ادیب، کالم نگار اور یگانہ چنگیزی


\"\"دربار لگا ہوا تھا۔ تخت پر بیٹھا تجربہ کارحکمران زندگی کے معرکے سرکرتے کرتے سکون کی منزل تک آن پہنچا تھا۔ سر اٹھا کر ایک نظر دربار پر ڈالی، دھیرے سے مسکرایا اور پھر نہایت تمکنت سے فیصلہ سنایا کہ وزراکی تعداد گھٹائی جائے گی تاکہ خزانے پر بوجھ کم ہوسکے۔ سب چونک گئے۔ دربار سے بے دخل کرنے کے لیے کیا پیمانہ وضع کیا جائے گا؟ ہرکوئی اپنے عیب و ہنر کا جائزہ لے کر من پسند احسان کے ترازو میں اپنی اپنی خدمات تولنے لگا۔ لیکن نہیں۔ بادشاہ نے اعلان کیا کہ جس پر دروغ گوئی کی تہمت نہیں ہوگی، صرف وہی باقی رہے گا۔ ایک ایک کرکے سبھی رخصت ہونے لگے۔ کون ہے جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو۔ جو بیٹھا رہا، اُسے جتایا جاتا کہ اُس نے فلاں وقت ایک بات کہی تھی جو بعد میں جھوٹی نکلی۔ درباری داستان گو ایک کونے سے لگا بیٹھا رہا۔ درباریوں نے شکایت کی کہ اس نے تو پرستان کے عجائب، دیومالائی کہانیاں اور مافوق الفطرت واقعات سنا سنا کر نامہ اعمال بھرا، اس سے بڑا دروغ گو عالم ِ امکان میں کہاں۔ اس پر داستان گو نے عرض کی کہ اس نے تو کبھی سچ بولنے کا دعویٰ کیا ہی نہ تھا۔ جھوٹ بولنے کا الزام تو اُس پر آسکتا ہے جو سچ بول رہا ہو۔ یہ سن کر سپہ سالار، قاضی، وزیر ِخزانہ اور دیگر اشراف کو نکال باہر کرنے والے بادشاہ نے اُس کا ہاتھ پکڑکر اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ جس کا کام ہی داستان گوئی ہو، اُس نے کب کہا تھا کہ یہ سچ ہے۔ چنانچہ صرف داستان گو، یعنی ادیب ہی جھوٹ کے الزام سے بچ سکا۔

دوسری طرف کالم نگارسچائی کے پیکرہوتے ہیں، لیکن بالکل ایک بیکری والے کی طرح، جو صبح دعویٰ کرتا ہے کہ اُس کی بنائی ہوئی بریڈ تازہ ہے۔ اُس وقت وہ سچا ہوتا ہے لیکن شام تک بریڈ باسی ہوچکی ہوتی ہے۔ شام کو اُسے دعویٰ یاد مت دلائیں، وہ کل ایک اور تازہ بریڈ بنانے کے لیے ’’مال‘‘ تیار کر رہا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ ادب میں سچ نہیں ہوتا، سچائی ہوتی ہے۔ سچ اور سچائی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا انسان اور انسانیت میں۔ سچ وقتی اور سچائی ابدی ہوتی ہے۔ کالم میں کیا ہوتا ہے؟ یہ ایک کالم نگار سے ہی پوچھتے ہیں۔ ’’میامی ہیرالڈ ‘‘ کے لیے لکھنے والے عظیم امریکی کالم نگار ڈیو بیری کا کہنا ہے ․․․’’تعلیمی اداروں میں حاصل کردہ تربیت کا شکریہ، آج میں ہر موضوع پر سینکڑوں الفاظ اس مہارت سے لکھ سکتا ہوں کہ ان میں معلومات کا ہلکا سا عنصر بھی شامل نہ ہو۔ یہ خوبی صحافت کے شعبے میں اچھی ملازمت حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔‘‘ ہمارے ہاں بیشتر جریدوں میں ایسی ہی پاکیزہ تحریریں موجود ہوتی ہیں۔ تاہم وہ دعوت ِفکر ضرور دیتی ہیں۔ اُنہیں پڑھ کر انسان سوچ میں پڑجاتا ہے کہ خدایا، یہ شائع کس برتے ہوئی ہیں؟

ایک کالم نگار کو بہت سے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اُسے بہت کم وقت میں موضوع کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، اس کی مناسبت تلاش کرنا ہوتی ہے، واقعاتی شہادت دیکھنی ہوتی ہے، دستیاب نہ ہوتو گھڑنی پڑتی ہے، اپنے تجزیے اور تبصرے کو حتمی جاننا لیکن جان بوجھ کر دوٹوک لہجے سے گریز کرنا البتہ بڑے صحافیوں کی نشانی ہے۔ آج کل یہ نشانی بکثرت پائی جاتی ہے۔ ہر کالم نگار دل کا غنی ہوتا ہے۔ نہ ہو تو بھی استغنا اختیار کرنا سیکھ جاتا ہے۔ تاہم اُسے قارئین تلاش نہیں کرنے پڑتے، یہ کام اُس کا اخبار کرلیتا ہے، جیسے تیسے بھی۔ دوسری طرف ایک مصنف کو کتاب کی اشاعت کے لیے پبلشر اور پھر قارئین تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ کتاب فروخت ہوگی تو بات آگے بڑھے گی۔ نہ فروخت ہوئی تو پھر بات بہت بڑھ جائے گی۔

کالم نگار واقعات کو تسبیح کے دانوں کی طرح الگ الگ شمار کرتا ہے۔ کھوٹے کو کھرے سے الگ کرنا اُس کا امتیازی وصف ہے۔ اس تخلیقی کاوش کے بعد وہ قلمی درویشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کالم میں صرف اوّل الذکر کو ہی جگہ دیتا ہے۔ ادیب زندگی کی تخیلاتی منظر کشی کو من پسند انداز میں بیان کرتا ہے، لیکن وہ خود ان کا تجزیہ نہیں کرتا اور نہ ہی نتیجہ نکالتا ہے۔ ادب مچھلی کا شکار ہے جس میں مچھلی کا ہاتھ آنا ضروری نہیں، بس کاوش پر آفرین کہہ لیں۔ شکاری واپسی پروٹامنز سے بھرپور سبزی خرید لے گا۔ صحافت بھی کبھی ’’برتر از اندیشہ ٔ سود زیاں‘‘ ہوتی تھی، لیکن آج نہیں۔ خاص طور پر جب سے یہ ’’الیکٹرانک ‘‘ ہوئی ہے۔ اب تو عطائیت کے لیے بھی کوالی فیکشن چاہیے، اور یہ سفر اب اوپر سے شروع ہوتا ہے۔ علم اور معلومات کی اتنی بھرمار کہ اب تو لاعلم رہنے کے لیے بھی یگانہ ٔ روزگار ہونا پڑتا ہے۔ یگانہ چنگیزی یاد گئے، جنہوں نے کہاتھا، ’’پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے ‘‘۔ لیکن ہم ایسے کم کوش کہاں۔ اسلام کے اس قلعے کی زمین پلاٹ کاٹنے والوں کے ہاتھوں ہار رہی ہے۔

ادب نوخیز اور چلبلی سوچ کی جادوگری ہے تو کالم واقعات کی ملمع کاری۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ادیب بعد میں کالم نگار ی کی طرف آگئے، لیکن بہت کم کالم نگار کہانی کار بن سکتے ہیں۔ یقیناً بڑھاپے سے جوانی کی طرف سفر ممکن نہیں ہوتا تاوقتیکہ آپ ارنسٹ ہیمنگ وے ہوں اور دو عالمی جنگوں، نصف درجن شادیوں اور ایک عدد خود کشی کا تجربہ رکھتے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments