پولیس گردی سے دہشت گردی تک: پاکستان میں کیا تبدیل ہؤا ہے؟


اسلام آباد میں پولیس گردی کے المناک واقعہ کے بعد بلوچستان میں مچھ کے مقام پر دہشت گردی کا افسوسناک سانحہ ہؤا ہے۔ وزیراعظم سے لے کر وزرا اور صوبائی حکومت کے نمائندوں نے گیارہ کان کنوں کو اغوا کرکے ماردینے کے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ پاکستانی عوام نے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے بار بار یہ تجربہ کیا ہے کہ سرکاری ذمہ دار بیان دینے اور دعوے کرنے میں دیر نہیں لگاتے لیکن عملی طور سے صورت حال تبدیل نہیں ہوتی۔

مچھ سانحہ میں جاں بحق ہونے والے مزدوروں کا تعلق ہزارہ شیعہ برادری سے بتایا گیا ہے۔ یہ خبریں دل ہلا دینے والی ہیں کہ حملہ آوروں نے کان کی طرف جانے والے مزدوروں کو روکا، ان کی شناخت کی اور صرف شیعہ افراد کو اغوا کر کے لے گئے جبکہ باقی مزدوروں کو جانے کی اجازت دے دی۔ بعد میں ان افراد کو قریبی پہاڑیوں میں شہید کر دیا گیا۔ یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے جس میں لوگوں کے عقیدہ کی بنیاد پر انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسی لئے کوئٹہ میں ہزراہ برادری کی طرف سے احتجاجی دھرنا بھی شروع کیا گیا ہے۔ ماضی کی طرح یہ دھرنا بھی چند روز جاری رہے گا۔ پھر اعلیٰ سرکاری عہدیدار مؤثر کارروائی کرنے اور ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کریں گے اور مجبور اور لاچار شہریوں کے پاس اس بات پر ’یقین‘ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

کون، کیسے اور کس لئے کی بحث سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ فرقہ واریت اور عقیدہ کی بنیاد پر ایک دوسرے کی جان لینے کا طریقہ پاکستان میں نیا نہیں۔ اقلیتی عقائد سے وابستہ لوگوں کے علاوہ فرقہ کے اختلاف کی بنیاد پر بھی فساد، حملے اور قتل و غارتگری کا رواج موجود ہے۔ چند روز پہلے ہی خیبر پختون خوا میں کرک کے مقام پر ایک ہندو سمادھی گرانے کا واقعہ پیش آیا ہے جسے سپریم کورٹ کے حکم پر از سر نو تعمیر کیا جا رہا تھا۔ اس واقعہ سے ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک خاص عقیدہ اور اسلام کی ایک خاص تفہیم کو عام کرنے والے عناصر طاقت ور ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے اور اشتعال دلانے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے مواقع پر حکومت کی حیثیت تماشائی سے زیادہ نہیں ہوتی کیوں کہ ان عوامل سے نمٹنے کے لئے ایسا مؤثر کام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی جو ملک میں مذہبی شدت پسندی کے فروغ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

دسمبر 2014 میں پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملہ کے بعد اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت جو قومی ایکشن پلان منظور کیا گیا تھا، اس کا بنیادی مقصد مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے اور تشدد پر اکسانے کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔ ملک کے موجودہ وزیر اعظم یورپ میں مسلمانوں کے خلاف پائی جانے والی نفرت کے بارے میں پرجوش رہتے ہیں اور اس کے خاتمہ کے لئے ہر عالمی فورم پر متحرک ہونے کا عزم رکھتے ہیں لیکن خود اپنے ملک میں بین المسلکی رواداری، ایک دوسرے کی بات سننے کا رویہ عام کرنے اور بقائے باہمی کے اصول کو ماننے کے لئے کام نہیں کرسکے۔ ملکی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ برتے جانے والے سلوک کو خاطر میں لائے بغیر بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے خلاف محاذ آرائی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران پاکستان سے بھارت منتقل ہونے والے ہندوؤں کے بارے میں بھی متعصبانہ سلوک پر نئی دہلی سے احتجاج کرتی رہی ہے۔ کسی نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ایک اقلیتی عقیدہ سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کو سندھ سے بھارت منتقل ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی۔ حالانکہ یہ لوگ صدیوں سے وہاں آباد تھے۔

اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کے معاملہ پر حکومت پاکستان کا ٹکسالی مؤقف یہی ہوتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں اور پورا نظام ان کی حفاظت کرتا ہے۔ ایسے میں یہ پوچھنا بے مقصد ہو جاتا ہے کہ کون سا نظام؟ جس میں مذہبی انتہا پسندی کی تبلیغ کا کام اپوزیشن کی صفوں سے لے کر حکمران جماعت کے ذمہ دار لوگ تک کرنے پر مامور ہیں۔ اور کبھی اس بات پر غور نہیں کیا جاتا کہ مذہبی جذبات کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے سے جو حالات پیدا ہورہے ہیں، ان سے نفرت اور تشدد کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ مذہبی اقلیتوں سے قطع نظر ملک میں تو فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر وسیع المشربی کا ماحول ہی موجود نہیں ہے۔ اس افسوسناک صورت حال کا اندازہ اس حقیقت سے ہی کیا جاسکتا ہے کہ اگر مختلف مسالک کے علما و زعما کسی ایک جگہ جمع ہوجائیں تو اسے خبر کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ گویا کوئی انہونی رونما ہوئی ہو۔

