وبا سے مچھ تک: ہم کبھی نہیں سدھریں گے


سال 2020 ماسک، سینٹائزر، ہاتھ دھونا، فاصلہ رکھنا کا تحفہ دے کر ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچ کی طرح گزر بھی گیا۔

عجب تھا سال عجب بے دلی کی صورت تھی
رتوں کو تکتی ہوئی حیرتوں میں حسرت تھی

کووڈ 19 ایک جان لیوا اور اذیت ناک حقیقت ہے، نہ جانے کتنے پیارے ہم سے جدا ہو گئے، اس ظالم نے بزرگوں کو چھوڑا نہ جوانوں کو بخشا، جب کسی کے انتقال کی خبر ملتی خوف کی ایک یخ لہر ریڑھ کی ہڈی سے دماغ تک دوڑ جاتی اور لب پر یہی دعا ہوتی اللہ سب کو محفوظ رکھے۔

نئے سال بیس اکیس میں بھی اس وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وبا کی دوسری لہر اور شدت سے حملہ آور ہوئی ہے۔ ساری دنیا کے ممالک اس بلا کے عذاب سے جوج رہے ہیں۔ معاشی، معاشرتی، ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ تجارتی، سفارتی، سفری، تعلیمی نظام بدل گئے ہیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہمارے گھر آفس اور اسکول میں بدل جائیں گے۔ آن لائن سارے کام ہوں گے، خریداری سے لے کر اور دوسرے کام سب انٹرنیٹ کے مرہون منت ہوں گے۔ انٹرنیٹ کی اہمیت سو گنا بڑھ گئی ہے، چوبیس گھنٹے نیٹ آن رہنا ضروری ہو گیا۔ سب کام چل رہے ہیں لیکن دل ڈھونڈتا ہے فرصت کے رات دن، کاش وہ دن پلٹ آئیں، ان پرندوں کی طرح جو موسم کی سختی کی وجہ سے اپنے علاقوں سے کوچ کر جاتے ہیں اور موسم بہتر ہوتے ہی واپس آ جاتے ہیں۔

اس سب کے باوجود ہم پاکستانی اب بھی سنجیدہ نہیں ہوئے ہیں اور اسی بے ڈھب انداز سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ جلسے جلوس، اجتماعات، تفریحات سب کر رہے ہیں، ملک کے حالات بھی پہلے جیسے ہی ہیں بلکہ بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ نئے سال پر وہی ہلا گلا، فائرنگ سب کچھ نارمل ہے، اسی طرح تکلیف دہ واقعات ہو رہے ہیں۔ بے گناہ نوجوانوں کو دہشت گرد بنا کر مارا جا رہا ہے، جوان بیٹوں کے جنازے بوڑھے کاندھوں پر اٹھ رہے ہیں۔ اسلام آباد کیسے ایک اکیس سالہ نوجوان کو گاڑی نہ روکنے پر بائیس گولیوں سے بھون ڈالا، ان پولیس والوں کی گولیاں ان پر کیوں نہیں برستیں جو معصوم بچیوں کی عزت لوٹتے ہیں، ڈکیتیاں کرتے ہیں۔ اس وقت ثبوت، گواہ ڈھونڈنے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی کسی جرائم پیشہ کو تو ایسے گولیوں سے نہیں چھلنی کیا جیسے اسلام آباد میں اس جوان کو مارا۔

نئے سال کو کچھ دن ہی گزرے تھے کہ مچھ میں غریب مزدور کان کنوں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر مار دیا گیا، کچھ کو ذبح بھی کیا گیا، داعش نے ذمہ داری قبول کرلی، آپ بیانات داغنے پر مقرر ہیں، کام کچھ نہیں، وہی گھسے پٹے بیانات ”بیرونی دشمن عدم استحکام کے لیے مسلسل وار کر رہا ہے“ ، ”دشمن کے مذموم عزائم ناکام ہوں گے“ ارے اللہ کے بندو ان بیان بازیوں سے کیا وہ بے قصور مقتول واپس آ جائیں گے جو اپنے پیاروں کو روتا چھوڑ گئے۔

سب کو مارنے والوں کا بھی پتہ ہے اور مروانے والوں کا بھی علم ہے پھر دیر کیوں؟ منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے۔ مچھ واقعہ سے پہلے بھی چن چن کر بے گناہوں کو مارا جا چکا ہے۔ اب نئے سال کا بھی اس اندوہناک سانحے سے آغاز ہوا ہے۔ سرد موسم میں مائیں بہنیں بیٹیاں کھلے آسمان تلے جنازے لیے بیٹھی ہیں، انصاف کی منتظر، کیا کچھ شنوائی ہوگی؟ ایک لڑکی کا بیان خون کے آنسو رلا رہا ہے ”کہ ہم چھ بہنیں ہیں ہمارے گھر کے سارے مرد ختم ہو چکے ہیں ہمیں ہی جنازے اٹھانے ہیں اور ہم اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک انصاف نہ ملے“ ۔ غم و تکلیف کی انتہا ہے کیا انصاف مل پائے گا؟ نہیں، کیونکہ یہ پاکستان ہے، یہاں کب کس کے قاتل پکڑے گئے ہیں، کب انصاف ملا ہے جو اب مل جائے گا۔ پہلے بھی ایسے واقعات میں نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا ہے۔

پولیس گردی ہو، داعش گردی ہو یا دہشت گردی، ہم سب اس گردی میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور اس سے نکلنا محال ہے۔ یہ نظام یونہی چلتا رہے گا اور بے گناہ مرتے رہیں گے۔ ہم وہ بے حس ہیں جنھیں عالمی وبا کی خطرناکی اور خوفناکی بھی نہیں ڈرا سکی، ہم نے تو وبا کو مذاق سمجھ رکھا ہے۔ ویکسین کے لیے بھی نئی نئی توجیہات پیش کر رہے ہیں، ہم کبھی نہیں سدھریں گے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئے سال کے آغاز سے ہی کچھ سخت اقدامات کیے جاتے، ویکسین کے حصول کے لیے ہاتھ پاؤں مارے جاتے لیکن ہم تو امداد میں ملنے والی ویکسین پر ہی اکتفاء کیے بیٹھے ہیں، سارے کام یونہی چل رہے ہیں سوائے تعلیمی اداروں کی بندش کے۔ ہمیں اس سال کو نئے انداز سے گزارنا ہو گا اگر ہم چاہیں احتیاط، غذا، ورزش، ہجوم سے دوری، کاش سمجھ میں آ جائیں یہ باتیں کیونکہ کوئی ذہنی طور پر اس نئے ورلڈ آرڈر کو ماننے پر تیار نہیں۔ ہمیں اپنی نسلیں بچانی ہیں تو سمجھنا ہوگا اور اس وبا سے لڑنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).