مچھ سانحہ اور ہزارہ برادری کی سادگی


جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں کوئٹہ میں، 11 کان کنوں کے قتل کے خلاف، ہزارہ برادری کا دھرنا جاری ہے شرکا کا مطالبہ ہے کہ جب تک وزیر اعظم نہیں آئیں گے تب تک لاشوں کی تدفین ہو گی نہ دھرنا ختم ہو گا بہت سے لوگ شاید یہی سوچ رہے ہیں کہ سادگی کی بھی حد ہوتی ہے بھلا یہ بھی کوئی مطالبہ ہوا؟ کیا وزیر اعظم کے آنے سے بے دردی سے قتل کیے جانے والے کان کن زندہ ہو جائیں گے؟ اس سے بڑی سادگی کیا ہو گی کہ لاشیں دفنانے سے انکار کرتے ہوئے سخت سردی میں دھرنا دیا جائے؟

عمرانی حکومت کے نہایت قابل مشیر جناب زلفی بخاری صاحب نے تو ہزارہ برادری کی سادگی کے تناظر میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ وزیر اعظم کے آنے سے ان کو کیا فائدہ ہو گا؟ اور یہ بھی کہ کل کو کہیں اور ایسا واقعہ ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسا ہی مطالبہ کریں گے اور یہ سلسلہ رکے گا نہیں، اتنے مضبوط اور قوی دلائل کے ساتھ بھی جناب ذوالفقار بخاری دھرنا کے شرکا کو اپنے عزیزوں کی لاشیں دفنانے پر آمادہ نہیں کر سکے ورثا کا مسلسل اصرار ہے کہ جب تک وزیر اعظم تشریف نہیں لائیں گے تب تک وہ تدفین نہیں کریں گے جناب ذوالفقار بخاری کی زبان میں اس اصرار کو ورثا کی سادگی نہیں تو اور کیا کہا جائے؟

پی ٹی آئی حکومت کے ذہین وفطین اور نابغہ عصر مشیر اگر ہزارہ برادری کو اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کا کوئی نسخہ بھی بتا دیتے تو ان سادہ لوح لوگوں، سمیت ملک و ملت کا فائدہ ہو جاتا کیونکہ 2011 سے لے کر اب تک ہزارہ مظلوموں کا حال تو یہ ہے کہ وہ با ر بار مر کر بھی ماں کی حیثیت رکھنے والی ریاست کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

جناب زلفی بخاری ایسے نابغہ لوگوں سمیت شاید پوری عمرانی حکومت کی دانست میں ملک کے وزیر اعظم کے دورے کا مطالبہ سادگی ہے کیونکہ ریاست کے کرتا دھرتا لوگوں کی یہ ذمہ داری تھوڑی ہوتی ہے کہ وہ اپنے باشندوں کے قتل عام پر لواحقین کی دلجوئی کریں اور قاتلوں کو پکڑ کر سزا دیں اس طرح کے واقعات پر ریاست اور حکومت کے کرنے کا سب سے بڑا کام یہی ہوتا ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ قتل عام میں ہمارا بیرونی دشمن ملوث ہے سو ہمارے سمارٹ وزیر اعظم اور ان کے زیرک و دانا وزرا نے بیرونی دشمن کی سازشوں کو برملا کر کے اپنا فرض ادا کر دیا ہے آخری اطلاعات تک جناب وزیر اعظم نے ایک ٹویٹ میں دھرنا کے شرکا سے درخواست کی ہے کہ اپنے پیاروں کی لاشوں کو دفنا دیں اور وہ بہت جلد تعزیت کے لئے ان کے پاس آئیں گے گویا جناب وزیر اعظم کی دانست میں دھرنا کے شرکا اپنے محبوب وزیر اعظم کے دیدار کے لئے تڑپ رہے ہیں جیسے ہی وہ ان سے تعزیت کریں گے لواحقین اپنے تمام غم بھول جائیں گے اور وزیر اعظم کا یہ عمل عظیم کارنامہ شمار ہو گا!

شاید ہزارہ برادران جناب وزیر اعظم کے دورے سے یہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ آئیں گے تو ممکن ہے امن نافذ کرنے والے اداروں یا ورثا کی نشان دہی پر شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف کسی بڑی کارروائی کا حکم دیں لیکن جناب وزیر اعظم نے اپنی ٹویٹ میں انڈیا کا نام لئے بغیر کہا ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک فرقہ ورانہ دہشت گردی کو شہ دے رہا ہے اتنے بڑے انکشاف اور کارنامے کے بعد وزیر اعظم کے دورے سے ایسے کسی اقدام کی توقع رکھنا فضول ہے۔

