ٹو فنگر ٹیسٹ اور میرا ذاتی تجربہ


ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھو، ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر مت بیٹھو، تم کمر پر ہاتھ رکھ کر کیوں کھڑی ہو؟ آہستہ چلو، سیڑھیاں آرام سے اترا کرو، اچھل کود مت کرو بڑی ہو گئی ہو، وزن مت اٹھاؤ، سائیکل مت چلاؤ گر جاؤ گی تو چوٹ لگ جائے گی، بارش ہے زمین پر پاؤں دبا دبا کر رکھنا، تانگے پر ذرا سنبھل کر بیٹھنا، موٹر بائیک پر دونوں طرف ٹانگیں کر کے نہیں بیٹھنا، ماہواری کے دوران پیروں کے بل زیادہ دیر مت بیٹھنا، رقص نہیں کرنا اب تم بڑی ہو گئی ہو، ٹخنوں کو چھوتی ہوئی شلوار پہنا کرو اب۔

یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہم تمام لڑکیاں ہوش سنبھالتے سنتی ہیں اور اس پر سختی سے عمل کرنے کے لیے اپنی چٹیا بھی نام نہاد عزت کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں دیتی ہیں۔ میں نے اپنی تیئس سالہ زندگی میں یہ سب سنا بھی اور اس پر ڈٹ کر عمل بھی کیا اور نافرمانی کی صورت میں بالکل ایسے ہوا جیسے کسی مدرسے کے کمرہ جماعت میں ایک ٹانگ نیچے بچھائی جاتی ہے اور ایک ٹانگ کو موڑ کر کھڑا کر کے اس پر ہاتھ جما کر پڑھتے جانا ہے، بس اگر ذرا سی بھی تشریف بچھی ہوئی ٹانگ سے سرکی تو آپ کی کمر پر پلاسٹک کے پائپ سے لال مہر ثبت کی جائے گی جو وقت گزرنے کے ساتھ نیلی ہو جائے گی اور پھر اس پر دوزخ کی آگ حرام ہو جائے گی۔ بالکل اسی طرح ہم لڑکیوں کو وہ تمام پریکٹس کروائی جاتی ہے جس سے ہمارے کنوارے پن کا ثبوت ایک سفید چادر پر اپنی پوری آب و تاب سے چمک سکے اوراس چادر پر یہ ثبوت (لال دھبہ ) شرماتے ہوئے ہمارے مجازی خدا کو ہماری پاک دامنی کا گھونگھٹ اتارنے کا اجازت نامہ دے۔

اس معاشرے میں سب سے پہلی غلطی جو ہمارے حصے میں ڈال دی گئی ہے وہ ہے لڑکی ہونا اور پھر اس پر ماہواری جیسا ایٹم بم بھی ہمارے حصے میں آتا ہے۔ ماہواری تو وہ ’قبیح چیز‘  ہے کہ ہمارے جسم کے اندر جس کے ہونے سے ہم ناپاک ہیں، ہر بائیس دن بعد یا تیس دن بعد اور کبھی تو پندرہ دن بعد اپنی وجائنہ سے خون کی وافر مقدار کے نکل جانے پر بھی ہم قصور وار ہیں۔ ماہواری سے جڑی وہ تمام پیچیدگیاں اور حقائق جو ہم لڑکیوں سے حیا کے نام پر چھپائے جاتے ہیں اس سے ہر لڑکی اپنی روزمرہ زندگی میں کتنی تکلیف اٹھا رہی ہے، اس کا علم اگر مردوں کو ہو جائے تو وہ اپنے کمرے کے کسی کونے میں بیٹھ کر کپکپاتے رہیں گے۔

مردوں کے بارے میں یہاں اس لیے لکھ رہی ہوں کہ ان ہی کی غیرت کی وجہ سے ہمیں حیا کا درس پڑھایا جاتا ہے، انہی کی پدرسری سوچ کے ماتحت ہم لڑکیوں کی بولنے، سننے اور سمجھنے کی آزادی کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ ہم لڑکیوں کو اگر بارہ سے گیارہ سال کی عمر میں ماہواری شروع ہو جاتی ہے تو ہمیں اسے چھپانے کو کہا جاتا ہے۔

ذرا سوچیں آپ کی عمر گیارہ سے بارہ سال ہے، آپ اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل کود کر رہے ہیں اور آپ کی شلوار پر ماہواری کا پہلا لال دھبہ لگ جاتا ہے، آپ گھرپہنچو تو والدہ وہ دھبہ دیکھ کر گھبراتے ہوئے اپنے منہ پر ہاتھ رکھتی ہے اور آپ کا بازو زور سے پکڑتے ہوئے آپ کو دروازے کے پیچھے لے جایا جاتا اور کہا جائے کہ تم اب بڑی ہو گئی ہو اور خبر دار جو اس خون کے بارے میں کسی کو بتایا تو آپ کے ہوش تو اس لفظ پر اڑ جائیں گے کہ کیسا خون؟کون سا خون؟

