آزاد کشمیر میں انتخابات: اسلام آباد کی پالیسی کیا ہو گی؟


وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے 5 جنوری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کمیشن برائے انڈیا پاکستان کی قراردادوں کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی ناقص کشمیر پالیسی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے آخر میں کہا کہ ”مجھے معلوم ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں میرے ساتھ کیا ہو گا، لیکن میں کھڑا ہوں“ ۔ اس سے پہلے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں اسلام آباد کی مداخلت نہیں ہونے دی جائے گی اور اگر پھر بھی ایسا کیا گیا تو یہ کشمیر کاز ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی بڑے نقصانات کا موجب ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کا ڈرامہ آزاد کشمیر میں نہیں چلنے دیا جائے گا۔ چند ہی دن قبل آزاد کشمیر کی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ایک اہم سیاسی شخصیت سے ملاقات میں دریافت کیا کہ کیا عمران خان حکومت آزاد کشمیر کے الیکشن کے حوالے سے ”دیدہ و نادیدہ“ قوتوں کا استعمال کب شروع کرے گی؟ انہوں نے کہا کہ ’پی ڈی ایم‘ کی تحریک کی وجہ سے عمران خان حکومت خود پھنس کر رہ گئی ہے، تاہم امید ہے کہ اپریل، مئی سے آزاد کشمیر کے الیکشن جیتنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے جائیں گے۔

گلگت بلتستان اسمبلی الیکشن کے اکثر حلقوں میں جیتنے والے اکثر امیداروں نے چار سے پانچ، چھ ہزار ووٹ لیے جبکہ دس ہزار سے زائد ووٹ لینے والے چند ہی حلقے ہیں۔ گلگت میں الیکشن سے پہلے عبوری حکومت کے قیام کا طریقہ کار ہے جبکہ آزاد کشمیر میں پانچ سال پورے کرنے والی حکومت ہی نئے الیکشن کراتی ہے۔ اس طرح اسلام آباد کے لیے گلگت بلتستان کی طرح آزاد کشمیر کے الیکشن میں فضا اتنی ساز گار نہیں ہے کہ پردے میں کام کر لیے جائیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔

آزاد کشمیر اور پاکستان و بیرون ملک مقیم کشمیریوں میں ایک اہم سوال یہ سامنے ہے کہ کیا آزاد کشمیر میں بھی من مانی حکومت قائم کرائی جائے گی؟ اور اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کے کشمیر کاز اور پاکستان کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مقامی، علاقائی اور عالمی ساکھ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ گلگت بلتستان کے الیکشن کے بعد یہ سوال کھڑا ہوا ہے کہ کیا ایسا ہی آزاد کشمیر میں بھی کیا جائے گا؟ گلگت بلتستان اسمبلی کے حالیہ الیکشن دوسری مثال ہے پہلی مثال پاکستان کے 2018 کے الیکشن اور مطلوبہ حکومت کی تشکیل ہے۔

آزاد کشمیر میں گلگت بلتستان کی کہانی دہرانے سے کشمیر کاز اور پاکستان کی ساکھ مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پہ بھی شدید نقصان سے دوچار ہو سکتی ہے جس کے اثرات علاقائی سالمیت پر بھی برے طور مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر آزاد کشمیر کی حاکمیت پر شب خون مارا گیا تو یہ اس بات کا کھلا اعلان ہو گا کہ پاکستان انتظامیہ تقسیم کشمیر کو قطعی حیثیت دینے کے اقدامات میں دلچسپی رکھتی ہے۔

آزادکشمیر میں 2021 کو نئے الیکشن جون یا جولائی میں متوقع ہیں۔ آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کی تیاریاں جاری ہیں، الیکشن ایکٹ 2020 اور نئے رولز کی روشنی میں سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے اور الیکشن کمیشن نے رجسٹریشن کی درخواستیں دینے والی سیاسی جماعتوں سے اکاؤئنٹس تفصیلات طلب کی ہیں اور اس وقت ووٹر فہرستوں کی تیاری کا عمل جاری ہے۔ آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے الیکشنز ایکٹ 2020 کی دفعہ 128 کے تحت حاصل شدہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے 25 سیاسی جماعتیں جن میں آزاد جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، نظام مصطفیٰ کانفرنس، آل کشمیر پارٹی، اللہ توکل پارٹی، جعفریہ سپریم کونسل، جماعت فلاح انسانیت، جمعیت علمائے جموں و کشمیر، جموں کشمیر ڈیموکریٹک پارٹی، جموں کشمیر نیشنل لبریشن لیگ، جموں کشمیر قومی موومنٹ، جموں کشمیر لبریشن لیگ، جموں کشمیر پیپلز پارٹی، جموں کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ، مجلس وحدت المسلمین، مرکزی جمعیت اہلحدیث، مشن کشمیر ٹاسک فورس، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو، پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، صدائے حق پارٹی، تحریک تحفظ انسانی حقوق پارٹی، تحریک لبیک پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف آزاد جموں وکشمیر کو رجسٹرڈ کیا ہے جو آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے سکیں گی۔

یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ آزاد کشمیر کی قد آور شخصیات بھی پاکستانی حکومتوں کی یک طرفہ طور پر تھوپے گئے احکامات کے خلاف سٹینڈ نہ لے سکیں۔ 24 اکتوبر 1947 کو قائم ہونے والی آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کی حکومت اور پاکستان حکومت کے درمیان 28 اپریل 1949 کو ”معاہدہ کراچی“ کا اعلان کیا گیا۔ بقول سردار ابراہیم ( مرحوم) انہوں نے معاہدہ کراچی کی فائل بغیر دستخط کیے واپس بھیج دی تھی لیکن اس کے باوجود ان کے دستخط کے ساتھ معاہدہ جاری کر دیا گیا۔

چودھری غلام عباس نے معاہدہ کراچی پہ اپنے دستخط کے ساتھ ایک مختصر نوٹ میں لکھا کہ انہیں صرف مسلم کانفرنس سے متعلقہ امور پر اتفاق ہے۔ 1974 کا ایکٹ اسلام آباد کی طرف سے یوں تھوپا گیا کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں اس کی منظوری میں ہی عافیت سمجھی گئی۔ اس کے دو تین سال کے اندر آزاد کشمیر حکومت کے ذریعے مزید ترامیم کراتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کو مزید مجبور اور بے بس رکھنے کے اقدامات کیے گئے۔

آزاد کشمیر کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب آزاد کشمیر حکومت کو انتظامی اور مالیاتی طور پر مضبوط بنانے کے لیے 13 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر کی اپنی رائے کے مطابق اقدام کیا گیا۔ اسلام آباد سے آزاد کشمیر حکومت پر مختلف حوالوں سے ایک عرصہ سخت دباؤ ڈالا گیا کہ ان کی طرف سے فراہم کردہ نکات کے مطابق آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات کم کرنے کے لئے 14 ویں آئینی ترمیم کی جائے لیکن وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے تمام تر دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

عمران خان حکومت کی طرف سے بھرپور دباؤ ڈالا گیا کہ آزاد کشمیر حکومت کو حاصل اختیارات کم کرنے اور کشمیر کونسل کو اختیارات واپس منتقل کرنے کے لے  14 ویں آئینی ترمیم منظور کی جائے لیکن وزیر اعظم آزاد کشمیر اور ان کی پارلیمانی پارٹی نے ہر دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے عمران خان حکومت کی ’ڈکٹیشن‘ قبول نہیں کی اور وفاقی حکومت کی من مانی آئینی ترامیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اسلام آباد کی طرف سے تجویز کردہ آئینی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے 14 ویں آئینی ترمیم میں صرف ججز کی تقرری کے معاملے کو موضوع بنایا گیا۔ یہ بھی آزاد کشمیر کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ جب آزاد کشمیر کی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری بیان میں وفاقی حکومت کی طرف سے 14 ویں ترمیم کے مجوزہ نکات کو مسترد کیا گیا ہے۔

آزاد کشمیر کا بجٹ ایک کھرب انتالیس ارب تک لے جانے اور آزاد کشمیر میں گزشتہ 73 سال سے زیادہ ترقیاتی بجٹ دینے اور کئی دیگر اہم اقدامات سے قطع نظر آئینی ترامیم سے آزاد کشمیر کو مالیاتی اور انتظامی طور پر مضبوط بنانا وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت کا ایسا سیاسی کارنامہ ہے جو تاریخ میں ایک منفرد اور نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہ آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ جب کسی حکومت نے اپنی رائے کے مطابق نہایت اہم آئینی ترامیم کی ہیں ورنہ اس سے پہلے معاہدہ کراچی سے لے کر چوہتر کے آئین اور پھر ستتر تک مختلف آئینی ترامیم وفاقی حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر حکومت پر تھوپی جاتی رہی ہیں۔

بڑے لیڈر ہونے اور معاہدہ کراچی سے اتفاق نہ رکھنے کے باوجود وہ معاہدہ تقریباً یک طرفہ طور پر لاگو کر دیا گیا اور اختلاف کے باوجود بڑے لیڈر اس پر صدائے احتجاج بھی بلند نہ کر سکے۔ اب بھی آزاد کشمیر میں ایسے افراد قطار لگائے کھڑے نظر آتے ہیں کہ اگر انہیں آزاد کشمیر حکومت میں لایا جائے تو وہ پاکستان انتظامیہ، وفاقی حکومت کی ہر ہدایت پر انگوٹھا لگانے کو تیار ہوں گے۔

مسلم کانفرنس کی فوج کے سیاسی کردار کی حمایت کی پالیسی اور وزیراعظم عمران خان سے رابطوں کو دیکھتے ہوئے مسلم کانفرنس کا شمار عمران خان کے ایک حلیف کے طور پر کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود مسلم کانفرنس کی قیادت کے لیے آزاد کشمیر میں بیرسٹر سلطان محمود یا کسی اور شخصیت کے پیچھے چلنا بہت مشکل فیصلہ ہو سکتا ہے، اور ابھی تک کے رجحانات سے بھی ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ مسلم کانفرنس کی قیادت آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی مقامی صدارت کے پیچھے چلے گی۔

آزاد کشمیر میں ’پی ٹی آئی‘ نہایت کمزور پوزیشن میں باہمی انتشار کا شکار ہے اور اس امید میں مبتلا ہے کہ غیر مرئی قوتیں گلگت بلتستان اور پاکستان کے الیکشن کی طرح الیکشن جیتنے والے امیدواروں کو مختلف سیاسی جماعتیں چھڑا کر پی ٹی آئی میں شامل کراتے ہوئے آزاد کشمیر کا اقتدار ’پی ٹی آئی‘ کی گود میں ڈال دیں گی ۔ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی سے وابستہ یا اس کے خیر خواہ اسی سیاسی خواب کو مشترکہ طور پر دیکھتے ہوئے آزاد کشمیر کی چند مختلف شخصیات، گروپ ایک دوسرے کا نیچا دکھانے کی کوشش میں ہیں تاکہ آئندہ حکومت پاکستان اور گلگت کی طرح اقتدار ان کی جھولی میں ڈال دے۔

پاکستان میں ’پی ٹی آئی‘ حکومت  نازک اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ ’پی ڈی ایم‘ کے کامیاب جلسوں، اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے آزادانہ، منصفانہ و شفاف الیکشن اور آئین و پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی کے عزم اور اس بیانیے کی ملک بھر میں وسیع حمایت نے عمران خان حکومت کو نازک اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ ہر شعبے کی طرح سیاست میں بھی عمران خان اور ان کے ساتھی یوں ناکام ہیں کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو صرف ایک ہی دلیل ہے کہ ”فوج ہمارے ساتھ ہے“ ۔

ایسی صورتحال سے دوچار ’پی ٹی آئی‘ حکومت کے لیے بہت مشکل ہے کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں مضبوط پوزیشن کے طور پر سامنے آیا جا سکے۔ اگر آزاد کشمیر الیکشن میں پی ٹی آئی مضبوط حیثیت سے مقابلے میں آتی ہے تو اس کا صرف اور صرف ایک ہی مطلب ہو گا کہ فوج ان کی ممد و معاون ہے اور یہ کہ ہندوستان کی مودی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019 کے اقدامات کی روشنی میں تقسیم کشمیر کے لیے اپنی معاونت فراہم کی جار ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).