ڈپریشن کا علاج کیسے ممکن ہے؟


کام نہیں مل رہا بہت پریشان ہوں، اتنی محنت کی پھر بھی مارکس کم، میری بچیوں کی شادی کب ہوگی؟  پورا دن پسینہ بہا کر بھی آخر میں باس کی ڈانٹ ہی سننے کو ملتی ہے، آج تو صبح سے کام میں دل نہیں لگ رہا۔ یہ اور ایسی بہت سی باتیں ہم تقریباً روز ہی سنتے ہیں لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا یہ باتیں کہنے والے افراد ڈپریشن میں مبتلا تو نہیں؟

آپ جانتے ہیں ڈپریشن کیا ہے؟ ہم اکثر و بیشتر کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی وجہ سے پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن ہفتے دو ہفتے میں اس پریشانی سے خود کو باہر نکال ہی لیتے ہیں۔ کبھی اپنے مسائل کو دوستوں سے بانٹ کر تو کبھی خود اس مشکل سے نمٹ کر اپنی پریشانی کا حل تلاش کر لیتے ہیں اور کسی علاج کی ضرورت پیش نہیں آتی لیکن یہی پریشانی یا اداسی دیرپا ہو تو وہ ڈپریشن کے زمرے میں آجاتی ہے یعنی اگر اداسی کا احساس کسی صورت ختم ہی نہ ہو یا اس اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ آپ کے روزمرہ کاموں پر اثر انداز ہونے لگے تو ڈپریشن کی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔

ڈپریشن میں مبتلا افراد عموماً ان کیفیات کا سامنا کرتے ہیں جیسا کہ ”ہر وقت اداس یا افسردہ رہنا، جس کام کو کرنے میں پہلے دلچسپی ہوتی تھی اسی کام کو کرنے میں بیزاری محسوس کرنا، جسمانی اور ذہنی کمزوری ہونا، تھوڑا کام کر کے تھکاوٹ محسوس کرنا، اپنے اردگرد یا روزمرہ کے کاموں پر توجہ نہ دینا، خود کو دوسروں سے کم تر یا حقیر سمجھنا۔ خود اعتمادی کی کمی، ماضی کی غلطیاں خود پر حاوی کر لینا یعنی مستقبل سے مایوس ہو جانا، بھوک نہ لگنا یا زیادہ بھوک لگنا، نیند کا نہ آنا، ہر بات میں چڑچڑاہٹ ، خودکشی کا سوچنا یا خودکشی کی کوشش کرنا۔“ اور اگر ان علامات پر فوری قابو نہ پایا جائے تو یہ نفسیاتی امراض انسانی شخصیت کو بکھیر دیتے ہیں۔

نفسیات کا انسانی زندگی میں بہت عمل دخل ہے۔ کسی بھی کام کو شروع کرنے کے لیے ضروری ہے آپ کا ذہن اس بات کو مانتا ہو کہ ”میں جو کام کرنے والا ہوں، وہ صحیح طریقے سے مکمل ہوگا“ یعنی آپ جو سوچتے ہیں اس میں مثبت سوچ کا ہونا ضروری ہے وگرنہ آپ کبھی مثبت نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کے برعکس آپ کام شروع کرنے سے پہلے ہی منفی سوچ خود پر طاری کر لیں کہ ”یہ کام میرے بس کی بات نہیں“ تو فطرتاً آپ کا ذہن و جسم اسی سوچ کے تابع چلے گا۔ بالکل اسی طرح ڈپریشن کا علاج آپ خود اپنے ہاتھوں کر سکتے ہیں۔

اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ ہو یا بڑا جب وہ کسی کام میں خوب محنت کرتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو وہ دلبرداشتہ ہو جاتا ہے یعنی خود کو بلندی سے پستی میں دھکیل دیتا ہے اور آہستہ آہستہ اندر ہی اندر اپنا آپ فیل تصور کر کے اسی دنیا میں کہیں قید ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر کوئی کتنی بھی محنت اس پر کر لے اس میں بہتری نہیں لا سکتا کیونکہ وہ ذہنی طور پر خود کو ہارا ہوا مان چکا ہے۔ لیکن وہی شخص اگر یہ سوچ لے کہ نتائج جو بھی آئے میں ہمت نہیں ہاروں گا تو یقیناً ایک دن کامیابی اسے مل کر رہتی ہے۔

اکثر لوگ اپنے نفسیات مسائل یا ڈپریشن کا علاج کروانے بڑے بڑے ڈاکٹرز  کے پاس جاتے ہیں، وہ آپ کو بے شمار ادویات بتا دیتے ہیں یعنی وہ آپ کو جسمانی طور پر ٹھیک کر سکتے ہیں لیکن نفسیات یا ڈپریشن کا علاج اپنی مدد آپ کے تحت ہی ممکن ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا ہوگا کہ جب ہمارے بڑے یا دوست ہماری سوچ کے برعکس کوئی ایسی بات سمجھا رہے ہوتے ہیں تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیا سمجھا رہے ہیں۔ بالکل ایسے ہی ڈپریشن کے شکار مریض کا ڈاکٹر کتنا ہی بہتر علاج کیوں نہ کر لے وہ اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتا جب تک خود اندر سے یہ سوچ نہ لے کہ اسے ٹھیک ہونا ہے۔ کیونکہ جب انسان ایک بار یہ سوچ  لے کہ ”بس اب مجھے ٹھیک ہو کر زندگی میں آگے بڑھنا ہے“ تو اسے زندگی میں واپس لوٹنے کے لیے وہ ایک لمحہ کافی ہوتا ہے۔

ڈپریشن کے مریضوں کی ایک نشانی کھانے کی خواہشات کی تبدیلی بھی ہے یعنی اچانک بھوک کا کم ہو جانا یا حد سے زیادہ بڑھ جانا۔ہمارے جسم میں کچھ ایسے کیمیکلز ہوتے ہیں جو اس وقت ہمارے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں جب ہم ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور یہ کیمیکلز ذہن میں اداسی بڑھاتے ہیں ، یہی وجہ ہے جب بھی ہم اداس ہوتے ہیں تو ہمارے ذہن میں خود بہ خود برے خیالات آنے لگتے ہیں جو فطری عمل ہے۔

آپ نے کبھی غور کیا ہے جب آپ اداس ہوتے ہو تو اداس موسیقی پسند کرتے ہیں اور اچھا مزاج ہو تو شوخ و خوشگوار موسیقی اچھی لگتی ہے، یہ سب ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے کیمیکلز کے نتیجے میں ہی ہوتا ہے لیکن اللہ نے انسان میں اتنی قوت دی ہے کہ وہ فوری طور پر سوچ کو منفی سے مثبت میں ڈھال سکتا ہے۔

یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گردونواح میں دیکھیں کیا کسی کو پریشانی یا چڑچڑاہٹ کی وجہ ڈپریشن تو نہیں؟ اگر ہے تو کوشش کریں اپنی مثبت سوچ سے اس کے منفی خیالات کو بدلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).