مصباح الحق: ’بطور کھلاڑی اور کپتان کامیاب ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کامیاب کوچ بھی ثابت ہوں‘


کرکٹ، مصباح الحق
مصباح الحق پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ تاریخِ کے کامیاب ترین کپتان ہیں تاہم بطور کوچ ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان موجود ہے
پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ مصباح الحق کا کہنا ہے کہ اہم کھلاڑیوں کی انجری اور کووڈ 19 کی وجہ سے بنائے گئے بائیو سکیور ببلز کے باعث ناکافی تیاریاں پاکستان کی دورہ نیوزی لینڈ میں خراب کارکردگی کا باعث بنیں۔

کوچنگ کے عہدے سے ہٹائے جانے کی افواہوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق کپتان کا کہنا تھا کہ بطور ہیڈ کوچ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرکٹ کمیٹی کو پریزنٹیشن دیں اور اپنی تجاویز دیں جس پر بورڈ غور کرے گا۔ یاد رہے کہ نیوزی لینڈ کے دورے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد بورڈ کی کرکٹ کمیٹی کا اجلاس منگل 12 جنوری (کل) کو ہو رہا ہے جس میں ٹیم کی نیوزی لینڈ کے دورے میں کارکردگی کے بارے میں غور کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس کو ہٹائے جانے کی خبروں کی تردید کی گئی ہے۔

لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصباح الحق نے کہا کہ نیوزی لینڈ میں قومی کرکٹ ٹیم نے سو فیصد کارکردگی دکھانے کی کوشش کی لیکن تین ہفتوں تک ہوٹل کے کمروں میں بند رہنا اور بائیو سکیور ببل کی پابندیوں کے باعث کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔

’ہماری ٹیم نے پوری کوشش کی تھی لیکن یہ اعتراف کرنا ضروری ہو گا کہ نیوزی لینڈ نے ہم سے کہیں بہتر کھیل پیش کیا۔ لیکن یاد رکھنا ہوگا کہ دنیا بھر میں کوچز کا ماننا ہے کہ بائیو سکیور ببل میں رہتے ہوئے نہ صرف کھلاڑی کی میدان میں کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ کھلاڑی ذہنی طور پر بھی متاثر ہوتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ فخر زمان کی غیر موجودگی کی وجہ سے پاکستان دشواری ہوئی اور بعد میں بابر اعظم کے انجرڈ ہو جانے سے اور نقصان ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

مصباح کا ‘ٹرائل اینڈ ایرر’ کہاں تک چلے گا؟

پاکستان کی کپتانی کا میوزیکل چیئر گیم اور بابر اعظم کا ستارہ

’یہ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کی سزا نہیں بلکہ ایک پیشہ ورانہ فیصلہ ہے‘

مصباح الحق کی پیر کو لاہور میں ہونے والی پریس کانفرنس سے قبل خبریں گرم تھیں کہ کرکٹ کمیٹی اس تجویز پر بھی غور کر رہی ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز سے قبل ہی ہیڈ کوچ کو تبدیل کیا جائے، اور چونکہ اس سیریز میں بہت کم وقت رہ گیا ہے لہٰذا عارضی کوچ کا تقرر کیا جائے اور پھر سیریز کے بعد باقاعدہ اشتہار دے کر نئے کوچ کی تقرری کر دی جائے گا۔

تاہم بعد میں پی سی بی نے فی الحال کسی بھی تبدیلی کی خبر کو مسترد کر دیا ہے۔

کرکٹ

کامیاب ٹیسٹ کپتان مصباح بطور کوچ اچھی کارکردگی کیوں نہ دکھا سکے؟

پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے سب سے کامیاب کپتان مصباح الحق کوچ کی حیثیت سے کامیاب کیوں ثابت نہیں ہو سکے، یہ سوال صرف پاکستان اور کرکٹ کی حد تک محدود نہیں اور نہ ہی مصباح الحق واحد ایسے کوچ ہیں۔