ایک سوئی کی نوک چبنے سے خون نکلے تو ماں تڑپ کر سینے لگا لیتی تھی اور آج کہہ رہی کہ اس خون کے بارے میں کسی کو بتانا نہیں۔ آپ اسی صدمے اور بے یقینی میں ہوں اور آپ کو پھر مزید بتایا جائے کہ اب یہ خون ہر مہینے آئے گا اور تم نماز نہیں پڑھو گی، باہر نہیں جایا کرو گی، لڑکیوں کے ساتھ کھیل کود ختم کر دو، اپنے باپ کے سامنے ان دنوں کم جانا اور یہ لو یہ زیر جامہ پہنو، اب اور ساتھ یہ کپڑا بھی رکھ لو تاکہ تمہاری شلوار گندی نہ ہو اور ہاں میرے ساتھ اب باورچی خانے میں کام کروایا کرو، کھانا پکانا سیکھو، تم اب بڑی ہو گئی ہو۔

اس تمام تصور میں ابھی میں نے ماہواری کا درد، ماہواری کو چھپانے کی الٹی سیدھی ترغیبات اور ماہواری کو چھپائے رکھنے کا جو ذہنی دباؤ ہے وہ نہیں لکھا تاکہ آپ کے ہوش سلامت رہیں۔ ماہواری سے پہلے اور بعد کی کچھ پیچیدگیاں جو متوازن غذا کی کمی، معاشرتی دباؤ اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہر لڑکی کے جسم میں مختلف تبدیلیوں کی صورت میں آتی ہیں، ان کے بارے میں ہم لڑکیوں کو صرف پریشان ہونے اور چھپانے کا حق ہے نہ کہ اس کے بارے میں جاننے کا کوئی حق ہے۔

اس پر بات کرنا تو سخت گناہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا جاتا ہے۔ مجھے پہلی بار ماہواری ہوئی تو میری عمر سولہ سال تھی، میں بھی ہکا بکا رہ گئی کہ یہ کیا ہو گیا مجھ سے، میری والدہ نے جب یہ سب دیکھا تو انہوں نے یہی کہا کہ کسی کو بتانا نہیں ورنہ تمہاری پڑھائی روک دیں گے۔ میرے کندھے پر ہاتھ زور سے جماتے ہوئے ایک چھوٹا سا کتابچہ میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا یہ پڑھ لو اس پر عمل کرنا اور صفائی کا خاص خیال رکھنا۔

یہ ہدایات دے کر وہ اپنے سسرالیوں کی خدمت کے لیے باورچی خانہ کی طرف ہجرت کر گئیں۔ میری والدہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں، ان کے پاس وہ جادوئی کتابچہ کہاں سے آیا، مجھے نہیں معلوم مگر اس کتابچے کو میں نے سینے سے لگائے رکھا، اس میں ماہواری کے متعلق تمام ہدایات درج تھیں کہ کیسے پیڈز کو استعمال میں لانا ہے، کس طرح ڈسپوز کرنا ہے اور کس طرح بلوغت کے بالوں (غیر ضروری بالوں ) کو صاف کرنا ہوتا ہے۔ پہلی ماہواری کے سات دن بعد جو پہلا غسل فرمانے کے لیے میں گئی تو تب بھی وہ کتابچہ میرے ساتھ تھا۔

اتنے اچھے تعاون اور آگاہی کے باوجود میرے اوپر یہ دباؤ تھا کہ میری ماہواری کا کسی کو علم نہ ہو۔ اکثر لڑکیوں کو ماہواری کے بعد غیر متوازن غذا، معاشرتی اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے لیکیوریا جیسا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ جس میں چڑچڑاپن، بھوک کی کمی، کمر درد اور وجائنہ کے راستے سے سفید مادہ خارج ہوتا ہے اور لڑکیاں اس پر بھی پریشان رہتی ہیں اور یہ پریشانی ہی اس مرض کو بڑھانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور بد قسمتی سے میں اس مرض کی  لمبے عرصے تک شکار رہی، جب میری والدہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے میری تائی جان کو میری ماہواری کے بارے میں بتایا اور مزید بتایا کہ اس کو لیکیوریا کا مرض بھی ہے۔ تائی جان نے مبارک باد کے ساتھ میری والدہ سے کہا اس کو اپنی خاندانی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔ جس کے پاس میرے خاندان کے بچوں نے آنکھ کھولی تھی۔ میری والدہ مجھے والد کے ساتھ اس ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔

وہاں میں دیکھتی ہوں کہ میری دادی کی عمر کی ڈاکٹر اپنے مریضوں سے محو گفتگو ہیں، والدہ کو دیکھتے ہی وہ آنے کا مقصد پوچھتی ہیں تو میری والدہ ادھر ادھر دیکھ کر ہچکچاتے ہوئے میرے بارے میں بتا دیتی ہیں ۔ ساری بات غور سے سننے پر وہ ڈاکٹر مجھے دوسرے کمرے میں جانے کا اشارہ کرتی ہیں تو میں چلی جاتی ہوں کچھ دیر بعد ڈاکٹر آتی ہیں اور کمرے میں لٹکا ہوا پردہ گرا کر ایک چھوٹی میز پر بیٹھ جاتی ہیں اور مجھے اپنی گود میں بٹھا کر میری شلوار اتارنے کے بعد اپنی دو انگلیاں میری وجائنہ میں ڈالتی ہے اور دو تین بار اسی طرح کرتی ہے، اس کے بعد مجھے وہ اپنے ساتھ باہر لے آتی ہے اور امی سے کہتی ہے اس کی عمر بہت کم ہے اس کو بس دوا دیتی ہوں، ٹھیک ہو جائے گی۔

اب جب میں شعوری حیثیت رکھتی ہوں اور وہ لمحہ یاد کرتی ہوں تو خود سے سوال کرتی ہوں کہ وہ سب جو ہوا وہ کیا تھا؟ اس وقت بھی وہ میرے لیے ایسا حادثہ تھا جسے میں آج بھی، آنکھیں بند کر کے اپنے خیال سے گزار دینا چاہتی ہوں مگر نہیں کر پاتی۔ کوئی بھی کسی انسان کے ساتھ ایسے کیسے کر سکتا ہے؟ مجھے اس ڈاکٹر سے شدید نفرت ہوتی ہے، خوف آتا ہے۔ ایسی کون سی بیماری ہے جس کی جانچ کے لیے آپ لڑکی کی وجائنہ میں انگلیاں ڈال دیتے ہو پھر وہ عورت ہو یا مرد یہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔

اصولی طور پر کسی بھی مریض کے چیک اپ سے پہلے اس کی آمادگی کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ وہ اپنے چیک اپ کے لیے اس ڈاکٹر سے تسلی کی امید رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس سے آگے دوسری بات کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے۔ والدین کو پتہ ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنے بچے کو کسی کے پاس اکیلا نہیں چھوڑنا بھلے وہ ڈاکٹر ہو۔ میری والدہ نے اس کے لیے مجھ سے معذرت بھی کی ہے اور باقی ماؤں کو ہمیشہ ڈاکٹرز کے سر پر موجود رہنے کی تلقین بھی کرتی رہتی ہیں۔

میں اس وقت ایک مریض کی حیثیت سے گئی تھی اور اس ڈاکٹر نے میرا ٹو فنگر ٹیسٹ نہیں معلوم کس جانچ کی خاطر کیا یا پھر اس کے کیا ارادے تھے مگر مجھے وہ اس کا فنگر ٹیسٹ آج بھی تکلیف دیتا ہے، بہت برا محسوس کرتی ہوں، کاش اس احساس سے نکلنے کا کوئی مرہم ہو۔ ایک ایسی خاتون جس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہو اور پھر اس کا ٹو فنگر ٹیسٹ کیا جانا کس قدر تکلیف دہ عمل ہوتا ہو گا اس کو میں بہت قریب سے محسوس کر سکتی ہوں اور اسی ٹو فنگر ٹیسٹ کی بنیاد پر اس کے کردار کا خلاصہ پیش کر دینا کس قدر گھٹیا عمل ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے ٹو فنگر ٹیسٹ کو ختم کر کے غیر آئینی قرار دے کر انتہائی مثبت پیش قدمی کی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام سرکاری و غیر سرکاری اسپتالوں میں اس کی آگاہی کے لیے ایک اور مثبت قدم اٹھائے تاکہ اس گھٹن زدہ معاشرے میں کہیں سے تو ہمیں تحفظ کی کوئی کھڑکی کھلی ہوئی نظر آئے، ماہواری کے متعلق بنائے گئے فرسودہ متھس کو ختم کیا جائے۔

اگر میں ماں ہوتی تو اپنی بیٹی کی پہلی ماہواری پر پیریڈز پارٹی منعقد کرتی جس میں میری بیٹی،  اس کا باپ اور میں ہوتے اور اپنی بیٹی کو مل کر تمام فرسودہ باتوں پر ایک ایک چراغ پانی میں چھوڑتے اور اس سے کہتے کہ یہ وہ تمام متھس ہیں جو یہ معاشرہ تم پر لاگو کرے گا مگر تم نے اپنی آزاد اڑان سے یہ چراغ بجھا دینا ہے اور اپنی روشنی خود بنانی ہے جو تمہاری خوشی اور آزادی کو روشن رکھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).