عمران خان وزیر اعظم رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں


وزیر اعظم عمران خان نے کوئٹہ میں اپنے شہید بچوں کی میتوں کے ساتھ دھرنا دینے والوں سے کہاہے کہ وہ وزیر اعظم کو بلیک میل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ہزارہ لواحقین کی تدفین کرلیں تو میں فوری طور سے ان کے پاس جاؤں گا۔ الفاظ اس بے حسی کی شدت اور گہرائی بیان کرنے سے قاصر ہیں جو اس بیان کے ذریعے عام کی گئی ہے۔ ملک کے وزیر اعظم نے دہشت گردی اور فرقہ واریت کی زد پر آئے ہوئے انسانوں کی مظلومیت کو ظلم قرار دینے کا ’حوصلہ ‘کیا ہے۔

 اگر یہ دلیری اور جرات مندی ہے کہ وزیر اعظم کسی گروہ کے دباؤ میں نہیں آتا تو فرض سے فراریت کس چیز کو کہا جائے گا۔ کس نے عمران خان کے کان میں یہ بات ڈالی ہے کہ مظلوم اور عسرت زدہ ہزارہ لوگ ملک کے وزیر اعظم کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جن لوگوں کے نوجوان بچوں کو بے دردی سے زبح کیا گیا ہو، اگر وہ حکومتی سربراہ کو اپنی حالت زار دکھانے کے لئے پکارتے ہیں تو کیا حکمران اسے بلیک میلنگ قرار دے گا؟ جہاں جنازہ پڑا ہو لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے احتراماً سکوت کرتے ہیں۔ یہ کیسا وزیر اعظم ہے جو مفلسی و بے چارگی کی علامت بنے گروہ کو اپنی طاقت، اختیار اور عہدہ کی شان سے للکا ررہا ہے۔

عمران خان نے اسلام آباد کی ایک تقریب میں ہزارہ برادری کو مرنے والوں کی تدفین کا مشورہ دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ دو دہائیوں سے یہ گروہ شدید تعصب، فرقہ واریت اور تشدد کا نشانہ بنا ہؤا ہے۔ ان لوگوں نے ملک میں کسی بھی دوسرے گروہ یا طبقے سے زیادہ ظلم برداشت کیا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے ان مظلومین کی داد و فریاد سننے اور داد رسی کی بجائے احتجاج کے اس طریقے کو دباؤ یا بلیک میلنگ قرار دے کر کہاہے کہ اگر مرنے والوں کو ابھی دفنا دیاجائے تو میں شام کو کوئٹہ جاسکتا ہوں۔ اس دلیل کو اگر عمران خان کی اپنی منطق کی روشنی میں دیکھا جائے تو وہ دورہ کوئٹہ کے لئے شرط عائد کررہے ہیں۔ ہزارہ ان کا ’مطالبہ‘ مان لیں تو وہ ان کی بات پوری کریں گے، ملاقات کے لئے فوری طور سے کوئٹہ چلے جائیں گے اور پسماندگان کی دلجوئی کریں گے۔

ملک کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ کوئی وزیر اعظم کو بلیک میل نہیں کرتا لیکن کیا عمران خان اس سادہ سوال کا جواب ارزاں کرسکیں گے کہ کون سا وزیر اعظم اپنے بیٹوں اور بھائیوں کا ماتم کرنے والوں کے سامنے شرائط رکھتا ہے؟ کیا غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے پسماندگان شرطیں رکھنے اور مطالبے منوانے کی پوزیشن میں ہیں؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو کیا ہزارہ برادری کو بار بار اپنے شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ سڑکوں کے کنارے ریاست اور وہاں برپا کی گئی سیاست پر نوحہ گری کرنا پڑتی؟ شرطیں عائد کرنے والا حاکم بااختیار نہیں کمزور اور عاجز ہوتا ہے لیکن طاقت کے گمان اور اختیار کے دھوکے میں مبتلا رہتا ہے۔ عمران خان کو اپنے اختیار اور حکومت کی حدود کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہوسکتی ہے لیکن ہزارہ یا ان کے غم میں شریک اہل وطن کو اس بارے میں کوئی مغالطہ نہیں ہے۔ عمران خان بھی کوئٹہ کی شاہراہ یا کراچی کے مختلف مقامات پر دھرنا دینے والے سوگواران کی طرح ہی بے اختیار اور عاجز ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہزارہ جانتے ہیں کہ وہ بے بس ہیں، وزیر اعظم کو بے بسی کے باوصف طاقتور ہونے کا بھرم ہے۔

شرط عائد کرنے کے علاوہ وزیر اعظم نے ہزارہ کی معصوم انسانی خواہش کا مقابلہ ملک میں جاری سیاسی جد و جہد سے کرنا بھی ضروری سمجھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آج وزیر اعظم ہزارہ کی بلیک میلنگ میں آگیا تو کل کو ڈاکوؤں کا گروہ بھی انہیں بلیک میل کرے گا۔ وہ بھی کہیں گے کہ ہمیں معافی دو نہیں تو ہم حکومت گرا دیں گے‘۔ یہ طرز تکلم اور دلیل دینے کا طریقہ جھوٹ، بہتان اور قیاس پر مبنی ہے۔ اس کے باوجود عمران خان نہایت سنگدلی سے ملک کے ایک کمزور ترین طبقے کا مقابلہ ملک کی بڑی سیاسی تحریک کے لیڈروں اور ان کے مطالبوں سے کرتے ہوئے دراصل اپنی کم ظرفی اور خوف کا اظہار کررہے ہیں۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مالی بدعنوانی کرنے والے طاقتور لوگ ان پر دباؤ ڈالتے ہیں تو کیا اپنے بچوں کا سوگ منانے والے لوگوں کو ان کے برابر کھڑا کرکے مطعون کیا جائے گا؟

عمران خان کا یہ طرز بیان امریکی کانگرس پر حملہ کے بعد صدر ٹرمپ کے بیان سے مماثل ہے۔ اس بیان میں انہوں نے حملہ آوروں کو خاص لوگ قرار دیتے ہوئے، ان سے اظہار شفقت بھی کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ وہ پرامن رہیں اور گھروں کوچلیں جائیں۔ ہزارہ مظاہرین کی غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی پکار کو ملک میں جاری سیاسی احتجاج کے ساتھ ملانے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان دراصل یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ لوگ اپوزیشن کے کہنے پر یا ان کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے دھرنا دیے ہوئے ہیں، اسی لئے وزیر اعظم اس احتجاج سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتا۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے پسماندگان کو کسی خاص سیاسی ایجنڈے پر گامزن قراردینے کی کوشش بجائے خود قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ کسی سربراہ حکومت کو اس قسم کی اوچھی حجت زیب نہیں دیتی۔

ہزارہ برادری کو اپنے مرحومین کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دیے ہوئے آج 6 روز مکمل ہوگئے۔ وہ شدید سردی اور ناقص سہولتوں کے باوجود ذاتی غم اور موسم کے قہر کو برداشت کررہے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم نے آج یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ان کے کوئٹہ جانے میں نہ تو سیکورٹی کا مسئلہ ہے اور نہ ہی ان کی مصروفیات نے انہیں روکا ہؤا ہے بلکہ وہ کوئی مطالبہ ماننے کو بلیک میلنگ سمجھتے ہیں، اسی لئے وہ کوئٹہ نہیں گئے بلکہ اپنے ہرکاروں کے ذریعے یہ پیغامات بھجوائے ہیں کہ اگر وزیر اعظم سے ملنا ہے تو پہلے میتوں کو دفنا ؤ، تبھی عمران خان انہیں ’زیارت ‘ دیں گے۔ کیا وزیر اعظم واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی حفاظت کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین، ان کے حضور باریابی کے لئے شہیدوں کی لاشوں کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کررہے ہیں؟

حکومتی ترجمانوں نے مسلسل یہ عذر تراشے ہیں کہ وزیر اعظم سیکورٹی مسائل کی وجہ سے کوئٹہ نہیں جاسکے لیکن وہ بہت جلد وہاں جائیں گے۔ گزشتہ روز روزنامہ ڈان نے یہ رپورٹ بھی دی تھی کہ وزیر اعظم ہاؤس میں کوئٹہ جانے کےسوال پر طویل غور و خوض ہؤا تھا اور وزیر اعظم فوری طور سے جانے کی مجبوری ظاہر کرنے کے باوجود اچانک کوئٹہ جاکر ہزارہ کی دلجوئی کرسکتے ہیں تاکہ ان کا احتجاج ختم ہو اور مرنے والوں کو دفنایا جاسکے۔ اس خبر سے بھی اس تاثر کو تقویت ملی تھی کہ سیکورٹی ہی اصل مسئلہ ہے۔ آج عمران خان نے انکشاف کیا کہ بنیادی مسئلہ ان کی انانیت، گھمنڈ اور سطحی سوچ ہے۔ گزشتہ روز مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی دھرنا میں آمد اور اس موقع پر تقاریر نے عمران خان جیسے زود رنج اور خود پسند شخص کی انا کو سخت ٹھیس پہنچائی تھی۔ اس جا جواب آج ہزارہ کو بلیک میلر قرار دے کر ان کے احتجاج و مطالبے کو حکومت مخالف سیاسی تحریک سے ملا کر دیا گیا ہے۔

دہشتگردی کا شکار لوگوں کے سامنے جھوٹے عذر تراشنے والی حکومت کی اتھارٹی اور رٹ کے بارے میں دوست مایوس و پریشان جبکہ دشمن خوش و مطمئن ہوں گے۔ عمران خان نے آج بھی مچھ ٹارگٹ کلنگ کو بھارتی سازش قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ملک کی ایجنسیاں فرقہ وارانہ فساد کی متعدد کوششوں کو ناکام بنا چکی ہیں۔ حتی کہ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ انہیں مچھ میں ہونے والے حملے کا اندیشہ تھا اور وہ پہلے ہی اس خطرے سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم کو معلوم تھا کہ کن لوگوں کو کن عناصر سے خطرہ ہے۔ اور کون لوگ ان عناصر کو کسی خاص مقصد کے لئے ایک کمزور مسلکی اقلیت کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں تو ان کی حکومت نے کون سے حفاظتی اقدامات کئے تھے؟ کیا وزیر اعظم کے بیان دینے اور دشمن پر الزم لگانے سے شہری محفوظ ہوجاتے؟ کیا ایسے بیان دے کر عمران خان یہ اعتراف نہیں کررہے کہ ان کی حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے اور دشمن ملک کی سازشوں کی روک تھام میں ناکام ہے۔ پھر وہ کس منہ سے دعوے کرتے ہیں کہ دشمن نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کا شدید ترین جواب دیا جائے گا۔ ابھی تو ملک کے شہری اپنے پیاروں کی میتوں پر بیٹھے ماتم کررہے ہیں اور وزیر اعظم دعویٰ کررہا ہے کہ اسے تو اس حملے کی خبر تھی۔ یہ حکومت کی کامیابی ہے یا بے بسی و ناکامی کا اعلان ہے۔

سیاسی صورت حال سے قطع نظر اس بیان کے بعد عمران خان وزیر اعظم کے عہدے پر فائزرہنے کے اخلاقی جواز سے محروم ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے ملک کے مظلوم ترین شہریوں پر فقرے اچھال رہے ہیں اور ان کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دوسری پارٹیوں کو وراثتی پارٹیاں قرار دینے والی تحریک انصاف کیا عمران خان کے غیر انسانی، سفاکانہ اوربے بنیاد بیان کے بعد، ان سے جواب طلب کرسکتی ہے؟ اور کسی دوسرے مناسب شخص کا نام متبادل وزیر اعظم کے طور پر سامنے لانے کا حوصلہ کیا جاسکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali