شام کی تباہی: سعود پرستوں اور ایران نوازوں کے نام


\"\"گذشتہ کچھ دنوں سے شام کے شہر حلب سے جو خبریں، تصاویر اورپیغامات آ رہے ہیں وہ کسی کا بھی دل دہلا دینے کو کافی ہیں۔ شام کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک حلب آج بارود کے دھویں سے اٹا پڑا ہے، شہر میں ہو کا عالم ہے، ہر طرف سناٹا ہے بس موت اور بربادی گلیوں میں گیت گا رہی ہیں۔ چار برس پہلے تک جو شہر شام کا کلیدی صنعتی مرکز تھا آج وہاں بموں اور راکٹوں سے کھنڈر بنی عمارتوں کا سلسلہ ہے اور انسان ندارد۔ ایران، حزب اللہ، روس اور شام کی افواج کے مشترکہ آپریشن کے بعد شہر کو چار برس بعد باغیوں کے قبضے سے تو آزاد کرا لیا گیا لیکن حکومت کے لئے کنٹرول میں لینے کو حلب کے نام پر اب دراصل کوئی شہر بچا ہی نہیں ہے۔ تباہ عمارتوں، بکھرے خوابوں اور پھیلی لاشوں کا ایک قریہ ہے جس کا کنٹرول سنبھال کر باغی یا پھر حکومت دونوں میں سے کوئی بھی اپنی اقتدار کی انانیت کو سکون پہنچا سکتا ہے۔ جب باغیوں کے بھاگنے کا راستہ بند ہو گیا تو اچانک خبروں کی نوعیت بدل گئی۔ شامی فوج کے ذریعہ مبینہ طور پر شہریوں پر ظلم و زیادتی کا پہاڑ توڑے جانے کی خبریں گردش کرنے لگیں اور یکلخت بات اس پر ہونے لگی کہ کیسے فوج شہریوں کو مار رہی ہے، یہ بات بھلا دی گئی کہ ان علاقوں کو چار برس سے باغیوں نے قبضے میں لے رکھا تھا۔ ان باغیوں میں خدمت خلق کو وطیرہ جاننے والے مومنین نہیں بلکہ النصرہ فرنٹ جیسی دہشت گرد تنظیمیں شامل ہیں۔ اب بات یہاں آن پہنچی ہے کہ باغیوں کو نکلنے کے لئے رستہ دیا گیا ہے اور انہیں حکومت کے کنٹرول سے باہر علاقے ادلب پہنچایا جا رہا ہے۔

شام کی صورتحال کے حوالے سے چند نکات ذہن نشین رہنے چاہئیں۔

اول:شام کے صدر بشار الاسد کو آمر قرار دے کر ان کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی حلب اور ادلب پر امارت کو صحیح بتانا خلاف عقل ہے۔ کیونکہ اگر شامی صدر کا انتخاب کسی صحیح جمہوری عمل کے تحت نہیں ہوا ہے اور ان کا اقتدار اس بنیاد پر ناجائز ہے تو حلب اور ادلب پر قبضہ کیے بیٹھے باغیوں کو کس انتخاب یا ریفرنڈم کے ذریعہ چنا گیا ہے؟ اگر اسد زبردستی شامیوں کے سروں پر مسلط ہیں تو باغی بھی کسی جمہوری عمل سے چن کر نہیں آئے اس لئے اسد کو جمہوریت کا طعنہ دے کر بعض علاقوں پر قبضہ کرنے والے باغی کوئی اخلاقی حق نہیں رکھتے ہیں۔

دوم:شامی صدر نے بار بار اس بات پر اصرار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ان کے ملک میں انتخابات کرا لئے جائیں۔ اگر امریکہ، سعودی عرب، ترکی یا ان کے ہم خیال ممالک واقعی مانتے ہیں کہ اسد اقتدار پر کنڈلی مارے بیٹھے ہیں تو کیوں نہ باغیوں کے ذریعہ گوریلا جنگ کے بجائے پرامن طریقے سے اقوام متحدہ کی نگرانی میں چناؤ کرا لیا جائے تاکہ خون بھی نہ بہے اور اسد کا بھی قصہ تمام ہو۔

