شادی کی اقسام (1)۔


\"\"

دنیا کے اکثر ممالک میں مرد اور عورت کے درمیان جیون ساتھی کا رشتہ قائم ہونے کے دو طریقے رائج ہیں۔ تیزی سے مقبولیت کی منازل طے کرتا ایک در فٹے منہ سا طریقہ یہ ہے کہ ادھر دو دل ملے، ادھر دو سَر ایک ہی چھت تلے ایک تکیے پر اکٹھے ہو گئے، یعنی ساتھ رہنے لگے۔ دوسرا اور قدیمی طریقہ یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے نے ایک دوسرے کو پسند کیا، چند ٹکے اکٹھے کیے اور اپنے دین دھرم کے مطابق دو بول پڑھوا لیے۔ نہ موسیقی، فائرنگ اور آتش بازی کی گھن گرج سے اہل محلہ کی نیندیں حرام ہوئیں، نہ ٹینٹ قناتوں سے رستہ بند ہوا اور نہ ہی باراتی گاڑیوں کی لمبی قطار سے سڑک بلاک ہوئی۔ گویا شادی نہ ہوئی، کوئی مرگ وغیرہ ہو گئی۔ تاہم مقا م شکر ہے کہ ہمارے غیور معاشرے میں زندگی کا یہ اہم ترین فیصلہ اتنی سادگی اور خاموشی سے نہیں کیا جاتا، بلکہ فریقین اپنا دیوالیہ نکال کر دم لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے ہاں شادی اور نکاح کے کئی ہنگامہ خیز طریقے رائج ہیں۔ چیدہ چیدہ اقسام شادی ملاحظہ فرمائیں :

بے جوڑ شادی:

واہ گرو کی جے! یہ ہمارے سماج کی پسندیدہ اور شادی کی مقبول ترین قسم ہے۔ مثل مشہور ہے کہ زندگی ایک گاڑی ہے اور میاں بیوی اس کے دو پہیے۔ پس اسی مثل کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایسے رشتے طے کیے جاتے تاکہ بعد میں جوڑے کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ البتہ گاڑی سے مراد ٹریکٹر لی جاتی ہے اور اس کے اگلے اور پچھلے پہیوں کے درمیان فرق، حجم اور ساخت کو پیش نظر رکھ کر رشتہ طے کیا جاتا ہے۔ لا محالہ اس شادی کے بعد زندگی کی گاڑی بھی اسی طرح چلتی ہے، جیسے کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے ٹریکٹر کے انجن سے احتجاجی سُر نکلتے ہیں۔ زندگی عمران خان کی طرح احتجاج کرتے گذر جاتی ہے اور وہ ’’پیشہ ور احتجاجی‘‘کے طور پر مشہور ہو جاتے ہیں (مراد میاں بیوی ہیں، عمران خان نہیں ) اس شادی میں ٹریکٹر کی ایک اور خوبی بھی حلول کر جاتی ہے کہ اس کے مذکورہ دونوں پہیے اپنے درمیان تمام تر تضادات کے باوجود اکٹھے حرکت کرتے ہیں۔ تاہم ان کے درمیان مخصوص فاصلہ تاحیات اس خوبصورتی کے ساتھ قائم رہتا ہے کہ ؂

کنارہ دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے

زبردستی کی شادی :

یہ بھی ہمارے ہاں شادی کی ایک معتبر قسم سمجھی جاتی ہے۔ یہ شادی باہمی رضا مندی سے انجام پاتی ہے۔ اس میں سب کی مرضی شامل ہوتی ہے، سوائے دولہا اور دلہن کے۔ اس شادی میں جمہوریت کا اصول کار فرما ہوتا ہے، یعنی دونوں خاندانوں کی اکثریت کی رائے فقط دو لوگوں کی اقلیتی رائے پر غالب آتی ہے۔ زبردستی کی شادی کا ایک اور زاویے سے جائزہ لیں تو کھلتا ہے کہ کیدو ہماری تاریخ کا روشن مینار ہے اور ایسی شادیاں اسی کے گراں مایہ افکار کی روشنی میں طے پاتی ہیں۔ وہ جو فرمایا گیا ہے کہ یہاں لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کریں تو انہیں روک دیا جاتا ہے اور اگر ناپسند کریں تو ان کی شادی کردی جاتی ہے۔ بس یہی نقطہ حضرت کیدو کی تعلیمات کا محور ہے اور یہی ان شادیوں کی اساس۔ بزرگ اپنی انا اور خواہشات کی بنا پر اختیارا ت کے ناجائز استعمال اور جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے زبردستی کی شادیاں کراتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں ’’جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں ‘‘ جیسے ڈکٹیٹر غیر قانونی ہتھکنڈوں سے اپنے حق میں ریفرنڈم کامیاب کرانے کے بعد کہتے ہیں ’’یہ فیصلہ عوام کی بارگاہ میں ہوا ہے ‘‘

محبت کی شادی:

وااللہ! اس شادی کی ہمارے معاشرے میں ٹکے کی عزت نہیں۔ یہ وہ شادی ہے جس میں میاں بیوی ایک ہی پیج پر ہوتے ہیں، جیسے آج دہشت گردی کے خلاف ہماری حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔ چونکہ اس شادی کے پیچھے باہمی محبت کارفرما ہوتی ہے، لہذا اختلافات اور جھگڑوں کی دھول مٹی کو مذاکرات کے جھاڑو کے ذریعے قالین کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ اس عمل سے آہستہ آہستہ قالین کے نیچے کافی گند اکٹھا ہو جاتا ہے، جس میں طرح طرح کے حشرات الارض پیدا ہو جاتے ہیں اور قالین کو کھانا شروع کردیتے ہیں۔ نیز گھر میں مختلف بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں، تاہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سماجی اور ازدواجی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اگر رانجھے کی ہیر کے ساتھ محبت کی شادی ہو جاتی تو اسے آٹے ڈال کا بھاؤ معلوم ہو جاتا اور محبت کے بارے میں اس کے خیالات عمران خان کے پانامہ لیکس پر کمشن کی طرح یکسر یوٹرن لے لیتے۔

ناکام شادی :

ایک فلسفی نے ناکام شادی کی تعریف ان الفاظ میں کی ’’میری دونوں شادیاں ناکام ہوئیں۔ پہلی بیوی چھوڑ گئی، دوسری چھوڑتی ہی نہیں ‘‘ ناکام شادی کا حامل جوڑا زندگی کا سفر پطرس بخاری کی سائیکل پر بیٹھ کر طے کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اس تاریخی سائیکل کے پہیوں سے چچوں پھٹ، چچوں پھٹ، مڈ گارڈوں سے کھٹ، کھٹر، کھڑڑ اور زنجیرسے چر، چرخ اور چڑ چڑ کے سُر نکلتے تھے۔ علاوہ ازیں اس کے اگلے ٹائر میں بڑا سا پیوند لگا ہوا تھا، جس سے ہر چکر میں پہیہ اوپر کو اٹھتا اور مرحوم و مغفور کا سر یوں جھٹکی کھاتا، جیسے کوئی متواتر ان کی ٹھوڑی کے نیچے مکے مار رہا ہو۔ حتیٰ کہ سائیکل ہذا مالک کے ہاتھوں دریا برد ہوئی۔ ( اپنی شادی کے بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے ملاحظہ فرمائیں سید احمد شاہ بخاری پطرس کی کتاب’’پطرس کے مضامین‘‘ )

کامیاب شادی:

یہ شادی بھی ’’ناکام شادی‘‘ ہی کی بہن ہے۔ دونوں میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ کامیاب شادی دراصل مرد کی برداشت کا دوسرا نام ہے۔ اہلیہ محترمہ کے روز روز کے جھگڑوں اور طعنوں سے تنگ آ کر ایک دن کسی کامیاب شادی کے حامل میاں کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور آسمان کی طرف منہ کر کے التجا کی ’’اے خدا! یا تو مجھے اس دنیا سے اٹھا لے اور یا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ محترمہ تیزی سے شوہر کی طرف لپکیں اور اس کی بات کاٹتے ہوئے شیرنی کی طرح دھاڑیں’’یا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ خاوند نے دعا مکمل کی ’’یا بھی مجھے ہی اٹھا لے ‘‘۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی کامیاب شادیاں کامیابی کے اسی اصول کے تحت کامیاب ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا آپ کی شادی بھی کامیاب ہے؟ مبارکباد قبول فرمائیں۔

نوٹ:۔ شادی کی دیگر اقسام اگلے دو کالموں میں عرض کی جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments