سیمیں درانی کا افسانوی مجموعہ: آنول نال


آنول نال۔ سجدہ کیا میں نے مجازی خدا کو

نصیبن جو میٹرک پاس تھی، ایک قریبی اسکول میں بہ طور آیا لگ گئی، تنخواہ آتے ہی وہ سارے کے سارے پیسے رفیق کے ہاتھ پر رکھ دیتی، اس کی ساس کا کہنا تھا، کہ ابھی تو وہ گود سے نکلا ہی تھا، کہ نصیبن کی ذمہ داری آن پڑی، اس میں میرے بچے کا کیا قصور۔ وہ نصیبن کو دلار سے بولتی۔

” تو ماشا اللہ میٹرک پاس ہے، تو میرے رفیق سے کیوں امید لگاتی ہے“
اور نصیبن اس امید پر کہ کب رفیق نوکری کرے اور کما کر لائے، مجازی خدا کو سجدے کرتی رہی۔

یہ سطور سیمیں درانی کے افسانے ”سجدہ“ سے لی گئی ہیں۔

سیمیں درانی نے اپنے افسانوں میں خاص تہذیبی بنت کے ساتھ سماج کے فرسودہ رسوم و رواج پر قلم اٹھایا ہے۔ لکھت میں لطیف رومانویت اور رکھ رکھاؤ نظر آتا ہے، اختصاری بیانیے کے ساتھ افسانوی انداز میں لکھے افسانے ان رویوں کے عکاس ہیں جو دوہرے معیار رکھنے والے سماج میں جا بجا نظر آتے ہیں اور ہم ان سے صرف نظر کرتے ہیں کیونکہ جب بات ذاتی مفاد کی آتی ہے تو جائز کو ناجائز اور سیاہ کو سفید کرنا کوئی ہم سے سیکھے اور اسی مفاد پرستی کو سیمیں نے بیان کیا ہے۔

سیمیں نے اپنے افسانوں میں پنجابی لفظیات کے ساتھ کلاسیکی اردو لفظیات اور محاوروں کا بہ خوبی استعمال کیا ہے۔ افسانے ’سجدہ‘ کی نصیبن ہو یا ’اندھیر گلی‘ کی کنیز ہو یا ’آئٹم گرل‘ کی حسینہ، معاشرے میں دکھائی دینے والی وہ عورتیں ہیں جن کو خاندان کے معاش ذمہ دار ٹھہرایا گیا، اسی سماج میں جہاں عورت کو گھر سے نکلنے سے منع کیا جاتا ہے۔

سیمیں کے ہاں موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے۔ انہوں نے سائنس فکشن پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ ان کے افسانے ”پیمپر“ اور ”یو مے کس دا برائیڈ“ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ایک ذہین ادیبہ مستقبل میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، آنے والے دور میں سائنسی ترقی کس طرح انسان کی فطرت اور اس کی ذہنی، جسمانی و جنسی صلاحیت کو کس حد تک متاثر کرے گی اور انسانی شعور کی سطح اور خالص انسانی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے قابل ہو سکے گی یا نہیں۔

” چھام چھاب“ کی گڑیا ہو یا ”مثلث“ کی سسٹر انجیلا ظالم و مظلوم کے کرداروں کے مابین لکھے گئے ان افسانوں میں سیمیں نے سوچ کے در وا کیے ہیں، مستقبل میں ظالم کے خلاف مذہب اور معاشرہ کیا قدم اٹھا سکتا ہے اور انسانیت کے علم بردار کس طرح ان مسائل کو دیکھتے ہیں اور سماجی سطح پر کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں، سیمیں فکری دعوت دیتی نظر آتی ہیں۔

معاشی و معاشرتی فکری شعور اور نفسیات کی پیچیدہ ساختیاتی گرہیں انسان کو کس طرح اس کی جبلت اور روایت سے جوڑتی ہیں یا الگ کرتی ہیں یا مستقبل میں انسان دوبارہ سے اپنی آنول کے اکٹھ کی طرف لوٹے گا، سیمیں نے قدرت کی ودیعت کردہ ذہانت و فکر سے ان موضوعات پر قلم اٹھا کر ہم کو بھی سوچنے کی دعوت دی ہے۔

” آنول نال“ کے افسانے انسانی مستقبل کے افسانے ہیں، اس مستقبل کے جس میں انسانی تہذیب کی درست راہوں کو متعین کرنا ہماری شعوری فکر سے ہی ممکن ہو سکے گا۔

 قارئین کے لیے سیمیں درانی کا مختصر تعارف 

سیمین درانی خواتین فورم کے صدر کی حیثیت سے ادب کی دنیا میں خواتین کی فکری ترقی کے لیے کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ 4 فروری 1971 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔ سیمیں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی اور سٹی بینک سے مینیجر سٹی گولڈ کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ملازمت کے دوران سیمیں نے بزنس ڈویلپمنٹ، کارپوریٹ قانون، ہیومن ریسورس منیجمنٹ، پروجیکٹ مینجمنٹ اور مارکیٹنگ میں وسیع تجربہ حاصل کیا۔

سیمین درانی نے NUML کے پہلے بیچ میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم دی۔ وہ درس و تدریس کو سب سے پر وقار اور ذمہ دار فریضہ سمجھتی ہیں جو اخلاقی طور پر شخصیت کی نشوونما میں ان کی مدد کر کے آئندہ نسل کو مثبت اور صحیح سمت میں پروان چڑھانے میں معاون ہے۔ اخلاقی طور پر کتابوں کے ذریعے معلومات فراہم کرنے کے علاوہ سیمین درانی نے اپنی زندگی کے دوران متعدد عنوانات حاصل کیے جن میں صدر پاکستان پیٹرولیم نیٹ ورک، ایسوسی ایشن کے صدر، طلباء پبلک ایڈمنسٹریشن، ہوسٹن میں مقیم نیوز لیٹر کے شیف ایڈیٹر اور معروف ماہانہ میگزین سنگت کے ایڈیٹر شامل ہیں۔

سیمیں بچپن سے ہی ادب میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ سیمیں کی مختصر کہانیاں 2020 میں شائع ہوئی ہیں اور اس کتاب کا نام ”آنول نال“ ہے۔ سیمین درانی نے مختلف موضوعات پر لکھنے کا انتخاب کیا جن میں پیڈو فیلیا، سائنس فکشن، تقابلی مذہبی عقائد اور دیگر مابعد داغ دار تصورات ہیں جو ان کی تحریروں کو حقیقت پر مبنی بناتے ہیں اور اس کی کھلی ذہنیت کی سچائی اور جس انداز میں انہوں نے معاشرے کی سخت اور تلخ حقیقت کو پیش کیا ہے۔ ان کے پاس اپنا قلم اور ذہن سازی کی طاقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).