سوئم:اسد کی آمریت کی دلیل دے کر اگر سعودی عرب اور مغرب باغیوں کو اسلحہ دینے کا حق رکھتے ہیں اور شامی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کی حمایت کر سکتے ہیں، تو جمہوریت تو سعودی عرب میں بھی نہیں ہے۔ بے چینی تو سعودی حکومت کے خلاف وہاں کے شیعہ شہریوں میں بھی ہے تو پھر کیوں نہ ایران، شام، حزب اللہ اور روس وہاں شیعوں کو اسلحے دے کر مسلح بغاوت شروع کرا دیں؟ ایسا کرنے پر سعودی عرب اور اس کے دوستوں کو شکایت تو نہیں ہوگی؟

چہارم:اگر شام میں روس باغیوں پر بمباری کرکے انسانیت کا لہو بہا رہا ہے، ایران، روس اور حزب اللہ شامی حکومت کی مدد کرکے انسانوں کو مار رہے ہیں تو یمن میں سعودی عرب اور اس کی اتحادی افواج کیا لوگوں پر پھول برسا رہی ہیں؟ پس یمن کی منصور ہادی حکومت کو بحال کرانے کے لئے جس حق کے تحت سعودی عرب اور اس کے ساتھی یمن پر بموں کی برسات کا حق رکھتے ہیں کیا اسی دلیل کے تحت شام میں اسد کی حکومت کو بچانے کے لئے ایران اور روس شامی حکومت کی عسکری مدد کا حق نہیں رکھتے؟

پنجم:اگر کسی ملک میں حکومت کے خلاف بغاوت انقلاب ہی ہوا کرتی ہے تو کیا یہ مان لیا جائے کہ سعودی عرب کے خطیف میں بڑے حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے وہاں انقلاب کی آہٹ ہیں؟ لگے ہاتھ یہ بھی بتایا جائے کہ شیعہ عالم شیخ نمر کو پھانسی کیوں دے دی گئی جب کہ وہ اسی انقلاب میں ہی تو حصہ لے رہے تھے؟

ششم:بغاوت اور انقلاب کے درمیان وہ کون سا خط فاصل ہے جسے صرف سعودی اور اس کے دوست ہی جانتے ہیں؟ بحرین میں عوامی مزاحمت بغاوت، یمن میں بغاوت لیکن شام میں یہی مزاحمت انقلاب کب اور کیسے بن جاتی ہے؟

ہفتم:سوال صرف سعودی عرب سے ہی نہیں ہیں ایران سے بھی ہیں۔ اس کے نزدیک اگر ہر بغاوت سرکشی ہی ہے تو یمن اور بحرین کی مزاحمت کو اس کی مدد کیا معنی؟

ہشتم:ایران یہ بھی بتائے کہ سعودی عرب بحرین میں جاکر عوامی مزاحمت کو کچل رہا ہے تو وہ بھی تو شام میں باغیوں کے خلاف عسکری مہمات میں شریک ہے۔ ایسے میں وہ سعودی عرب کو طعنہ دینے کا کوئی حق کیسے رکھتا ہے؟

نہم:شام کے وہ باغی جنہیں، سعودی عرب، اس کے دوستوں اور مغرب نے کھاد، پانی، اسلحہ، تربیت، گھوڑا، گاڑی سب کچھ دیا، انہیں گوریلا جنگ میں کودنے لائق بنایا، انہیں باغیوں کی ایک جماعت آج داعش کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ وہی داعش جس کے ہاتھ یورپ سے لے کر ایشیا تک کے نہ جانے کتنے بے گناہوں کے خون سے رنگین ہیں۔ کیوں نہ ان سب کے خون ناحق کا ذمہ دار سعودی عرب اور اس کے ساتھیوں کو بھی مانا جائے کیونکہ انہوں نے ہی باغیوں کو مسلح کرنے کی شکل میں داعش کی داغ بیل ڈالی تھی۔

دہم:ایک آخری سوال یہ بھی کہ کیا شام اور یمن سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری درپردہ جنگ کے آخری میدان ہیں یا پھر ابھی کچھ اور مقتل سجیں گے؟ یمن اور شام کے ہزاروں بے گناہوں کے لہو سے سعودی عرب، ایران، بشار الاسد، روس، منصور ہادی ان سب کا دل نرم ہوا یا ابھی کچھ اور لہو بہنا باقی ہے؟

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments