یہ فراڈیے اوریہ دکانداریاں (محمد حسین ہنرمل)۔


\"\"

چونکہ یہاں پر سیاست بھی بڑی حد تک دکانداری کا روپ دھار چکا ہے، قیادت بھی اوراسی حساب سے منصفوں کی قضاوت بھی۔ مذہب کے مقدس نام پر بھی رقم بٹورنے کی حتی الوسع گنجائش موجود ہے جبکہ طب اورتعلیم جیسے شعبوں میں بھی، سو بے روزگاری کے اس عالم میں یار لوگوں کی یہ دکانداریاں دیکھ کر ہرکسی کی منہ میں پانی بھرآتا ہے کہ کیوں نہ ہم بھی دکانداربن کر نان نفقے کا بندوبست کرلیں۔ کسی کارنر میں مفت کی دکان لگانے میں آج کل جعلی پیر، جن بھوت نکالنے اورجادو ٹونے والے بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ یوں کہیے کہ اس نوع کی تجارت سدا بہاررہتاہے۔

ان حضرات نے چونکہ اپنے خام خیال کے مطابق لوگوں کی تقدیروں جیسے اہم مسائل کو سلجھانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہوتا ہے، اس لئے ان کی دکانوں پر گاہک بھی زیادہ آتے ہیں اوران پر دولت نچھاورکرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ ان جعلی پیروں اور عاملوں کے ہاتھوں اس دیس ناپرساں میں کتنے لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں اور کتنے لوگوں کو ان سرابوں میں سالہا سال پیاسے پھرائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں صوبہ سندھ کے شہر بدین میں اس نوعیت کے ایک دل ہلانے والے واقعے میں سندھ پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا جس نے پھول جیسے دو کمسن بچوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردیے تھے۔

اس گھناؤنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ملزم نے بتایا ہے کہ بچوں کو قتل کرنے کا منصوبہ اس کانہیں تھا بلکہ اس کے ماموں کا تھا، جس نے اسے اس راستے پر لگالیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے ماموں نے اسے ہدایت کی تھی کہ اگر کالے جادو کا علم سیکھنا ہے تو اسے دوکم سن بچوں کو ضرور قتل کرنا پڑے گا، یوں اس کی دکانداری بھی چل پڑے گی۔ اسی گاؤں میں رہنے والے لوگوں کے مطابق دونوں ماموں بھانجا کافی عرصے سے جھاڑ پھونک، تعویذ اور جن بھوت سے نجات دلانے کا کام کررہے تھے۔ جعلی پیروں، جن بھوت نکالنے والے نام نہاد فراڈیوں اور قبرستانوں میں جھونپڑی نما دکانیں لگانے والے درویشوں کے ہاتھوں رونما ہونے والا اس نوع کا نہ یہ صرف ایک واقعہ ہے اور نہ ہی صرف آج رونما ہوا ہے بلکہ ان گنت واقعات دہائیوں سے ان جعلسازوں کے ہاتھوں رونما ہورہے ہیں۔ ہمارے ہاں کراچی، لاہور، ملتان اور ملک کے دیگر بڑے شہروں کے فٹ ہاتھوں پر قسمتوں کے جھوٹے دھنی اور دن پھیرنے والوں کی بھرمار سے کون لاعلم ہے اور کتنے بدنصیبوں کو یہ سبزباغ نہیں دکھا چکے ہیں؟

آپ قبرستانوں پر جاکر دیکھیے کہ کتنے فراڈیے آپ کو اس روپ میں ملیں گے جو سادہ لوح عوام کو دین اور اسلام کے مقدس نام پر ورغلارہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ گھریلو ناچاقیوں کا سبب اکثر یہی لوگ بن رہے ہیں جو پیسوں کے عوض لوگوں کے دل ودماغ کو اپنے ہی اقرباء کے بارے میں طرح طرح کے شکوک وشبہات اوربدگمانیوں کے مغلظات سے پراگندہ کرتے ہیں۔ اب جب ایک مرتبہ کسی پیر صاحب کے بارے میں کسی محلے یا دیہات میں تھوڑی سی ذہنیت بنتی ہے، تو جاہل لوگ درکنار، بڑے باخبر اور روشن خیال بھی اس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اورپھرااللہ تعالیٰ کی قادر مطلق ذات سے آس لگانے کی بجائے انہیں صرف ان بہروپیوں کی ایک ہی نظردرکارہوتی ہے اور بس۔

دور شباب میں چونکہ لڑکے اور لڑکیاں دوسری بیماریوں کی بجائے زیادہ ترمرض۔ ِ عشق کاشکار بنتے ہیں، یوں محبت کے ان اندھے دیوانوں کو اپنا محبوب صرف پیر صاحب کے توسط سے ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ بانجھ پن کا علاج ہو یا رزق میں فراخی، جن اور بھوت بھگانا ہو یا پسند کی شادی جیسے حوائج کو پورا کرنے میں انہیں ان صاحبوں کی ایک نظر کا سوال ہوتا ہے۔ بیچاری بے اولاد اور ساس بہو کے جھگڑوں سے تنگ آئی ہوئیں عورتیں یا خاوند کو زیر کرنے کی خواہش رکھنے والیاں جب ان جعلسازوں کے ہتھے چڑھ جاتیں ہیں تو بہ امر مجبوری پیسوں کے علاوہ اپنی عصمت وآبرو سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ جوں جوں ان نام نہاد سفید پوشوں کے حلقے وسیع ہوتے رہتے ہیں توں توں ان کو اپنے اوپر اعتماد اسقدر بڑھ جاتا ہے کہ الامان۔ کبھی تو کامل ولایت کے دعویدار بن جاتے ہیں تو کبھی قطب الاقطاب، ابدال اور غوث حتیٰ کہ بعض علم الغیب تک کے دعوے کر بیٹھتے ہیں۔

بارہا یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ قرب خداوندی کے زعم میں مبتلا یہ حضرات ایسے جنایات کا ارتکاب بھی دین کا حصہ سمجھتے ہیں جس کے قریب جانے سے بھی ہمارا مذہب ہمیں روکتا ہے، لیکن ان سے جب اس بابت استفسار کیا جاتا ہے تو اپنی نام نہاد ولایت کی آڑ میں اسے اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں۔ چونکہ ان فراڈیوں نے بالواسطہ لوگوں کی قسمت بنانے کا فریضہ اٹھارکھا ہوتا ہے، سو ان کے مرید بیچارے زیادہ اعتقاد کی وجہ سے آخر اتنے گئے گذرے بن جاتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں پیر صاحب کا فراڈ اگر ایکسپوز ہو بھی جاتا ہے، تب بھی ان کی پاکدامنی اور دھوکے کی ولایت پر مرید بیچارے انگلی اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔ مجھے اپنے ہی علاقے میں ( جہاں اس جیسے شعبدہ بازخال خال دیکھنے کو ملتے ہیں ) بھی کئی مرتبہ یہ سننے کو ملا ہے کہ فلاں پیر صاحب نے فلاں جگہ بھوت نکالنے یا پریشانی کو رفع کرنے کے لئے فلاں کے گھر جاکر اپنے ہاتھوں سے پھینکے گئے گنڈے دکھا کر گھر والوں کو بتایا کہ آپ لوگوں کی پریشانی کا سبب ہی یہ ٹونے تھے جسے میں نے بزور اپنی ولایت نکال لیا۔

بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کے ذریعے بہت سے ایسے کلپس سامنے آتے رہتے ہیں جس سے معاملات ماضی کے مقابلے میں اب اتنے ایکسپوز ہوجاتے ہیں کہ شک کی گنجائش ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ہاں تو بات کا مدعا یہی تھا کہ منشیات، ڈکیتی جیسے جرائم کے خلاف حکومت اگر کارروائی فرض سمجھتی ہے تو سوال یہ ہے کہ کالے جادو کے ناسور پھیلانے والے، جگہ جگہ عملیات کی دکانیں کھولنے والے جعلی پیر اورعطائی و فرضی ڈاکٹرز کونسے پھول کھلارہے ہیں جن سے صرف نظر کیا جاتا ہے؟ کیا ان کے ڈیروں اور پناہ گاہوں پر ہاتھ ڈال کر سادہ لوح عوام کو ان کے کرتوتوں سے نجات دلانا کسی اہم فریضے سے کم ہے؟ ہنستے بستے گھرانوں میں نفرتوں کے بیج بونا، باپ بیٹے، میاں بیوی اور بھائی بھائی کے درمیاں نفرتوں کی دیواریں کھڑی کے لئے ناسور ہی کے بارے میں پیارے آقاﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ ہلاک کردینے والے گناہوں سے اجتناب کرو، یعنی االلہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے سے اور سحر (جادو) سے ‘‘۔ ریاست کی ذمہ کے ساتھ ساتھ علماء اور معاشرے کے مصلحین کی بھی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ لوگوں میں شعور و آگہی پیدا کرنے میں مزید تامل سے کام نہ لیں بلکہ اپنے تئیں معاشرے سے اس ناسور کا قلع قمع کرنابھی ایک فرض سمجھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments