ٹرمپ کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر پابندی: کیا یہ آزادی رائے پر حملہ ہے؟


امریکہ اور دنیا کے بیشتر حصوں میں اس بات پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ٹویٹر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نجی ٹویٹر اکاؤنٹ ’دی رئیل ڈونلڈ ٹرمپ‘ کو مستقل طور سے بند کر دیا ہے۔ امریکی صدر کو 8 کروڑ 87 لاکھ لوگ ٹویٹر پر فالو کرتے تھے۔ ٹرمپ اپنے حامیوں کے ساتھ متبادل مواصلت قائم کرنے کے لئے ٹویٹر کو موثر طریقے سے استعمال کرتے رہے تھے۔ اس طرح وہ کسی کنٹرول کے بغیر اپنی رائے اپنے حامیوں اور دشمنوں تک پہنچانے میں آزاد تھے۔

تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بند ہونے سے جہاں غیر روایتی اور غیر ذمہ دارانہ اظہار کا راستہ مسدود ہونے پر امریکہ اور دنیا کے دیگر ملکوں میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے تو اس کے ساتھ ہی یہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ کیا ایک کمرشل کمپنی کا یہ اقدام شخصی آزادی اظہار پر حملہ تو نہیں ہے؟ بعض ماہرین اور قانون دان یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ ٹویٹر جیسی بڑی کمپنی اگر امریکی صدر جیسی شخصیت کا اکاؤنٹ بند کر کے اسے حق رائے سے محروم کر سکتی ہے تو اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ مستقبل میں بڑی سوشل میڈیا کمپنیاں ہی دراصل آزادی اظہار کی نئی حدود متعین کریں گی۔ بعض ماہرین کا خیال ہے یہ طریقہ دراصل جمہوریت کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس طرح لوگ اپنی بات کہنے کے لئے بڑے پلیٹ فارم کی عائد کردہ شرائط کو ماننے پر مجبور ہوں گے۔ بلا روک ٹوک خیالات کا اظہار محدود ہو جائے گا۔

دوسری صورت میں علیحدہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم استوار کرنے کا رجحان زور پکڑ سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا اکاؤنٹ بند ہونے کے بعد ایک تبصرے میں یہ واضح کیا ہے کہ وہ مستقبل میں اپنی بات کہنے کے لئے اپنا خود مختار سوشل میڈیا پلیٹ فارم استوار کر سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح یک طرفہ رائے کے اظہار اور شدت پسند خیالات کی ترویج کے لئے ایسے پلیٹ فارم سامنے آسکتے ہیں جہاں صرف ایک ہی نقطہ نظر کے لوگ جمع ہوں گے۔ اس طرح مباحثہ اور ہمہ قسم خیالات کی ترویج کے لئے مشترکہ اور سب کو اکٹھا کرنے والے پلیٹ فارمز کی اہمیت و ضرورت محدود ہو سکتی ہے۔ قیاس ہے کہ یہ رجحان بھی جمہوری روایت اور خیالات و رائے کے تبادلہ کے مواقع کو کم کرے گا۔ اور انتہا پسندانہ خیالات کی روک تھام کی بجائے انہیں آزادی سے پھیلنے کا موقع ملے گا۔ یہ لوگ اپنے اپنے علیحدہ گروہ بنا لیں گے اور ان کے خیالات کو دلیل اور شواہد سے مسترد کرنے والی آوازوں کو وہاں تک رسائی نہیں ہوگی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر میں منعقد ہونے والے انتخاب میں شکست کے بعد یک طرفہ اور کسی حد تک جمہوریت دشمن رویہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے 74 ملین ووٹوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ فراموش کر دیا کہ ان کے مد مقابل جو بائیڈن کو ان سے 7 ملین زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ وہ کسی ثبوت کے بغیر انتخاب میں دھاندلی اور بائیڈن کی کامیابی کو سیاسی دشمنوں اور بائیں بازو کے انتہا پسندوں کی سازش قرار دیتے رہے ہیں جنہوں نے امریکی انتخابی نظام کو یرغمال بنا کر ’محب وطن امریکیوں‘ کے نمائندے ڈونلڈٹرمپ کی جیت کو بظاہر شکست میں تبدیل کر دیا۔ وہ اپنے ان الزامات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ اسی لئے امریکی عدالتوں میں دائر کیے گئے درجنوں دعوے مسترد کر دیے گئے۔ ملک کی سپریم کورٹ میں بھی انتخابی دھاندلی کے خلاف دو علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن ججوں نے مناسب شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر ان پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔

اس ناکامی کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا طرز عمل تبدیل نہیں کیا۔ وہ مسلسل ری پبلکن پارٹی کے عہدیداروں اور سینیٹ و کانگرس میں اپنی پارٹی کے نمائندوں سے اپیل کرتے رہے کہ انتخابی نتائج کو مسترد کر کے ریاستوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ’حقیقی طور سے کامیاب‘ ہونے والے یعنی ٹرمپ کی کامیابی والا نتیجہ بھجوائیں۔ اس حوالے سے جارجیا کے اعلیٰ عہدیدار کے ساتھ ایک طویل ٹیلی فون بات چیت کو واشنگٹن پوسٹ نے جاری بھی کیا تھا۔ اس گفتگو میں ٹرمپ مسلسل انتخابی نتیجہ کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ کہیں سے بھی 11700 ووٹ تلاش کیے جائیں تاکہ اس ریاست میں ٹرمپ کی کامیابی کا اعلان ہو سکے۔ اسی طرح 6 جنوری کو کانگرس کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملہ اور توڑ پھوڑ کو بھی دراصل ٹرمپ کی ہٹ دھرمی اور اشتعال انگیزی کا نتیجہ کہا جا رہا ہے۔ اس حملہ کے نتیجہ میں ایک پولیس افسر سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کانگرس کا مشترکہ اجلاس چند ایسی ریاستوں کے نتائج کو مسترد کر دے جہاں ٹرمپ کو بہت کم ووٹوں سے شکست ہوئی تھی تاکہ ان کی شکست کامیابی میں تبدیل ہو جائے۔ نائب صدر مائیک پنس اس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ ٹرمپ نے ان سے کہا تھا کہ ان کے پاس یہ حتمی اختیار ہے کہ وہ اس حیثیت میں تن تنہا انتخابی نتائج مسترد کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دراصل نائب صدر پر دباؤ ڈالنے اور صدارتی انتخاب کے حوالے سے بحران پیدا کرنے کی خواہش کی تکمیل کے لئے ہی ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو واشنگٹن میں جمع کیا اور پھر ان سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے کانگرس کی طرف مارچ کرنے کا مشورہ دیا۔ اسی کے نتیجے میں کانگرس کی عمارت پر حملہ ہوا جسے امریکی جمہوریت کے چہرے پر بدنما داغ قرار دیا جا رہا ہے۔

اس پس منظر میں ٹویٹر نے گزشتہ رات جب ٹرمپ کا اکاؤنٹ مستقل طور سے بند کرنے کا اعلان کیا تو امریکی میڈیا کے علاوہ متعدد حلقوں کی جانب سے خوشی و اطمینان کا اظہار سامنے آیا۔ ٹویٹر کا موقف ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے تشدد پر اکسانے کا اندیشہ موجود ہے۔ یہ طریقہ ٹویٹر کی پالیسی اور بنیادی قانونی ذمہ داری سے متصادم ہے۔ اسی لئے اس اکاؤنٹ کو مستقل بند کیا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں اور ماہرین کی بڑی اکثریت اس فیصلہ سے متفق بھی دکھائی دیتی ہے۔ کیوں کہ ٹرمپ نے صدر بننے سے پہلے بھی لیکن خاص طور سے صدر بننے کے بعد ٹویٹر کے ذریعے اپنے جھوٹے سچے پیغام کو حامیوں تک پہنچانے، سیاسی مخالفین پر رکیک حملے کرنے اور مین اسٹریم میٖڈیا کو ’فیک نیوز‘ قرار دینے کا کام موثر طریقے سے کیا تھا۔ امریکہ میں اس وقت ٹرمپ کے غیر جمہوری رویہ کے بارے میں شدت سے بحث ہو رہی ہے۔ ان سے استعفی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے دھمکی دی ہے کہ وہ کانگرس میں دوبارہ صدر کے مواخذے کی قرار داد لا سکتی ہے۔ اس ماحول میں اس پابندی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صورت حال پر متوازن بحث دیکھنے میں نہیں آئی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سوشل میڈیا اور شخصی آزادی کے حوالے سے مباحث اہم موضوع ہوں گے۔