یہ بڑی پرانی بحث ہے کہ کیا ایک کامیاب کھلاڑی اور کپتان کامیاب کوچ ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں۔ فٹبال کی دنیا میں اس کی سب سے بڑی مثال شہرہ آفاق فٹبالر ڈیاگو میراڈونا کی دی جاتی ہے، جبکہ کرکٹ میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔

دوسری جانب کئی ایسے نام بھی موجود ہیں جنھوں نے بین الاقوامی کرکٹ یا تو بالکل نہیں کھیلی یا پھر برائے نام کھیلی لیکن کوچ کی حیثیت سے وہ بے حد کامیاب رہے ان میں مکی آرتھر، مائیک ہیسن، گراہم فورڈ، جان بکانن، ٹریور بیلس اور ڈنکن فلیچر کے نام قابل ذکر ہیں۔

دو عہدوں کی وجہ سے مصباح الحق ناکام؟

آصف اقبال کہتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کا کام ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ اس نے جس شخص کو جو ذمہ داری سونپی ہے کیا وہ اسے اچھی طرح نبھا رہا ہے یا نہیں؟‘

مشتاق محمد کہتے ہیں ʹمصباح الحق اگر کوچ کی حیثیت سے کامیاب نہیں رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اُنھیں ہیڈ کوچ، بیٹنگ کوچ اور چیف سلیکٹر، سب ذمہ داریاں ایک ساتھ تھما دیں تھیں۔‘

انتخاب عالم کے مطابق مصباح الحق نے ’بیک وقت دو عہدے لے کر اپنے ساتھ زیادتی کی اور اپنے اوپر ضرورت سے زیادہ بوجھ لے لیا۔ ٹیم کی خراب کارکردگی کی ایک وجہ یہی ہے کہ اُنھوں نے دو عہدے اپنے پاس رکھے۔ وہ اپنے کھلاڑیوں سے بہترین کارکردگی لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔‘

بابر اعظم، مصباح الحق

ٹیسٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے بابر اعظم (بائیں) کی پہلی ذمہ داری نیوزی لینڈ کے دورے میں دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز تھی جس میں پاکستان کو شکست ہوئی

انتخاب عالم اس کمیٹی میں شامل تھے جسے پاکستان کرکٹ بورڈ نے کوچ تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس کمیٹی نے ہیڈ کوچ کے لیے مصباح الحق کا نام تجویز کیا تھا۔

انتخاب عالم کہتے ہیں ’دنیا بھر میں یہی رواج ہے کہ کوچ بناتے وقت آپ یہ دیکھتے ہیں کہ مارکیٹ میں کون سے کوچ دستیاب ہیں۔ ان کی سی وی دیکھی جاتی ہے کہ اُنھیں انٹرنیشنل سطح پر کوچنگ کا کتنا تجربہ ہے، جن ٹیموں کے ساتھ وہ رہے ہیں، ان کی کامیابی کا تناسب کیا تھا، لوگوں سے بھی اُن کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں، پھر کہیں جا کر آپ کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں۔‘

اُن کے مطابق پاکستان میں زبان کا مسئلہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی غیر ملکی کوچ کو رکھتے ہیں تو کھلاڑیوں کے ساتھ رابطے کے لیے مترجم کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔

’بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسے کرکٹرز نہیں ہیں جو کوچنگ میں مہارت رکھتے ہوں، اسی لیے آپ کو غیر ملکی کوچز کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔‘

کیا ساری ذمہ داری مصباح پر ڈالنا درست؟

سپورٹس صحافی شاہد ہاشمی کہتے ہیں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حالیہ ناکامیوں کی تمام تر ذمہ داری صرف مصباح الحق پر عائد کر دینا زیادتی ہو گی کیونکہ کوچنگ سٹاف میں بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کوچ بھی ہوتے ہیں اور یہ سب بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کوچ جس قدر ممکن ہو، کھلاڑیوں کو حکمت عملی اور دیگر ضروری باتیں بتاتا ہے۔ اس کے بعد یہ کھلاڑیوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ میدان میں ان پر کتنا عمل کرتے ہیں۔

شاہد ہاشمی کہتے ہیں کہ سات برسوں کے دوران پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ میں 16 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں اور تمام کے تمام ہارے ہیں، جبکہ نیوزی لینڈ میں پاکستانی ٹیم نے آخری بار ٹیسٹ سیریز 2011 میں جیتی تھی۔

ان کے مطابق مصباح الحق نے بحیثیت کوچ تین سخت دورے کر لیے ہیں، اب اس مرحلے پر اُنھیں ہٹانا غلط ہو گا۔

’کرکٹ بورڈ پہلے ہی سرفراز احمد اور اظہر علی کو کپتانی سے ہٹا چکا ہے۔ اگر کارکردگی میں تسلسل لانا ہے تو کپتان کے ساتھ ساتھ کوچ کو بھی اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ بار بار کی تبدیلی مسئلے کاحل نہیں ہے۔‘

کوچنگ سے زیادہ رہنمائی کی ضرورت

کرکٹ

مصباح الحق اور مکی آرتھر

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان آصف اقبال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر انٹرنیشنل کرکٹ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ کئی کامیاب کپتان یا کرکٹرز کامیاب کوچ نہیں بن سکے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کوچنگ ایک ’کوالیفائڈ پروفیشن‘ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی کھلاڑی یہ سوچے کہ میں اگر ایک اچھا کھلاڑی تھا تو اچھا کوچ بھی بن سکتا ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ کوچنگ کی اہلیت یہ ہوتی ہے کہ کوچ کھلاڑیوں سے کس طرح کام لیتا ہے۔

’زندگی کے ہر شعبے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پروفیسر ہوں یا افسر، وہی کامیاب ہوتے ہیں جن میں اپنے ماتحت افسروں اور طلبہ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی اہلیت موجود ہوتی ہے۔‘

آصف اقبال اس سلسلے میں جاوید میانداد، کپل دیو اور گریگ چیپل کی مثالیں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ تینوں اپنے دور کے بہت بڑے کھلاڑی تھے لیکن کوچ کی حیثیت سے کامیاب ثابت نہ ہو سکے۔ صرف یہی تین نہیں بلکہ ایسے کئی بڑے کرکٹرز ہیں جو کوچنگ کے شعبے میں ناکام ثابت ہوئے۔‘

آصف اقبال کہتے ہیں ’اگر چند بڑے کرکٹرز کوچ کی حیثیت سے کامیاب رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ خود اپنے دور کے بڑے کرکٹرز تھے بلکہ وہ کوچ کے طور پر اس لیے کامیاب ہوئے کہ ان کی ٹیم مینیجمنٹ کی صلاحیت بہت اچھی تھی اور انھوں نے اپنے کھلاڑیوں سے درست انداز میں کام لیتے ہوئے ٹیم کے لیے بہترین نتائج حاصل کیے اس کی بڑی مثالیں اینڈی فلاور اور گیری کرسٹن ہیں۔‘

جاوید میانداد

جاوید میانداد کے بارے میں سابق کپتان مشتاق محمد کا کہنا ہے کہ وہ کامیاب کوچ بن سکتے تھے لیکن انھیں کام لینا نہیں آتا تھا

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور کوچ انتخاب عالم کہتے ہیں کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ایک تربیت کار اور ماہر نفسیات کی ضرورت ہے جو کھلاڑیوں کو بھرپور اعتماد دے سکے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کوچنگ چھ سے 14 سال تک کی عمر تک کے لیے ہوتی ہے جہاں بچوں کو آپ بنیادی باتیں سکھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد جب وہ کرکٹرز فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے کھیلتے انٹرنیشنل کرکٹ میں آتے ہیں تو انھیں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

’جس کرکٹر نے پندرہ بیس ٹیسٹ کھیل لیے ہوں، آپ اس کی کیا کوچنگ کریں گے؟‘

انتخاب عالم کہتے ہیں ’ایسے کئی نام ہمیں نظر آتے ہیں جو بڑی سطح پر کرکٹ نہیں کھیلے لیکن ان کا بولنے اور سمجھانے کا طریقہ بہت اچھا تھا اسی لیے وہ کوچنگ میں کامیاب رہے۔ جس طرح تعلیمی اداروں میں کئی اساتذہ ہوتے ہیں لیکن ان میں چند ہی ایسے ہوتے ہیں جن کے پڑھانے اور سمجھانے کا طریقہ بہترین ہوتا ہے کوچنگ بھی ایسے ہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ معمول کی بات ہے کہ اگر کوئی اپنے دور کا بہت اچھا بیٹسمین تھا تو اسے بیٹنگ کوچ بنا دیں یا کوئی بہت اچھا بولر تھا تو اسے بولنگ کوچ بنا دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بالکل غلط ہے۔‘

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ایک اور سابق کپتان مشتاق محمد اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں ’سرگیری سوبرز اور ویوین رچرڈز سے بڑے کرکٹرز اور کون ہو سکتے ہیں؟ لیکن یہ دونوں اچھے کوچز نہیں بن سکتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اچھا کوچ بننے کے لیے مزاج بہت اہمیت کا حامل ہے، کہ کھلاڑی اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے کس طرح کا رویہ رکھتا ہے اور کس طرح ان سے کام لے کر بہتر نتائج دے سکتا ہے۔‘

مکی آرتھر

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر، جن کی کوچنگ میں ٹیم نے 28 ٹیسٹ میچ کھیلے، جن میں سے 10 میچ جیتے، 17 ہارے جبکہ ایک ٹیسٹ ڈرا رہا، یوں ان کے ماتحت ٹیم کی فتح کا تناسب مصباح الحق کے مقابلے میں بہتر تھا

مشتاق محمد مزید کہتے ہیں ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک کرکٹر جب کھیل رہا ہوتا ہے تو اس جیسی صلاحیت کسی دوسرے کے پاس نہیں ہوتی، اسی لیے اسے کوچ کے طور پر ُچنا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں سے مطلوبہ نتائج لے سکتے ہیں تو اسی صورت میں آپ کامیاب کوچ ہیں۔ʹ

مشتاق محمد اس ضمن میں جاوید میانداد کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں ’جاوید میانداد صحیح معنوں میں کوچ مٹیریل ہیں۔‘

ان کے مطابق میانداد ایک ایسے کرکٹر تھے جو کامیاب کوچ بن سکتے تھے لیکن وہ کھلاڑیوں سے صحیح انداز میں کام نہیں لے سکتے تھے۔

میں جیسا تھا دوسرے بھی ایسا ہی کریں

تینوں سابق کپتان آصف اقبال، انتخاب عالم اور مشتاق محمد اس نکتے کو خاص طور پر اجاگر کرتے ہیں کہ جب بڑے کرکٹرز کوچ بنتے ہیں تو وہ کھلاڑیوں کو اپنے جیسا دیکھنا چاہتے ہیں، جو ظاہر ہے کہ ممکن نہیں ہے۔

انتخاب عالم اسے انا کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں ’یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی کوچ اپنے بیٹسمین اور بولر کو اس بات پر مجبور کرے کہ مجھ جیسا کر کے دکھاؤ بلکہ اس کوچ کا اصل کام اس کرکٹر میں جتنی بھی صلاحیت موجود ہے اسے اجاگر کرنا ہے۔ آپ نے اپنا تجربہ بیان تو کرنا ہے لیکن اسے دوسرے پر مسلط نہیں کرنا۔‘

آصف اقبال کہتے ہیں ’سب سے بڑا سوالیہ نشان وہاں آتا ہے جب کسی ٹیسٹ کرکٹر سے کوچ آ کر یہ کہتا ہے کہ تم یہ غلط کر رہے ہو، تو وہ کرکٹر سوچتا ہے کہ وہ اسی انداز کے ساتھ یہاں تک پہنچا ہے اور پرفارم بھی کر رہا ہے، تو اب اسے کیوں کہا جا رہا ہے کہ یہ غلط ہے اور اسے اپنا یہ انداز تبدیل کرنا چاہیے؟‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ کوچ اپنے کھلاڑیوں سے یہ توقعات رکھ لیتے ہیں کہ وہ انھی کی طرح بن کر دکھائیں یعنی اگر وہ خود ایسا کرسکتے ہیں تو دوسرے کیوں نہیں کر سکتے؟

آصف اقبال کے خیال میں ’ان کوچز کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ میں اتنا بڑا کھلاڑی تھا اور اب میں کوچ کی حیثیت سے کسی کھلاڑی کو کچھ بتا رہا ہوں تو وہ اسے سمجھ میں کیوں نہیں آ رہا، اسی وجہ سے یہ کوچز اپنے کھلاڑیوں سے اسی طرح کی کارکردگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ایسے کوچ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ہر کھلاڑی کا اپنا معیار ہوتا ہے اور وہ جن کھلاڑیوں سے اپنے جیسی کارکردگی کی توقعات رکھتے ہیں وہ کھلاڑی ان کوچز جیسے نہیں ہیں۔ ان میں ابھی وہ قابلیت نہیں ہے لیکن آگے چل کر وہ بھی بڑے کھلاڑی بن سکتے ہیں۔‘

سٹیو سمتھ

آسٹریلوی بلے باز سٹیو سمتھ کا شمار دنیا کے بہترین ٹیسٹ کرکٹرز میں ہوتا ہے

آصف اقبال آسٹریلوی بیٹسمین سٹیو سمتھ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی کوچ سمتھ کا بیٹنگ سٹائل کسی بھی کوچنگ مینوئل کے اعتبار سے منظور نہیں کرے گا لیکن ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، اسی لیے انھیں کوچز نے آزادی دے رکھی ہے کہ وہ اپنے اسٹائل سے کھیلیں، کیونکہ وہ رنز کررہے ہیں۔‘

آصف اقبال کہتے ہیں کہ وہ یہ بات بالکل قبول نہیں کریں گے کہ ٹیسٹ کرکٹر بننے کے بعد انھیں کوئی آ کر یہ کہے کہ تم جو کر رہے ہو یہ میرے مطابق نہیں ہے، یا کوچنگ مینوئل کے مطابق نہیں ہے۔ ’کوچ کا سب سے بڑا کام کھلاڑی کو اعتماد دینا ہے۔‘

مختصر کوچنگ اسٹاف

آصف اقبال ٹیم کے ساتھ بڑی تعداد میں کوچنگ سٹاف کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں ʹٹیم کے ساتھ صرف ہیڈ کوچ، فیلڈنگ کوچ اور فزیکل ٹرینر کی موجودگی ضروری ہے۔ یہ لمبا چوڑا کوچنگ سٹاف جس میں بیٹنگ کوچ، بولنگ کوچ وغیرہ شامل ہوتے ہیں بالکل غیرضروری ہے، یہ سب کچھ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ہوجانا چاہیے۔‘

انتخاب عالم کہتے ہیں کہ اتنا بڑا کوچنگ سٹاف فیشن بن گیا ہے۔

’ہمارے زمانے میں کوچنگ نہیں تھی۔ اپنے بڑوں سے سن کر، ان سے بات کر کے کھیل سیکھا۔ کرکٹ کا کھیل نہیں بدلا ہے، بلکہ صرف سوچ میں فرق آیا ہے کہ آپ موازنہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ صرف فٹنس کے معیار میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی وجہ سے بہت زیادہ فرق آیا ہے لیکن ٹیم کے ساتھ لمبے چوڑے کوچنگ سٹاف کی ضرورت نہیں ہے۔ تیس سے 35 افراد کی موجودگی میں ڈریسنگ روم مچھلی بازار معلوم ہوتا ہے۔‘


بحیثیت کوچ مصباح الحق کے اعداد و شمار

کھیلے گئے ٹیسٹ: 10، فتح: 2، شکست: 5، ڈرا: 3

ون ڈے انٹرنیشنل: 6، فتح: 4، شکست: 1، نامکمل 1

ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل: 18، فتح: 7، شکست: 8، نامکمل 3


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp