کوئٹہ جانے میں ہچکچاہٹ کیوں؟


12 اپریل 2019 کو کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی سبزی منڈی میں دھماکے کے نتیجے میں ایف سی اہلکار سمیت 20 افراد جاں بحق اور 48 زخمی ہوئے تھے۔ دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد ہزارہ برداری نے کئی روز تک احتجاجی دھرنا دیا، ان کا مطالبہ اس وقت بھی یہی تھا کہ وزیراعظم خود آ کر یقین دہانی کرائیں کہ مخصوص کیمونٹی کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کے تدارک کی خاطر اقدامات کیے جائیں گے، وزیراعظم اس وقت دھرنے والے جگہ پر نہیں پہنچے تاہم اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی و صوبائی حکام نے کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کرا دیا تھا، بعد ازاں وزیراعظم کوئٹہ کے دورے کے دوران سانحے کے لواحقین سے بھی ملے، تاہم انہیں اس وقت بڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا تھا کہ کوئٹہ جانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیوں کیا گیا، حالاں کہ اس وقت وزیراعظم، سندھ میں دورے بھی کر رہے تھے اور سیاسی نقل و حرکت کے لیے وقت بھی ان کے پاس تھا۔

حالیہ دنوں کچھ ایسی ہی صورتحال دوبارہ پیدا ہوئی، ہزارہ کیمونٹی کے دھرنے کو ختم کرانے کے لئے وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی کوششیں بارآور نہیں ہو سکیں اور گشتری کوئلہ فیلڈ میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے سوگواران کے وزیراعظم سے ملاقات کیے بغیر دھرنے ختم کرنے سے انکار نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بڑھا دیا۔

اتفاق ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بھی اس وقت تنقید کی زد میں ہیں اور ان کے یکم جنوری کو دبئی دورے و تین جنوری کو سانحہ مچھ پر سوالیہ نشان اٹھائے گئے، بلوچستان کئی دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے، اس لئے صوبے کی اعلیٰ قیادت کا متاثرین کے ساتھ نہ ہونا، تحفظات کو بڑھا رہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ اپنا نجی دورہ منسوخ کر کے بروقت کیوں نہیں پہنچے۔ بلوچستان انتہائی حساس صوبہ ہے، جہاں قوم پرستی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاست بھی کی جاتی ہے اور دہشت گردوں کی جانب سے خصوصی طور پر انہیں نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، ان حالات میں کہ عسکری قیادت کا بھی یہی کہنا ہے کہ ملک دشمن عناصر بلوچستان کے حالات خراب کرنا چاہتے ہیں، ریاست کا کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعات کا مقصد فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش ہے۔

لہذا جب سب جانتے ہیں کہ ملک دشمن عناصر فرقہ واریت و قوم پرستی کے نام پر انتشار و خلفشار پیدا کرنے کی سازش کر رہا ہے، تو مقتدر اعلیٰ حلقوں کو اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر جانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، اس سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی احتجاج کا دائرہ بڑھ جاتا ہے اور عام شہری براہ راست اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

وزیراعظم جب اپوزیشن میں تھے تو اس وقت دھرنوں میں بروقت پہنچ جایا کرتے تھے، تاہم اقتدار کے بعد صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کے پہلے سے طے شدہ شیڈول کو مینج کرنا بڑا مشکل امر ہے، لیکن یہاں صورتحال قطعی مختلف ہوجاتی ہے کہ جب نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کی مثال دی جائے کہ وہ اپنے ملک کی اقلیت کے ساتھ دہشت گردی کے واقعے میں یک جہتی کے لئے جرات مندی سے پہنچتی بھی ہیں اور ان کا اعتماد بحال کرانے کے لیے ایسے اقدامات کرتی ہیں، جو قابل ستائش قرار پائے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو میٹھا نہیں دے سکتے تو میٹھا بول تو سکتے ہیں۔ اہم پہلو یہ ہے کہ مخصوص کیمونٹی کے ساتھ جب بھی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو احتجاج کا دائرہ بڑھتے ہوئے ملک کے طول و عرض میں پھیل جاتا ہے، معاملہ جہاں حساس ہو، وہاں دوسروں پر بھی اس کے اثرات پڑتے ہیں۔

دہشت گردی کے واقعات کے نفسیاتی اثرات سے پوری نسل متاثر ہوتی ہے، اس کے سدباب کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت رہی ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں ملک کے وزیراعظم اور صوبے کے وزیراعلیٰ کی عدم موجودگی، متاثرین میں غم و غصے میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ محسوس کیا جاسکتا ہے اس لمحے پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کا مقصد بھی مفادات کی سیاست کا نذر ہوجاتا ہے۔ چونکہ معاملہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر اٹھتا ہے لہٰذا اس قسم کے دیگر واقعات میں سوگواران سے ملک کی اعلیٰ قیادت کا نہ ملنا بھی تنقید کی زد میں آتا ہے۔

دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب یا قوم سے ہے لیکن جب انتہا پسندوں کے مقاصد واضح ہوں تو بے چینی کو پھیلنے سے روکنے کی فوری کوشش کرنی چاہیے، اس وقت ملک کے دیگر حصوں کے علاوہ صرف کراچی کے 20 مقامات پر احتجاجی دھرنے دیے جا رہے ہیں۔ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ قیادت سبک رفتاری سے معاملے کے حل کے بجائے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر کے طول کیوں دیتی ہے۔ میڈیا میں سانحے سے متعلق سوگواران کی داستانیں منظر عام آنا شروع ہو جاتی ہیں، جس سے عام طبقہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔

ممکن ہے کہ سیکورٹی رسک کی وجہ سے وزیراعظم کو کلیئرنس نہ ملی ہو کیونکہ کئی واقعات میں دیکھا جا چکا ہے کہ اس قسم کے نازک موقع پر ناخوشگوار واقعات بھی ہو جاتے ہیں، عام انسان کی ظاہری سوچ اس امر کی دلالت کرتی ہے کہ اس کے غم میں تمام سیاسی قیادتیں شریک ہوں، یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اظہار یک جہتی کے لیے پی ڈی ایم کی اعلیٰ سیاسی قیادت بھی متاثرین سے تعزیت کے لیے (بروقت) نہیں پہنچی، بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، اسفندیار ولی خان سمیت دیگر سیاسی قائدین کا بھی تعزیت کے لیے (بروقت) نہ جانا، بذات خود سوالیہ نشان ہے، یقینی طور اس نازک لمحے میں عوام کے ساتھ ایک پیچ پر نہ ہونے سے بھی اچھا تاثر نہیں جاتا۔

دہشت گردی کے خاتمے کی ذمہ داری صرف ریاست یا حکمران جماعت کی ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی و مذہبی قیادت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ کسی بھی حساس و بڑے واقعے کی صورت میں متاثرین کا ہی نہیں بلکہ عوام کا حوصلہ بڑھانے کے لیے پہل کریں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہچکچاہٹ صرف حکمرانوں میں ہی نہیں بلکہ ہر سیاسی قیادت میں ہے اور اس کی کیا وجہ ہے اس پر غور کرنا ہوگا۔ تنقید یا روایتی بیانات دینے سے کام چلانے کی روش کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).