اس کے آثار ابھی سے دکھائی بھی دینے لگے ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹر لنڈسے گراہم نے ایک ٹویٹ میں سوال اٹھایا ہے کہ ’ایران کا آیت اللہ آزادی سے ٹویٹ کر سکتا ہے لیکن امریکی صدر کا اکاؤنٹ بند کر دیا گیا ہے‘ ۔ ان کا خیال ہے کہ اس اقدام سے اظہار کی آزادی محدود ہوگی اور ٹویٹر پر کیا کہا جاسکتا ہے، اس کا فیصلہ چند کارپوریٹ لوگ کریں گے۔ ناروے میں سوشل ڈیموکریٹک منشور رکھنے والی لیبر پارٹی کے لیڈر اور سابق وزیر خارجہ یوناس گار ستورے نے بھی یہی سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ درست ہے کہ ٹرمپ کے خیالات سنگین، خطرناک اور نفرت انگیز ہوتے ہیں لیکن کسی کے اظہار پر پابندی عائد کرنا سہل نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے آزادی اظہار کو خطرات لاحق ہوں گے۔ ٹویٹر انتظامیہ کا یہ فیصلہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔ ایک ایسی لائن کھینچی گئی ہے جو رائے کی آزادی کو محدود کر رہی ہے۔ اگر دنیا بھر میں ٹویٹر نے اس پالیسی کو نافذ کرنا شروع کر دیا تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے‘ ۔

ان آرا کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں ٹرمپ اور ان کے حامی ہی نہیں بلکہ مغربی جمہوریت میں بلا روک ٹوک اظہار کی آزادی کو ایک اہم موضوع کی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے جس پر وسیع سطح پر خیالات سامنے آئیں گے اور آزادی اظہار، جمہوریت اور حدود و قیود کے حوالے سے نئے نکات پر غور کیا جائے گا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان مباحث کے نتیجہ میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے سنسر کرنے کے اختیار کو محدود کیا جاسکے گا یا انہیں قانونی ذمہ داری سے استثنی دینے کی کوشش کی جائے گی۔ البتہ یہ بحث اس اعتراض کے قریب تر ہوگی جو دنیا بھر کے مسلمان مغرب میں توہین مذہب پر مبنی اظہار کو آزادی و جمہوریت قرار دینے پر اٹھاتے رہے ہیں۔ مسلمان سیاست دان حتی کہ مبصرین بھی اس اصول پر کوئی منطقی اور متوازن رائے سامنے نہیں لا سکے۔ ان کا اعتراض عام طور سے مذہبی جذباتیت اور لوگوں کے احساس کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

اس صورت حال کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے آزادی اظہار کو توہین مذہب کے لئے استعمال کرنے پر اعتراض کی حجت یوں کمزور پڑ جاتی ہے کہ اتنی ہی شدت اور طاقت سے ادیبوں، صحافیوں یا فنکاروں کو تشدد و دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی مذمت نہیں کی جاتی۔ ٹرمپ پر ٹویٹر کی پابندی کے حوالے سے بھی یہ پہلو دلچسپ بحث کا موضوع بن سکتا ہے کیوں کہ یہ پابندی بھی تشدد کے ایک سنگین واقعہ کے بعد لگائی گئی ہے اور اس میں یہی عذر اختیار کیا گیا ہے کہ ٹرمپ اپنے اکاؤنٹ کو تشدد کے فروغ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

مستقبل میں آزادی رائے کی بحث میں یہ اصول بہر حال طے کرنا پڑے گا کہ کوئی بھی آزادی کسی دوسرے کی آزادی سلب کرنے کا حق نہیں دیتی۔ تاہم یہ سوال بدستور تنازعہ کا سبب رہے گا کہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے پابندی عائد کرنا کیا قابل قبول طریقہ ہو سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali