اپنی گمشدہ پہلی کتاب سے ملاقات


اپریل 1986 ء کا ذکر ہے، میں ایف ایس سی کا امتحان دے چکا تھا اور راوی کے پاس لکھنے کو چین کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ طویل چھٹیاں سامنے تھیں۔ یہ وہ دن تھے جب اختر لائبریری رشید آباد اور سہیل بک سنٹر شاہ شمس روڈ سے ایک روپیہ یومیہ پر ملنے والے عمران سیریز کا جادو سوچوں اور اعصاب کو اسیر کیے ہوئے تھا۔ اخبارات کے بچوں کے صفحہ میں لکھنا تو سکول کے ابتدائی زمانے سے جاری تھا، ان چھٹیوں کا مصرف میں نے یہ سوچا کہ عمران سیریز لکھی جائے۔

بس پھر کیا تھا، شہر ملتان کی گرم طویل دوپہریں تھیں، عمران، ایکسٹو، جوزف، جوانا، کیپٹن شکیل، صفدر، نعمانی، چوہان، تنویر، جولیا تھے اور میں تھا۔ تب ہم ماڈرن ہونے کی کوششوں میں بیٹھک سے ڈرائنگ روم تک پہنچ چکے تھے۔ پرانے گھر کے دو کمروں کے بیچ کی دیوار ہٹا کر ڈرائنگ ڈائننگ بنا لیا گیا تھا۔ اسی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کے میں لکھا کرتا تھا۔

ناول کی صورت میں طویل کہانی کا پلاٹ بننے اور واقعات میں کرداروں کو بڑھانے کا تجربہ نہ تھا، سو کئی دفعہ لکھتا اور پھاڑتا۔ بہرحال ڈیڑھ دو مہینے میں عمران سیریز کا ایک ناول لکھ چھوڑا۔ نام تھا اس کا ”ڈیتھ میسنجرز“ ۔ کوئی بین الاقوامی مجرم تنظیم تھی، اب یاد نہیں کیا مشن لے کر پاکیشیا آئی تھی۔

ناول تو لکھا گیا، اب چھاپے کون؟

مظہر کلیم ایم اے کے عمران سیریز کا ان دنوں طوطی بولتا تھا، ہم بھی ان کے تیر قلم کے گھائل تھے۔ مظہر کلیم صاحب مرحوم وکیل ہونے کے ناتے اباجی کے دوست تھے، آٹھ نمبر چنگی پر ان کا اور اباجی کا دفتر پہلو بہ پہلو تھے۔ ان کو مل کر مسودہ بہ صد خلوص و عجز و نیاز و احترام پیش کیا۔  مسودہ لیتے وقت ان کی پیشانی پر حوصلہ افزائی کی کوئی لکیر ابھری اور نہ مہینے بھر کے بعد واپس کرتے ہوئے انہوں نے اشارے کنائے میں بھی کوئی حوصلہ افزا بات کی۔

وکالت، ریڈیو کے ساتھ ساتھ مظہر کلیم صاحب مرحوم کے پاس لکھنے کا کام اتنا زیادہ کہ ہر ماہ دو ناول چھپتے، ایسے میں وہ بھلا کہاں پڑھ سکے ہوں گے میرا مسودہ۔ تاہم ایک سترہ سالہ نو آموز کو کوئی تھپکی، کوئی شاباش کا جملہ! ان کی گرہ سے کچھ بھی تو نہ نکلا۔ کہا تو یہ کہ میاں کیوں وقت برباد کرتے ہو، کوئی پبلشر اسے نہیں چھاپے گا۔

سال ڈیڑھ سال یہ مسودہ یہاں وہاں گرد مٹی کھاتا رہا۔ پھر ایک دن اباجی نے پوچھا ”او یار تیرے عمران سیریز دا کی بنیا؟“ انہیں مظہر کلیم صاحب کی نصیحت سنائی۔ اباجی نے کہا ”ہم خود چھپوا لیتے ہیں، تم کسی سے بات کرو“

اشرف آباد کی جس گلی میں ہمارا گھر تھا، وہ وحدت کالونی کی کوارٹر نمبر 6 بٹہ 10 کے سامنے سے پھوٹتی تھی جہاں پہلا گھر ہمارا تھا اور معصوم شاہ روڈ پر جہاں جا کے دم توڑتی وہاں الٹے ہاتھ پر تیسری دکان میں ”بک لینڈ، معصوم شاہ روڈ۔ ملتان نمبر۔ 31“ کا دفتر تھا۔ یہاں صفدر شاہین بیٹھا کرتے تھے۔ خود عمران سیریز لکھتے، خود چھاپتے اور پھر ہر مہینے ڈھیروں ڈھیر بنڈل وی پی بن کر پاکستان بھر کی لائبریریوں میں جاتے۔ ان سے ملا تو تفصیل سن کر بولے ساڑھے پانچ ہزار خرچ آئے گا۔ انیس سو ستاسی میں ساڑھے پانچ ہزار خاصی موٹی رقم ہوا کرتی تھی۔ خیر! اباجی نے پیسے دے دیے اور کتابت کا کام شروع ہو گیا۔

کمپیوٹر کی شکل تب بھلا کس نے دیکھی تھی۔ نوائے وقت ملتان کے ایک کاتب تھے طارق صاحب، عینک لگاتے اور بالوں سے بے نیاز سر پر سفید صافہ لپیٹے رہتے۔ وہ نیو ملتان میں رہتے تھے اور اپنی اسی سی سی سوزوکی پر معصوم شاہ روڈ کے راستے روزانہ نوائے وقت کے دفتر ڈیرا اڈا جایا کرتے۔ راستے میں وہ بک لینڈ پر رکتے اور کتابت شدہ کام دے کر مزید مسودہ لے جاتے۔

اپنی تحریر کو کتابی سائز میں بٹر پیپر پر خوش خط لکھا دیکھنا ایک عجب سرور آگیں تجربہ تھا۔ کتابت شدہ صفحات کی پروف ریڈنگ کر کے اگلے دن طارق صاحب کو دے دی جاتی، وہ غلطیاں لگا کے دے جاتے۔

ناول چھپ گیا۔ ایک ہزار کی تعداد تھی، پندرہ روپے قیمت۔ بک لینڈ سے جانے والے ہر وی پی پیکٹ میں ایک دو ”ڈیتھ میسنجرز“ ڈالے جاتے۔ تاہم جیسے بڑے پیڑ تلے گھاس پھونس نہیں پنپ پاتی ایسے ہی بھاری وی پی پیکٹوں کی وصول شدہ رقم سے میرے ایک دو ناولوں کی معمولی رقم نکل کر مجھ تک کبھی نہ پہنچ پائی۔

صفدر شاہین صاحب نے میری ”حوصلہ افزائی“ کی اور مزید ناول لکھنے کو کہا لیکن ان شرائط پر میں ان سے مزید کوئی ناول چھپوانے پر تیار نہ ہوا کہ چھپائی کے تمام اخراجات تو اباجی ادا کریں اور فروخت ہونے سے موصول ہونے والی رقم بک لینڈ کے اکاؤنٹ میں دفن ہوتی رہے۔

صفدر شاہین صاحب کا معمول یہ تھا کہ ہر ماہ وہ ایک ضخیم یا دو کم ضخامت کے عمران سیریز لکھتے۔ ایک ماہ یہ ناول بک لینڈ سے چھپتے، اگلے ماہ لاہور کے کسی پبلشر سے۔ لاہور والا پبلشر انہیں پانچ ہزار فی ناول معاوضہ دیا کرتا تھا۔ کوئی سال بھر کے بعد صفدر شاہین صاحب نے مجھے کہا اچھا یار آپ خود نہیں چھاپنا چاہتے تو نہ چھاپیں مگر اپنے اس شوق کو ختم نہ کریں، آپ ناول لکھیں میں لاہور والے پبلشر سے چھپوا دیتا ہوں۔ اندھا کیا بھالے، دو اکھیاں۔ میں نے کمر کس لی۔

اب میں تجربہ کار تھا، سو مجھے نسبتاً کم وقت لگا اور ”ٹائیگرز کا انتقام“ مکمل ہو گیا۔ یہ ناول قریب دو ماہ کے بعد لاہور سے چھپ کر آیا مگر اس پر مصنف کے ذیل میں صفدر شاہین کا نام تھا۔ جب میں نے حضرت سے پوچھا تو فرمایا ”او پبلشر کہندا سی اسیں غیر معروف ناں دا ناول نہیں چھاپدے، وکدا نہیں“ ۔ گویا صفدر شاہین صاحب نے اپنا پانچ ہزار کھرا کر لیا۔ اباجی کی جیب سے نہ سہی، لاہور والے پبلشر سے سہی۔

حد یہ ہے کہ موصوف نے کرداروں کے نام تک بدلنے کی زحمت نہیں کی۔ میرے کردار مظہر کلیم ایم اے والے تھے جب کہ صفدر شاہین کے ہاں کیپٹن شکیل، کیپٹن بابر تھا اور جوانا نام کا کردار ان کے ہاں تھا ہی نہیں۔ ”ٹائیگرز کا انتقام“ میں جوانا اور کیپٹن شکیل دونوں ہی موجود تھے۔

”ڈیتھ میسنجرز“ کی جو چند کاپیاں میرے پاس تھیں وہ گھر کی شفٹنگ میں گم ہو گئیں۔ کم و بیش دو دہائیوں سے میرے پاس اپنی پہلی طویل تخلیق کی کوئی کاپی نہ تھی۔ سرورق کی شکل تک یاد نہ تھی۔ آج محسن ڈار نے ”ڈیتھ میسنجرز“ کا ٹائٹل وٹس ایپ کیا تو یہ بھولی بسری باتیں یاد آ گئیں۔ بہت دن ہوئے، محسن واہ کینٹ میں رہتا تھا جب میری اس کے ساتھ قلمی دوستی ہوئی جو سات آٹھ سال بڑی بھرپور چلی۔ ایک دفعہ واہ کینٹ میں اس کے گھر بھی گیا تھا، پھر رابطے ختم ہو گئے۔ اب مدت بعد محسن نے فیس بک پر تلاش کر کے میسج کیا۔ ان دنوں وہ لاہور میں ہے۔

”ڈیتھ میسنجرز“ کا یہ ناول تیتیس برس بعد بھی محسن کے پاس محفوظ ہے۔ اس نے مجھے بھجوانے کی پیش کش کی ہے مگر میں نے کہا تمہارے پاس یہ زیادہ محفوظ ہے۔ مجھے میری پہلی کتاب سے ملانے کا شکریہ محسن۔ سلامت رہو خوش رہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).