سانحہ کوئٹہ پر رپورٹ میں نیا کیا ہے؟


\"\"

مجھے ذاتی طور پر میرے ہمعصر، ہم جماعت، ہم پیالہ و ہم نوالہ دکھ درد کے ساتھیوں کی ایک ساتھ موت کے واقعے پر بننے والے کمیشن پر اطمینان یوں بھی تھا کہ کوئٹہ شہر سے تعلق اور پھر اسی بار اور بنچ سے وابستگی کو قاضی فائز عیسیٰ اپنے ذاتی مفاد اور کسی تعلق پر ہر قیمت پر مقدم رکھیں گے اگر وہ یہ نہ کر پائے تو شاید ان کی واپسی اس شہر میں ان کے لئے باعث شرمندگی ہوگی۔ کوئٹہ میں اٹھنے والے کسی بھی جنازے کے بعد لوگوں کے آپس میں ہونے والی بات چیت سے وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ یہاں کے لوگ مرنے والے کو کیسے یاد رکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے میں نے خود دیکھا ہے یحییٰ بختیار کو کوئی قبائلی تعلق نہ ہونے کے باوجود بار میں آنے پر کیسا احترام دیا جاتا تھا۔ شاید یہ مقام اس شہر سے آنے والے افتخار چوہدری نے کھو دیا جس کی وجہ سے وہ وہاں جانے کا اب خود کو قابل نہیں پاتے۔ فائز عیسیٰ اس شہر میں دوبارہ جانا چاہتے ہیں اس لئے اس نے سچائی کو سامنے لانے میں پس و پیش نہیں کیا۔ سانحہ کوئٹہ کے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو عوام کی رسائی میں رکھنا ایک قابل ستائش عمل ہے جو ایک باوقار جج نے اس رپورٹ کے مندرجات میں ہی یقینی بنایا۔ جب پاکستان کے وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان کو پریس کانفرنس میں سیخ پا ہوتے دیکھا تو میر ی دوست طاہرہ جبین نے پوچھا کہ اس رپورٹ میں ایسا کیا ہے کہ چکری کا چوہدری اس کو ماننے سے انکاری ہے۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ اس رپورٹ میں نیا تو کچھ بھی نہیں اور نہ کوئی ایسی نئی بات ہے جس کو ہم پہلے سے نہیں جانتے مگر ایک یاد دہانی ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے کس قدر زبوں حالی کا شکار ہیں۔

محترم چوہدری نثار کو اپنی شان میں گستاخی کے علاوہ ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اس رپورٹ میں کوئٹہ کے اس حادثے سے زیادہ دیگر باتیں کیوں کی گئی ہیں۔ ان کے اعتراض کا جواب تو اس رپورٹ میں ہی دیا گیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد اور تنظیموں کا تعلق کوئٹہ کے علاوہ دیگر جگہوں سے بھی ہے اس لئے ان کا ذکرکیے بغیر اس رپورٹ کی تکمیل ممکن نہیں تھی۔ یہ تو اس ملک کا ہر شخص جانتا ہے کہ فرقہ واریت کے بیچ کہاں سے آتے ہیں اور اس فصل کی آبیاری کہاں ہوتی ہے اور کن راستوں سے یہ دوسرے علاقوں میں برآمد کی جاتی ہے۔ انتخابات جیتنے کے لئے کون کس کی حمایت کیسے حاصل کرتا ہے اور حکومت میں آنے کے بعد تحفظ کی کیا ضمانتیں دیتا ہے۔ کن حلقوں کے ساتھ نظریاتی وابستگی ہے اور کس کے ساتھ ذہنی ہم اہنگی ہے۔ کون کس کی موت پر روتا ہے اور کس کی موت پر ہنستا ہے۔ دن میں ہونے والی میٹنگوں کا احوال رات کو کس کو بتایا جاتا ہے، آپریشن کب کس کے خلاف ہوتا ہے اور مذاکرات کب کس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اگر انکوائری کمیشن نے کوئٹہ کے سانحے کی کڑیاں دوسری جگہوں، شخصیات اور اداروں سے ملائی ہیں تو اس میں نیا کیا ہے؟

کمیشن کی رپورٹ میں حکومتوں سے بڑھ کر ریاست کی عملداری کا سوال بین السطور ہے۔ گلستان قلعہ سیف اللہ میں منشیات اور اسلحے کے آزادانہ کاروبار، سرکاری افسران کی غیر قانونی تعیناتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آپس میں کسی رابطے اور تعاون کے طریقہ کار کے فقدان تک یہ رپورٹ ہر بات اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ قانون کی عملداری ناپید ہو چکی ہے۔ یہ بات صرف بلوچستان یا کوئٹہ تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک بشمول آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا ہر جگہ کی حالت دگرگوں ہے۔ میرٹ کی پائمالی کر کے اہم عہدے سنبھالنے والے ریاستی افسران ان کلیدی عہدوں کے لئے نااہل ہونے کے علاوہ اپنے اختیارات کے استعمال کا اخلاقی جواز بھی کھو دیتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے معاشرے میں موجود کالی بھیڑوں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں۔ معزز جج صاحب کی رپورٹ میں یہ بات بھی کوئی نئی نہیں اور نہ ہی یہ کام نیا ہے۔

رپورٹ میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ، صوبائی وزیر داخلہ اور وفاقی وزیر داخلہ کی غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کون سی نئی بات ہے۔ بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ پہلے بھی کراچی اور اسلام آباد میں اپنا وقت زیادہ گزارتے تھے اور کبھی کبھار دورے پر کوئٹہ آیا کرتے تھے۔ مقتدر قوتوں نے ہمیشہ سرداروں اور نوابوں کے ذریعے بلوچستان کے عام لوگوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ان سرداروں کو بھی بخوبی معلوم ہے کہ ان کے بغیر ریاست کا گزارا نہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی جب وزیر اعلیٰ تھے تو ایک رات کو پولیس کےایک بڑے افسر کو نشے کی حالت میں بازار میں گل غپاڑا کرتے دیکھا تو اس کو خود پکڑ کر بند کردیا اور حوالات کی چابی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس کے بعد کسی افسر کو ایسی مستی کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ مگر وہ بگٹی اور تھے۔ نواب زہری کو معاہدے کے نتیجے میں ملنے والی اڈھائی سالہ حکومت میں پانچ سال کی کارکردگی دکھانی ہے جو افسران کے گھروں میں خزینوں کے دریافت ہونے کی شکل میں نظر آرہی ہے۔ رہے چوہدری نثار تو ان کی گردن میں پڑا سریا تو اس رپورٹ پر ان کے رد عمل کی صورت میں نظر آیا۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ موٹر سائیکلوں کو ایک پہیے پر چلانے کے خلاف ہر وقت مصروف عمل رہنے والے چکری کے چوہدری اپنے بغل میں ریاست کی علمداری کی کھلم کھلا دھجیاں اڑانے والے مولوی عبدالعزیز کے کیسے کیسے ترلے کرتے رہے ہیں۔ نہ بلوچستان حکومت کی ناہلی اور سست روی نئی بات ہے اور نہ ہی وفاقی وزیر داخلہ کا بنیاد پرست اور شدت پسند تنظیموں اور شخصیات کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ نیا ہے۔ جتنا وقت وفاقی حکومت نے ایک غریب لڑکی ایان علی کی کردار کشی اور اس کے مقدمے میں لگا یا ہے اس کا آدھا بھی دہشت گردی کے خلاف لگا دیا جاتا تو شاید جسٹس فائز عیسیٰ کو کمیشن بنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

رپورٹ کے مندرجات سے صاف واضح ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک جج کے سامنے کیا چیز مانع تھی۔ اگر اس کی رپورٹ کو ایک عام چوہدری اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے تو ایسے میں اصلی نمبرداروں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہوتی تو جانے وہ کیا سمجھتے۔ وفاقی وزیر کا کالعدم تنظیموں کے عہدیداروں اور ممبران سے ملنا واقعی جائز نہیں مگر دفاع پاکستان کونسل کس کی ایما پر بنائی گئی ہے اور اس کے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما ہیں اس کا بھی ذکر ہوتا تو بہتر ہوتا۔ اسلام آباد میں کھلے عام جلسہ منعقد کرنے والے دفاع پاکستان کے راہنماؤں سے ملاقات کرنے والے چوہدری نثار کی حکومت نے شیڈول 4 اور نیکٹا کو کن کن کے خلاف استعمال کیا ہے اس کا بھی ذکر ہوتا تو بہتر ہوتا۔ شدت پسندی کے خلاف جس بیانیے کا ذکر کیا گیا ہے اس کے وجود میں نہ آنے اور اس کے اظہاریے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی دوری کے لئے بھی کوئی جامعہ سفارشات دی جاتیں تو کم از کم حکومت ان پر عملدراآمد کرنے پر مجبور ہو جاتی۔
کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ موجودہ حالات میں حکومت اور غیر حکومتی ادروں کے لئے بانگ درا کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کیا گیا تو کم از کم ادارہ جاتی کمزوریوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ سانحہ کوئٹہ جیسے واقعات ائندہ نہیں ہوں گے تاہم اس رپورٹ پر عمل درآمد سے ایسے واقعات کے بعد جوابی اقدامات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اگر اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو اس ملک میں ماضی میں بننے والے دیگر کمیشنوں کی رپورٹوں کے طاقچے میں ایک اور رپورٹ کے اضافہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments