جو کہ حقیقت میں اینٹی کرپشن کے افسر تھے) برکت مارکیٹ پہنچتے ہیں۔ پلانٹڈ طالب علم کو غضنفر اپنی گاڑی میں بٹھاتے ہیں اور وہ گاڑی گوہر چلا رہا ہے جو کہ جامعہ پنجاب کا طالب علم ہے۔ برکت مارکیٹ میں اینٹی کرپشن کے انڈر کور افسر جوس والی دکان پر کھڑے ہیں غضنفر کو شک ہوا تو وہ جوس والی دکان کے پاس کھڑی گاڑی میں بیٹھے افسر کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آپ اتنی صبح ادھر کیا کر رہے ہیں۔

انڈر کور افسر غضنفر کو جواب دیتا ہے کہ میں جوس پینے نکلا ہوں، غضنفر برکت مارکیٹ سے فیروز پور روڈ، غازی روڈ، ڈیفنس سے ہوتے ہوئے وائے بلاک، والٹن سے ہوتے ہوئے پھر فیروز پور روڈ اور کلمہ چوک سے کینال روڈ سے ہوتے ہوئے دوبارہ برکت مارکیٹ اور وہاں سے جامعہ پنجاب داخل ہو جاتے ہیں۔ برکت مارکیٹ سے تحصیلدار کا پیپر دینے والے چار امیدوار غضنفر کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں ایک نجی سوسائٹی سے دو لڑکیاں امیدوار برائے تحصیلدار بھی جوائن کر لیتی ہیں۔

غضنفر کے ساتھ ٹوٹل چار گاڑیاں ہیں ایک گاڑی میں غضنفر اور گوہر بیٹھے ہیں جن کے ساتھ اینٹی کرپشن کا انڈر کور امیدوار بھی بیٹھا ہے۔ دوسری گاڑی میں تین امیدوار بیٹھے ہیں اور باقی دو گاڑیوں میں خواتین امیدوار ہیں۔ صرف غضنفر کی گاڑی کی نمبر پلیٹ لگی ہے باقی تینوں گاڑیاں نمبر پلیٹ کے بغیر ہیں۔ انڈر کور افسر جامعہ پنجاب کی سکیورٹی کو اپنا تعارف کرتے ہیں اور ان کو کہتے ہیں کہ انہوں نے 11 گیارہ نمبر ہوسٹل میں اپنے بھائی سے ملنے جانا ہے۔

انڈر کور افسر نے جامعہ پنجاب کے تمام ہوسٹل کی پارکنگ چیک کی جب وہ ہوسٹل نمبر 4 اور گیارہ کے سامنے آئے تو انہیں غضنفر اپنی ٹیم کے ساتھ دکھائی دیا۔ یہ وہی انڈر کور افسر تھے جن کو غضنفر برکت مارکیٹ جوس والی دکان پر مل چکا تھا۔ غضنفر انڈر کور افسر کی گاڑی کی طرف بھاگا مگر افسر نے بیک گیر لگا کر گاڑی ہوسٹل گیٹ کی طرف بھگا دی جہاں ان کے دیگر افسران بھی موجود تھے۔ غضنفر نے شیخ زید ہسپتال کے سامنے والے گیٹ سے بھاگنے کی بجائے ہوسٹل گیٹ ہی سے بھاگنے کو ترجیح دی۔ گیٹ سے باہر نکلتے ہی چاروں گاڑیوں کا رخ ٹھوکر نیاز بیگ کی طرف تھا۔ اینٹی کرپشن کی ٹیم نے ہیلے کالج اوور ہیڈ برج کے پاس غضنفر کی گاڑی کو روکا گاڑی رکتے ہی غضنفر نے اپنا موبائل جامع پنجاب کے ہوسٹل کی طرف پھینکا جس کو 15 منٹ بعد تلاش کر لیا گیا۔

غضنفر کے پاس پرنٹڈ لیک شدہ پیپرز ملے ہیں امیدواروں کو ایک مکان میں اکٹھا کیا جاتا اور ان کو لیک شدہ پرچے کے جوابات زبانی یاد (پرچے کا ”key paper“ ) کروائے جاتے۔ وقار کی وٹس ایپ چیٹ میں واضح ہوا ہے کہ وقار کا کزن اپنے فرنٹ مین کو پرچہ رات گیارہ بجے مہیا کرتا اور غضنفر کی چیٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پرچے سے دو گھنٹے پہلے امیدواروں کو اس کے جوابات زبانی یاد کرواتے تھے۔

وقار اور غضنفر ایک دوسرے کو نہیں جانتے کیونکہ وقار پبلک سروس کمیشن کے دفتر سے پرچہ یو ایس بی میں کاپی کرنے کے بعد اپنے کزن کے حوالے کرتا اور اس پرچے کے عوض اپنے کزن سے لاکھوں روپے کماتا اور وقار کا کزن وہ پرچہ مختلف لوگوں تک پہنچاتا جو امیدواران کا انتظام کر کے ان سے رقم طے کر لیتے۔

(بشکریہ روزنامہ دنیا – فہد شہباز خان کی خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).