دھرنا کے شرکا جس شدت کے ساتھ جناب وزیر اعظم کے آنے کا مطالبہ دہرا رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر اپنی بے بسی کے جانکاہ احساس کو کم کرنا چاہتے ہیں ذرا سوچیں 2011 سے لے کر اب تک متعدد بار اپنے پیاروں کی لاشوں کو لے کر بیٹھنے والے کتنے ہی ہزارہ افراد اسی طرح کے ظلم کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئے سانحہ مچھ میں قتل ہونے والے افراد بھی یقیناً ہزارہ نسل کشی کے خلاف دیے گئے گزشتہ دھرنوں کا حصہ رہے ہوں گے، موجودہ دھرنا میں، اپنے پیاروں کے جنازوں کے ساتھ بیٹھے مظلوموں کی ذہنی اذیت اور جذباتی کیفت کی درست عکاسی کوئی نفسیات دان ہی کر سکتا ہے شاید یہ بے بس اور ستم دیدہ افراد یہ سوچ رہے ہیں کہ وزیر اعظم ہمارے پاس آ کر ہمیں ذرا جھوٹی تسلی ہی دے دیں کہ آنے والے دنوں میں ہمیں کسی ایسے سانحہ کا شکار نہیں ہونا پڑے گا؟

اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جناب وزیر اعظم کو ہزارہ برادری کے پاس آ کر جھوٹی تسلی تک دینے میں کیا رکاوٹ حائل ہے؟ ہزارہ برادری کے بدقسمت لوگوں کو اب تک ماں کی حیثیت رکھنے والی ریاست نے جھوٹی تسلیوں کے علاوہ دیا ہی کیا ہے ان بد نصیبوں کی مظلومی کا یہ پہلو انتہائی دردناک ہے کہ اب یہ لوگ لاشیں رکھ کر شدید سردی میں اپنے وزیر اعظم کو بلاتے ہیں لیکن جواب یہ دیا جاتا ہے کہ آپ لاشیں دفنا لیں میں جلد تعزیت کے لئے آؤں گا مجھے نہیں معلوم اس جواب کو ریاست کی ناکامی کہوں، حکومت کی ناکامی کہوں یا وزیر اعظم کے عہدے کی تذلیل؟ یا اخلاقی شکست؟

اگر جناب وزیر اعظم کو یہ خدشہ ہے کہ ان کے دورے پر ورثا کوئی ایسے مطالبات نہ کر دیں جن کو پورا کرنا ان کے اختیار میں نہ ہو تو انہیں اس حوالے سے گھبرانے یا پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں کیونکہ شاید ہزارہ قوم سے بڑی صابر قوم کوئی نہیں جو ہر دفعہ خود پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بعد بھی اگر مطالبہ کرتی ہے تو صرف یہ کہ ریاست کا کوئی ذمہ دار آ کر انہیں تسلی ہی دے دے یقیناً وزیر اعظم کو بھی یاد ہو گا، ابھی کل ہی کی بات نہیں ہے اس بد نصیب برادری کی طرف سے لگائے جانے والے بھوک ہڑتالی کیمپوں میں مطالبہ کیا گیا کہ سپہ سالار آ کر ان کی اشک شوئی کریں اور ان کے تحفظات کو دور کریں، اسی بد قسمت قوم سے تعلق رکھنے والی دبنگ خاتون جلیلہ حیدر کا بھوک ہڑتالی کیمپ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ہمارے سپہ سالار نے ہزارہ برادری کو آ کر تسلی دی اور ان کی نسل کشی روکنے کے لئے اقدامات کے وعدے کیے اس سب کچھ کے باوجود ہزارہ برادری کا صرف وزیر اعظم کے دورے کا مطالبہ بہت چھوٹا مطالبہ ہے اگر ہمارے محافظوں اور وزیر اعظم کے نزدیک شہریوں کی زندگی کی تھوڑی سی بھی اہمیت و وقعت ہے تو بھلے دورہ نہ کریں کم از کم دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف کوئی قدم تو اٹھائیں جس سے معلوم ہو کہ شدت پسندوں کے حوالے سے ہماری ریاستی پالیسی تبدیل ہو چکی ہے اگر شدت پسندی کو سرکاری تذویراتی مقاصد کے لئے استعمال کا سلسلہ جاری ر ہا تو ہزارہ کیا پورے ملک میں شہری اپنی جان سے ہاتھ دھوتے رہیں گے۔

اقوام عالم سے 70 ہزار افراد کی قربانی کا صلہ مانگنے سے پہلے ذرا اپنے گریبان میں ضرور جھانکیں کہ جن لوگوں کی جان و مال کی حفاظت آپ کا پہلا فریضہ تھا اس میں آپ کوتاہی تو نہیں کر رہے یہ کوتاہی اب جرم کے زمرے میں داخل ہو گئی ہے کیونکہ شاید اب آپ ہزارہ مظلوموں کو جھوٹی تسلی دینے کا سلسلہ بھی روکنے کا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں۔

3 مئی کے المناک سانحہ پر ریاست و حکومت کے رد عمل سے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک پیج والی حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو اس نوعیت کے ہر واقعہ پر لوگ وزیر اعظم یا کسی اور کے آنے کا مطالبہ لے کر بیٹھ جائیں گے اور انہیں عوام کے جان و مال کی حفاظت کا ریاستی فریضہ یاد دلایا جائے گا عوام کے ایسے الٹے سیدھے مطالبوں سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ ایسی کسی روایت کو پنپنے نہ دیا جائے کیونکہ یہ خطرناک سلسلہ چل پڑا تو کل کلاں پوری قوم اپنے حق حکمرانی کا مطالبہ بھی لے کر کھڑی ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).