ان حالات اور مزاج کو تبدیل کئے بغیر ملک سے نہ مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی دہشت گردی کو لگام دی جاسکتی ہے۔ یہ تسلیم کرنے میں مضائقہ نہیں ہے کہ پاک فوج نے مسلسل کوشش کرکے کسی حد تک ملک میں دہشت گردی کے واقعات پر قابو پایا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی گزشتہ کچھ عرصہ سے ان واقعات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایسے ہتھیار برداروں کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے جو خوں ریزی پر آمادہ رہتے ہیں لیکن ان حالات کو تبدیل کرنے کا کام نہیں ہوسکا جن کی وجہ سے تشدد پر آمادہ کرنے والے یہ عناصر پیدا ہوتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں اور پھر اس زہرناکی کو پورے معاشرے میں پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے عناصر کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں لیکن صرف اسی وقت ان کے خلاف رسمی کارروائی کی نوبت آتی ہے جب کوئی واقعہ کسی ایک خاص مقام یا جگہ کی طرف واضح اشارہ کرنے کا سبب بن جائے۔ تشدد سے نمٹنے کے لئے جس تحمل و بردباری کی ضرورت ہے، اسے عام نہیں کیا جا سکا۔

یہ رویہ ریاست پاکستان کی اعلیٰ ترین سطح پر موجود ہے۔ اسی لئے ملک میں شدت پسندی میں کمی کی کوئی علامت دیکھنے میں نہیں آتی۔ یہ چلن بیانات کے علاوہ مظاہروں، اکا دکا انفرادی حملوں یا گروہی صورت میں خوں ریزی کی صورت میں دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران جماعت الدعوۃ اور جیش محمد کے خلاف اقدامات کئے ہیں۔ لیکن یہ اقدامات قومی مزاج تبدیل کرنے کے کسی باقاعدہ منصوبہ کا حصہ نہیں تھے بلکہ ان کے ذریعے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو مطمئن کرنا مقصود تھا تاکہ ملک کو اس گروپ کی گرے لسٹ سے نجات مل جائے۔ ورنہ یہی عناصر بھارت کے خلاف اعلان جہاد کرنے کے لئے ریاست کے غیر سرکاری ترجمان کا کردار ادا کرتے رہے تھے اور برملا اس کا اعلان کرتے تھے۔ اسی طرح صدر ٹرمپ کے دباؤ پر ہی طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے سے پہلے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے تعلقات کے بارے میں کوئی خاص شبہ موجود نہیں رہا۔

اب بھی جب ملک کو معاشی طور سے خود مختار کرنے اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے لئے حکومتی کوششوں کے قصے عام کئے جاتے ہیں، ملک کے وزیر اعظم اہل پاکستان کو ’عظیم قوم‘ بنانے کے لئے ترک ڈرامے دیکھنے پر آمادہ کرتے ہیں یا سیرت النبی کو نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ گویا سیاسی لب و لہجہ میں مذہبی جوش و خروش شامل کرنے سے ہی ملک کا حکمران اپنی مقبولیت کا امکان روشن دیکھتا ہے۔ عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ بھارتی ہندو انتہا پسندی، مغرب کے اسلامو فوبیا یا مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر ردعمل سے عام لوگوں میں کیسے جذبات کو بیدار کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے حقوق یا بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے تدارک کے لئے سب سے پہلے پاکستان کو ایک بہتر مثال کے طور پر سامنے آنا پڑے گا۔ مذہبی جذبات سے لبریز بیان جاری کرنے والے سیاسی لیڈروں کو البتہ اس سے غرض نہیں ہوتی کیوں کہ ان کا مقصد قلیل المدت سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ فائدہ حاصل کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے کو بتدریج ایسی ذہنی انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جارہا ہے جہاں سے واپسی کا راستہ دن بدن معدوم ہورہا ہے۔

کوئٹہ کے حالیہ سانحہ میں جو عناصر بھی ملوث ہیں لیکن انہیں یہ کام سرانجام دینے کے لئے اسی مذہبی جنون نے سہولت فراہم کی ہے جسے پیدا کرنے کے لئے ملکی سیاست و سرکار یکساں طور سے گرمجوش ہے۔ اب وفاقی وزرا یہ قیاس آرائیاں کررہے ہیں کہ اس واقعہ میں بھارت ملوث ہے اور اس کا مقصد ملک کو کمزور کرنا ہے۔ پاکستان کے خلاف کسی تخریب کاری میں بھارتی عنصر کو مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن پاکستان بیرونی عناصر سے اسی وقت نبرد آزما ہوسکتا ہے جب ان ہتھکنڈوں کے خلاف پاکستانی رائے عامہ کو مضبوط سماجی اطوار کی بنیاد پر استوار کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali