کیا پی ڈی ایم راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ کر سکتی ہے؟


کہا جارہا ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلی کے لئے شروع کی گئی تحریک میں پہلا راؤنڈ حکومت نے جیت لیا ہے۔ پی ڈی ایم اندرونی اختلافات کا شکار ہے تو دوسری طرف یہ بھی واضح ہؤا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ ایک ہی پیج پر ہیں۔ تاہم یہ اس صورت حال پر قائم کی جانے والی ایک رائے ہے جسے سرکاری میڈیا اور ترجمانوں کی مسلسل کاوشوں سے حقیقت حال ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اپوزیشن نے یہ احتجاج منتخب نمائیندوں کی ’خود مختاری‘ اور حکومت سازی میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت ختم کروانے کے لئے شروع کیا ہے۔ یہ بڑا اور مشکل ہدف چند ہفتوں یا مہینوں میں پورا نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے اگر اپوزیشن جماعتوں میں اس بات پر سنجیدہ مکالمہ ہورہا ہے کہ مستقبل قریب میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ اور فوری طور سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی متعدد نشستوں پر ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے، یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ پی ڈی ایم جلد ہی سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں فیصلہ بھی کرسکتی ہے۔ حکومت کے نمائیندے ان فیصلوں کو اپوزیشن کی پسپائی کہتے ہوئے اسے اپنے بیانیہ کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

یہ بیانیہ کسی سیاسی ڈاکٹرائن پر استوار نہیں ہے بلکہ اپوزیشن لیڈروں کے کردار کے بارے میں حکومت کی رائے اور اتحاد میں شامل مختلف سیاسی پارٹیوں کے باہمی اختلافات کی بنیاد پر جاری کئے گئے بیانات کو حکومت کے سیاسی بیانیہ کا نام دے کر فروخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ مؤقف تین نکات پر استوار رہا ہے۔ 1: کرپٹ لیڈروں کو این آر او نہیں دیا جائے گا ۔ 2: پی ڈی ایم کے ارکان اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیں گے۔ 3: پیپلز پارٹی کسی صورت سندھ کی حکومت سے دست بردار نہیں ہو گی۔

حکومت انہی نکات کو بنیاد بنا کر اپنی کامیابی اور اپوزیشن کی ہزیمت کا تخمینہ لگانے کی کوشش کررہی ہے۔ اسی لئے آج صبح وزیر اعظم ہاؤس میں میڈیا ترجمانوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے دعویٰ کیا کہ پی ڈی ایم اپنی موت آپ مرچکی ہے۔ اب سرکاری نمائیندوں کو میڈیا پر پوری قوت سے ا پوزیشن پر حملہ آور ہونا چاہئے۔ اس بیان کے حوالے سے تو یہ پوچھنا چاہئے کہ اگر واقعی حکومت مخالف احتجاج سے حکومت کو لاحق خطرہ ختم ہوگیا ہے تو وزیر اعظم اپنے ترجمانوں کو اپوزیشن کے ’بخیے ادھیڑنے‘ کا حکم دینے کی بجائے ، ان وزیروں مشیروں سے یہ کیوں نہیں کہا کہ فی الوقت اپوزیشن کی طرف سے ڈالے گئے دباؤ کا زور توڑ دیا گیا ہے، اب سب کو مل کر عوامی مسائل کے خاتمہ کے لئے کام پر توجہ دینی چاہئے تاکہ حکومتی کارکردگی کے بارے میں اٹھنے والے شبہات ختم ہوں اور عوام کو کسی حد تک ریلیف مل سکے۔ ظاہر ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان بھی جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم مسلسل ان کی حکومت کے لئے سنگین سیاسی خطرہ کے طور پر موجود ہے۔

پی ڈی ایم کو تحریک انصاف اور حکومت کے لئے خطرہ سمجھنے کے عوامل کا سراغ لگانے کے لئے کسی خاص تحقیقی مشقت اور عرق ریزی کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ یہ دیکھنا ہی کافی ہوگا کہ حکومت کی تمام تر خواہش و کوشش کے باوجود پیپلز پارٹی ابھی تک پاکستان جمہوری تحریک کا حصہ ہے اور عملی طور سے سرکاری نمائیندوں کے یہ دعوے ثابت نہیں ہوسکے کہ پیپلز پارٹی نے علیحدہ حکمت عملی بنائی ہوئی ہے۔ اور اس کا سیاسی راستہ انہی عناصر کی اشیرباد حاصل کرنا ہے جن کے خلاف نواز شریف نے اپنا ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ استوار کیا ہے۔ ماضی میں صرف پیپلز پارٹی ہی نے نہیں بلکہ اتحاد میں شامل سبھی پارٹیوں نے اس قسم کی سودے بازی کی ہے ۔ اس حوالے سے ایسے اندازے سو فیصد غلط قرار نہیں دیے جاسکتے لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے جس طرح تمام سیاسی مخالفین کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے دشمنی کا رشتہ بنایا ہے، جب تک اس میں کوئی مناسب اور نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی ، ممکنہ خواہش کے باوجود پیپلز پارٹی اپوزیشن اتحاد سے راستہ علیحدہ نہیں کرسکتی ۔ البتہ دوسری پارٹیوں کو حکمت عملی میں مناسب تبدیلی کرنے پر ضرور قائل کرسکتی ہے۔ فی الوقت یہی صورت حال مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔

حکومت کا دوسرا مؤقف یہ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف اور مریم نواز کے انتہا پسندانہ بیانیہ کے ذریعے ہائی جیک کرلیا گیا ہے۔ پارٹی کے متعدد سنجیدہ اور سینئر ارکان جن میں شہباز شریف بھی شامل ہیں، اس حکمت عملی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اسی بنیاد پر کبھی فارورڈ بلاک بننے کی بات کی جاتی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ جلد ہی مسلم لیگ (ش) بننے والی ہے۔ یعنی شہباز شریف اپنے بھائی سے راستہ علیحدہ کرکے اپنا دھڑا بنالیں گے اور نواز شریف کی ’سیاسی انتہا پسندی‘ سے علی الاعلان لاتعلقی ظاہر کردیں گے۔ وزیر اعظم نے تو صرف مسلم لیگ (ن) میں ہی نہیں بلکہ اتحاد میں شامل متعدد پارٹیوں میں فارورڈ بلاک بننے پیش گوئی کی تھی۔ جمیعت علمائے اسلام (ف) میں سامنے آنے والے انتشار کو بنیاد بنا کر اس مؤقف کی تائید فراہم کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ تاہم ابھی تک مسلم لیگ (ن) میں کسی واضح انتشار کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ اگر شہباز شریف اپنا سیاسی دھڑا بنانے پر راضی ہوگئے اور اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں تو اسٹبلشمنٹ کو عمران خان کا زیادہ کارآمد متبادل فراہم ہوجائے گا۔ اس تناظر میں شہباز کی حراست اور ان پر سرکاری ترجمانوں کے حملے جاری رہتے ہیں۔ عمران خان کبھی بھی شہباز شریف کو سیاسی طور سے مضبوط دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ انہیں اپنا ’حقیقی سیاسی حریف‘ سمجھتے ہیں۔

ان سارے سیاسی اندازوں میں دو ہی نکات پر اصرار کیا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ اپوزیشن کا مسئلہ کرپشن مقدمات سے نجات حاصل کرنے کے لئے حکومت کو دباؤ میں لانا ہے اور اگر عمران خان یہ بات نہیں مانتے تو کسی ایسے سیاسی انتظام کے لئے قوت استعمال کی جائے جس میں اپوزیشن جماعتوں کو حکومت سازی کا موقع مل جائے۔ اپوزیشن لیڈروں کو عمران خان یا تحریک انصاف کی حکومت سے ایسی سہولت ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ تحریک انصاف تو عمومی پارلیمانی معاملات میں بھی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مواصلت و مفاہمت پر راضی نہیں ہوتی۔ اپوزیشن لیڈر اتنی سیاسی سوجھ بوجھ تو رکھتے ہیں کہ وہ جان سکیں کہ تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاست کرپشن کے بیانیہ پر استوار ہے۔ وہ اس میں لچک دکھائیں تو ان کی سیاست اور پاپولر بیس کا بیک وقت خاتمہ ہوجائے گا۔ اس لئے اپوزیشن عمران خان سے این آر او قسم کے کسی معاہدہ کی توقع نہیں رکھتی۔

سیاسی اقتدار کے لئے عمران خان کو وزارت عظمی سے محروم کرنا ضرور ایک قابل فہم نکتہ ہوسکتا ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کی سیاسی حکمت عملی کو چیلنج کرتے ہوئے تمام اپوزیشن پارٹیاں موجودہ احتجاج کو اس نہج پر لے آئی ہیں کہ اب وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتیں۔ عمران خان کے پاس یہ موقع ضرور تھا اور شاید بدستور موجود ہو کہ وہ خود کو فوج کا نمائیندہ کہنے اور اس کے سیاسی عزائم کا پشتیبان ثابت کرنے کی بجائے ، اپوزیشن کے اس اصولی سیاسی مؤقف سے اتفاق کرتے کہ ملکی سیاسی معاملات میں عسکری اداروں کی مداخلت بند ہونی چاہئے۔ اس طریقہ سے ملک میں دو واضح دھڑے سامنے آتے ۔ ایک طر ف سیاسی پارٹیاں باہمی اختلافات کے باوجود اس ایک نکتہ پر متحد ہوتیں اور دوسری طرف اسٹبلشمنٹ کا طریقہ کار اور خواہش ہوتی۔ ایسے میں اسٹبلشمنٹ کے پاس اختیارات کے غیر آئینی استعمال سے گریز کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ اسٹبلشمنٹ کی کامیابی کا صرف یہی راز ہے کہ اسے ہر دور میں کوئی ’تحریک انصاف یا عمران خان ‘ مل جاتا ہے۔ اس کے باوجود پی ڈی ایم کی موجودہ تحریک اس حوالے سے مختلف ہے کہ اس میں پہلی بار براہ راست اسٹبلشمنٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اپوزیشن کا بنیادی مطالبہ ہی ملک کے سیاسی انتظام میں عسکری اداروں کی مداخلت کے خلاف ہے جسے مقبول عام لہجہ میں وزیر اعظم کو نامزد کرنے والی قوتیں کہا گیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے چند روز پہلے لاہور میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ دیکھنا ہوگا کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جائے یا راولپنڈی جانا بہتر ہوگا‘۔ اس بیان سے اس کے علاوہ کوئی مفہوم اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ اپوزیشن کا احتجاج موجودہ حکومت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس مزاج اور طریقہ کار کے خلاف ہے جس کے تحت انتخابات کو داغدار کیا جاتا ہے اور کچھ غیر منتخب عناصر فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کا آئیندہ وزیر اعظم کون ہوگا۔ اپوزیشن اس جد و جہد کا عزم ظاہر کرنے کے بعد اس سے پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اب یہ سوال غیر اہم ہوچکا ہے کہ پی ڈی ایم میں اختلافات کی نوعیت کیا ہے۔

 اب یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ کیا اپوزیشن لیڈر واقعی راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ کا حوصلہ کرسکتے ہیں۔ اور اگر یہ اعلان ہوگا تو اس پر روالپنڈی کا ردعمل کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی احتجاج میں کسی بھی تعطل کو فتح شکست سمجھنے کی بجائے، اس دوران کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرنا بہتر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali