محافظ قاتل بن جائے تو تحفظ کون دے گا؟


قوم کے محافظ ہی جب قاتل بن جائیں تو عوام انصاف اور تحفظ کے لیے کس کے پاس جائیں گے؟ آئے دن سوشل میڈیا پر پولیس اہلکاروں کی عوام کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی ویڈیوز منظر عام پر آتی رہتی ہیں، پولیس گردی کا تازہ ترین واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا، جہاں انسداد دہشت گردی اسکواڈ اسلام آباد کے اہلکاروں کی فائرنگ سے 22 سالہ نوجوان طالبعلم اسامہ ندیم جاں بحق ہو گیا، پولیس کا کہنا ہے کہ گاڑی مشکوک لگی، نہ رکنے پر گاڑی پر فائرنگ کی گئی جبکہ مقتول کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کی ایک روز قبل اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی تھی جس پر انہوں نے اسامہ کو مزا چکھانے کی دھمکی دی تھی۔

آئی جی اسلام آباد محمد عامر ذوالفقار خان نے وقوعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دیں، ابتدائی تحقیقات کے بعد 5 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا، تاہم یہ پولیس گردی کا پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی اس طرح کے متعدد واقعات میں اور دوران تفتیش کئی بے گناہ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس ہی ایسا محکمہ ہے جو دہشت گردی کے خلاف عوام کی پہلی ڈھال اور معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے کا ذمہ دار ہے اور عوام پولیس کے جوانوں کی دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں دی جانے والی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پولیس غنڈہ گردی کرتی پھرے، اس حوالے سے پولیس سب سے زیادہ بدنام ہے اور ہر کچھ دن بعد اس کا ایک نہ ایک تازہ ثبوت بھی پیش کر دیتی ہے اور تازہ ثبوت یہ ہے کہ اسلام آباد پولیس نے ایک نوجوان طالب علم کو محض تلخ کلامی پر قتل کر دیا ہے۔

اگر پولیس کا بیان دیکھا جائے تو وہی ہے، جو باعزت شہریوں کو ملزم بنانے کے لیے دیا جاتا ہے کہ گاڑی مشتبہ تھی روکنے پر نہیں رکی تو فائرنگ کر دی گئی، جبکہ ڈی ایس پی صاحب نے فرمایا کہ مقتول اسامہ بے قصور ہے، اس کا ڈکیتی کے کسی واقعے سے کوئی تعلق نہیں، بس گاڑی کا رنگ ایک جیسا تھا، یعنی ڈی ایس پی بتا رہے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس کوئی گاڑی ہو تو اس سے ملتی جلتی گاڑی جس کسی کے پاس بھی ہوگی، اسے فائرنگ کر کے قتل کر دیا جائے گا۔

پاکستانی عوام پاکستانی سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں ہزاروں لوگوں کے لاپتا ہونے کے حوالے سے پہلے ہی بہت پریشان ہیں۔ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جعلی مقابلوں سے کون واقف نہیں۔ راؤ انوار چار سنچریاں کر کے فاتحانہ انداز میں ریٹائر ہو گئے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایسے واقعات کے ذمہ داروں کو سخت سزا ملے اور اسی طرح ملے کہ جس طرح انہوں نے بے قصور لوگوں کو قتل کیا تھا، یہ مسئلہ قصور وار یا بے قصور کا نہیں، بلکہ قانون کی بالادستی کا ہے، قانون کے محافظوں کے ہاتھوں قانون کی پامالی کا ہے، جو لوگ جرائم پیشہ جرم کرنے پر پکڑے جاتے ہیں، ان کے مقدمات تو برسہا برس چلتے رہتے ہیں، لیکن بے قصوروں کو سر راہ بے دردی سے مار دیا جاتا ہے۔

سی ٹی ڈی کے ہاتھوں ساہیوال میں بچوں کے سامنے ماں باپ کو قتل کرنے والے اہلکار طویل مقدمے کے بعد صاف بچ گئے، کیونکہ طویل تفتیش، مقدمے، پیشیوں اور گواہوں کے بیانات اور پیچیدہ عدالتی نظام کے نتیجے میں طے پایا کہ ساہیوال کا واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھا۔ اس طرح کے بہت سے واقعات سے فائلیں بھری پڑی ہیں، مگر سیکورٹی اہلکار سزا و جزا سے بچ جاتے ہیں، ہزاروں افراد کو کس نے لا پتا کیا ہوا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، یہ سب قانون کے محافظوں کے ہاتھوں قانون کی پامالی ہے۔

ملک میں عام آدمی کی جان و عزت کہیں محفوظ نہیں ہے، ہماری پولیس اور سیکورٹی ادارے وہاں فائر نہیں کھولتے جہاں کھولنا چاہیے، یہ سیاہ شیشوں والی پجارو کو دور سے سیلوٹ کرتے ہیں، خواہ اس میں کوئی مجرم ہی سوار ہو، لیکن عام آدمی کو تلخ کلامی کرنے پر سرعام شبہ کی بنیاد پر سرعام گولیوں سے مار دیتے ہیں، پولیس اہلکاروں کے سامنے ڈکیتی و قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں، لیکن ان کا جواب ہوتا ہے کہ آرڈر نہیں ہے۔ یہ حکم انہیں ساہیوال میں کس نے دیا اور اسامہ پر فائرنگ کرنے کے لئے کس نے کہا تھا، پولیس کی موجودگی، بلکہ سرکردگی میں لوگوں کو لوٹنا اور قتل کرنا کسی سے چھپا نہیں ہے۔

حکمران پولیس کا سیاسی استعمال کرتے ہیں اور پولیس ان کی غلام بنی ہوئی ہے، پولیس کا سیاسی استعمال ہونے پر آئی جی، ڈی آئی جی مزاحمت نہیں کرتے کیونکہ بہت سے افسران پیسے یا سیاست کے بل پر ہی اعلیٰ عہدے پر پہنچتے ہیں اور اس عہدے پر برقرار رہنے کے لیے سیاسی طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ معاملہ صرف کسی ایک کی حلف کی پاسداری کا نہیں ہے، یہاں اوپر سے لے کر نیچے تک سب اپنے حلف کی پاسداری نہیں کر رہے ہیں، اتنی اعلیٰ سطح پر جب حلف کی پاسداری نہیں تو عام سپاہی کیونکر اپنی وردی کی لاج رکھے گا۔

درحقیقت پولیس کی خرابی محض چند پولیس والوں کی نہیں، بلکہ حکمرانوں کی بدنیتی کا نتیجہ ہے، یہ لوگ پولیس کو اتنا پروفیشنل نہیں بننے دیتے کہ کل اس کا عام سپاہی انہیں بھی غیر قانونی کام پر گرفت میں لے سکے۔ یہ سارا نظام اوپر سے خراب کیا جا رہا ہے اور اوپر والے ہی کسی درجے میں بھی قانون کی بالادستی قبول کرنے کو تیار نہیں، اوپر سے لے کر نیچے تک جب یہ رویہ ہوگا تو ایسے ہی واقعات ہوں گے۔ اس واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف بظاہر دہشت گردی کا مقدمہ بھی درج کر دیا گیا ہے، لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ چند ماہ بعد نوجوان کے قاتل پولیس والے رہا نہیں ہو جائیں گے یا پھر اہلخانہ کو دباؤ ڈال کر کچھ رقم لینے پر مجبور کر کے مقدمہ داخل دفتر کر دیا جائے گا۔ یہ سارے کھیل پاکستان میں دن رات سر عام ہوتے رہتے ہیں، اس کی روک تھام کے لئے اداروں میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اس وقت ملک میں پولیس کلچر میں انقلابی اصلاحات اور اس میں سب سے بڑھ کر تھانہ کلچر میں تہذیبی تبدیلی کی ضرورت ہے، عوام کو تھانے میں ہی انصاف ملنا چاہیے، پولیس کا فرض ہے کہ فرض شناسی اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرے۔ پولیس اہلکاروں کو ہر طرح کی خارجی ترغیب کو رد کر کے اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے ادا کرنا چاہئیں، پولیس اہلکاروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ریاست پاکستان کی ملازم ہے۔ کیا قانون صرف ان کے لیے ہے جو کمزور اور لاچار ہیں؟

خود کو اشرافیہ کہنے والوں پر قانون کا اطلاق نہیں کیا جاتا، معاشرے میں موجود اس بڑی خلیج کو پاٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر پولیس ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گی تو ہی ملک میں امن وامان قائم ہو گا، لیکن اگر پولیس خود قانون توڑے گی تو عام آدمی سے کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرے گا، اسلام آباد میں نوجوان کے قتل کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہیے، اگر وفاق میں ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی ایسی ہو گی تو پھر باقی صوبوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).